سراج الحق کی اپیل پر مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف ملک گیر احتجاج

جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت نے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف ملک گیر سطح پر ایک تحریک چلانے اور عوام کو منظم کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ اسی پروگرام کے تحت اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، فیصل آباد، ملتان اور کراچی سمیت ملک کے ہر بڑے شہر میں مظاہرے ہوئے اور احتجاج کیا گیا۔ اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے ہونے والے مظاہرے کی قیادت جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے کی، جبکہ جماعت اسلامی شمالی پنجاب کے امیر ڈاکٹر طارق سلیم، جماعت اسلامی کے نائب امیر میاں محمد اسلم، جماعت اسلامی اسلام آباد کے امیر نصر اللہ رندھاوا اور جے آئی یوتھ کے اویس اسلم اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ جماعت اسلامی راولپنڈی کے امیر عارف شیرازی بھی شریک ہوئے۔ خراب موسم کے باوجود شرکاء جم کر کھڑے رہے۔ سراج الحق نے اپنے خطاب میں کہا کہ بے روزگاری کے سونامی میں نوجوانوں کی ڈگریاں ردی کا ٹکڑا بن گئیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں بے روزگاری میں دو سو فیصد اضافہ ہوا۔ لاکھوں نوجوان ڈگریاں اٹھائے روزی کی تلاش میں گھوم رہے ہیں لیکن حکومت روزگار کے وسائل پیدا کرنے کے بجائے لنگرخانے کھول رہی ہے۔ پرائیویٹ اور پبلک سیکٹرز بحران کا شکار ہیں۔ تاجر، کسان، مزدور سب مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔ موجودہ حکمران بے روزگاری و مہنگائی کی ذمہ داری پچھلی حکومتوں پر ڈال کر خود خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔گڈ گورننس، اداروں کے استحکام اور کرپشن کے خاتمے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ تین سال میں حالات ماضی سے بھی بدتر ہوگئے ہیں۔ حکومت نے قرضے نہ لینے کا وعدہ کیا تھا، مگر اس ضمن میں ماضی کے سبھی ریکارڈ توڑ دیے۔ ثابت ہوگیا کہ پی ٹی آئی کے پاس کوئی ویژن نہیں۔ ماضی کی حکومتیں بھی ملک کو مسائل سے دوچار کرنے میں برابرکی ذمہ دارہیں۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا ٹولہ صرف اپنی جیبیں بھررہا ہے، عوام سے کسی کو کوئی غرض نہیں۔ بے روزگار نوجوانوں کو چترال سے کراچی تک منظم کریں گے۔ حکومت مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ کرے یا گھر جائے، عوام مزید ظلم و ناانصافی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ 4 جولائی سے پورے ملک میں حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف احتجاج کا آغاز ہو گا۔ مسائل کے حل تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا جماعت اسلامی کی سیاست کا مقصد ہے۔ نوجوان ملکی مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر جدوجہد کریں۔ سراج الحق نے کہا کہ ملک میں تعلیمی، عدالتی اور صحت کا نظام تباہی سے دوچار ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت تبدیلی کے بڑے بڑے دعوے کرکے اقتدار میں آئی، مگر تین سال گزرنے کے باوجود عوامی فلاح کے لیے کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا۔ ملک کو مدینہ کی ریاست میں بدلنے کا اعلان کیا گیا، مگر سودی نظام کی بھرپور پذیرائی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان کیا تھا، مگر آج پبلک اور پرائیویٹ سیکٹرز میں نوکریاں ناپید ہوچکی ہیں اور لاکھوں نوجوان اپنے مستقبل کے لیے پریشان ہیں۔ حکومت تین سال میں اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکی، معاشی استحکام کے لیے کوئی پالیسی تشکیل نہیں دی گئی۔ زراعت اور صنعت کا برا حال ہے۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ 73برسوں میں ملک کو بحرانوں سے دوچار کیا گیا، ملکی وسائل کو بے دردی سے لوٹا گیا، اور اشرافیہ نے اپنی جیبیں بھریں۔ وزیراعظم اقتدار میں آنے سے لے کر اب تک مافیاز کو عوامی مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، مگر مافیاز اُن کے اردگرد بیٹھے ہیں جن کے خلاف آج تک کارروائی نہیں کی گئی۔ سراج الحق نے کہا کہ ملک کے 98 فیصد عوام کی حالت میں نہ پہلے کوئی تبدیلی آئی اور نہ پی ٹی آئی کی حکومت کے تین سال میں۔ بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔ عوام کی اکثریت صاف پانی تک کی عدم دستیابی کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ لفظوں کے ہیر پھیر سے عوام کی حالت نہیں بدلے گی۔ حکومت نے تین سال میں بلدیاتی الیکشن کروانے کا نام تک نہیں لیا۔ ثابت ہوگیا کہ تینوں بڑی پارٹیاں ایک ہی ایجنڈے پر کام کرتی ہیں۔ جماعت اسلامی قرآن و سنت کے نظام کے نفاذ کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ ہمارا عزم اور حوصلے بلند ہیں۔ ملک پر قابض ظالم اشرافیہ سے ضرور جان چھوٹے گی۔ نوجوانوں کو متحد ہوکر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہوگی۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔ پاکستان کی معیشت اور نظریے پر مغربی ایجنٹ اور سرمایہ دار و جاگیردار ہر طرح سے حملہ آور ہورہے ہیں، اور یہ کھیل گزشتہ کئی دہائیوں سے کھیلا جارہا ہے۔ اس خطے کے کروڑوں مسلمانوں نے متحد ہوکر اسلام کی خاطر یہ ملک حاصل کیا، مگر قائداعظم ؒ کی وفات کے تھوڑے عرصے بعد وہ لوگ اقتدار پر قابض ہوگئے جنہوں نے مغرب کا ایجنڈا آگے بڑھایا۔ ہماری معیشت مکمل طور پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قبضے میں ہے۔ امیر امیر ترین بن چکے، اور غریب غریب ترین ہوگئے۔ یہ نظام جاری رہا تو نوجوان مزید بے روزگار ہوں گے، غربت بڑھے گی، مگر جو طبقہ پہلے سے اربوں میں کھیل رہا ہے اُس کی دولت میں مزید اضافہ ہوگا۔
جماعت اسلامی راولپنڈی نے بھی امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی اپیل پر مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے خلاف یوم احتجاج منایا۔ اس سلسلے میں راولپنڈی میں بھی مریڑ چوک مری روڈ پر مظاہرہ کیا گیا اور جماعت اسلامی کے دفتر سید مودودی بلڈنگ سے ریلی نکالی گئی۔ مظاہرے کے شرکاء سے جماعت اسلامی پنجاب کے نائب امیر قاضی محمد جمیل، جماعت اسلامی راولپنڈی کے امیر سید عارف شیرازی، جماعت اسلامی راولپنڈی کے سیکرٹری عثمان اکاش، نائب امرا میں رضا احمد شاہ، سید عذیر حامد اور خالد محمود مرزا نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ مقررین نے کہا کہ حکومت نے عوام سے جو وعدے کیے تھے وہ سب بھول چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت اب تک ناکام ہے۔ غریب کی زندگی اجیرن بنادی گئی ہے، بجٹ کے فوراً بعد بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔ حکومت غریب کُش پالیسی پر عمل درآمد کررہی ہے۔ مدینہ کی ریاست بنانے کے دعوے داروں نے مغربی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے سینیٹ سے خاندانی نظام کو برباد کرنے کا بل پاس کروایا ہے۔ ہمارے حکمران یورپ اور امریکہ کے دبائو کے تحت دستورِ پاکستان سے اسلامی دفعات نکالنا چاہتے ہیں۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ایجنٹوں کو ملک پر مسلط کردیا گیا ہے۔ حکمران ہوش کے ناخن لیں اور عوامی مفاد میں پالیسیاں بنائیں۔
مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف مظاہروں کے اعلان سے دو روز قبل جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے انتخابی اصلاحات کے لیے جماعت اسلامی کی تجاویز پریس کانفرنس میں رائے عامہ کے جائزے کے لیے پیش کیں۔ نائب امراء لیاقت بلوچ، میاں محمد اسلم، امیر جماعت اسلامی شمالی پنجاب ڈاکٹر طار ق سلیم اور امیر ضلع اسلام آباد انجینئر نصر اللہ رندھاوا بھی پریس کانفرنس میں موجود تھے۔ سراج الحق نے جو تجاویز پیش کی اُن میں کہا گیا کہ آزاد امیدواروں پر الیکشن لڑنے پر پابندی ہونی چاہیے، انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں تو آزاد امیدوار نہیں ہونے چاہئیں۔ الیکشن کے بعد آزاد امیدواروں کی خرید وفروخت کا راستہ کھل جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی زیرنگرانی پارٹی انتخابات نہ کروانے والی سیاسی جماعت پر پابندی ہونی چاہیے۔ الیکشن ایکٹ 2020ء بدنیتی پر مبنی اور آئندہ الیکشن میں دھاندلی کا منصوبہ ہے، چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کا عمل دخل ختم کرکے اختیار سپریم کورٹ کو دیا جائے۔ انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو ختم کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں مذاکرات کریں۔ متناسب نمائندگی کا قانون متعارف کروائے بغیر ملک میں حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہوسکتی۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین، بائیو میٹرک سسٹم اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے حق میں ہیں۔ الیکشن میں دولت کے عمل دخل کو روکنے کا قانون موجود ہے، عمل درآمد نہیں ہوتا۔ آئین کی دفعات 62-63 پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد ہو، یہ دفعات نفلی عبادت نہیں ہیں، ان کا تعلق منتخب نمائندوں کے کنڈکٹ سے ہے۔ پولنگ اسٹیشن کے اندر اور احاطے میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں۔ انتخابات کی نگرانی کرنے والے آزاد اداروں اور میڈیا کے نمائندوں کو الیکشن کے عمل کی مانیٹرنگ کی مکمل اجازت ہو۔ پولیس اور آرمی کے جوان پولنگ اسٹیشنوں کے باہر سیکورٹی کے لیے مامور کیے جائیں۔ الیکشن عمل کی مانیٹرنگ کے لیے ہر ضلع کی سطح پر ایک مانیٹرنگ کمیشن بنایا جائے جس کی رپورٹ پر الیکشن کمیشن عمل درآمد کرے۔
سراج الحق نے کہاکہ جماعت اسلامی کے مرکزی قائدین تمام سیاسی جماعتوں سے اس مسودے پر مذاکرات کریں گے اور کوشش کی جائے گی کہ ایک مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرلیا جائے۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ کیا سیاسی پارٹیاں اس مسودے پر متفق ہوجائیں گی؟تو امیر جماعت نے کہاکہ سبھی سیاسی پارٹیاں الیکشن اصلاحات چاہتی ہیں، تمام پارٹیوں کی خواہش ہے کہ الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ختم کی جائے جو بذاتِ خود اسٹیبلشمنٹ کے لیے فائدہ مند ہے۔ انہوں نے کہاکہ چیف الیکشن کمشنرکی تقرری کے لیے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے متفق ہونے کے تلخ تجربات ماضی میں دیکھ چکے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ اس سلسلے میں سیاسی پارٹیوں کا عمل دخل مکمل ختم ہو۔ حکومت نے پہلے انتخابی اصلاحات کا بل قومی اسمبلی سے پاس کروایا، اب مذاکرات کی بات کررہی ہے، یہ سراسر بدنیتی ہے۔ الیکشن کمیشن حقیقی بنیادوں پر حلقہ بندیاں کرے اور یہ کام عجلت میں نہ کیا جائے۔ ووٹروں کی ایک حلقے سے دوسرے میں منتقلی کے عمل میں بہت ابہام ہے، اس کو شفاف بنایا جائے۔کمپیوٹرائزڈ لسٹوں کی تیاری بروقت کی جائے اور ان پر امیدواروں کی تصاویر لگیں۔ انتخابی نتائج پر پولنگ کا عملہ اور ایجنٹ متفق ہو جائیں تو اسے دیوار پر چسپاں کیا جائے۔ انتخاب کے دن میڈیا کو پابند کیا جائے کہ وہ کسی مخصوص پارٹی یا رجحان کی تشہیر نہ کرے، (باقی صفحہ 41پر)
اسمبلیوں میں کم از کم 50 فیصد نمائندگی متناسب اصول کے تحت ہو، برطانیہ اور دیگر جمہوریتوں کی طرح ریاست پیشہ ور اور اہل افراد کو انتخاب کے لیے فنڈ کرے۔ الیکشن کمیشن معاشی طور پر خود مختار اور اس کا مستقل عملہ ہو۔ الیکشن کمیشن کا ووٹنگ کے لیے دوسرے اداروں کے افراد پر انحصار ختم ہونا چاہیے۔ الیکشن کے روز خواتین اور بزرگوں کی سہولت کے لیے مکمل انتظامات ہوں۔ اوورسیز پاکستانیوں اور الیکٹرانک مشینوں پر جو اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں، انہیں دور کیا جانا چاہیے۔ ملک میں حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں جس کے لیے الیکشن کمیشن کا بااختیار ہونا اور شفاف الیکشن کا انعقاد بے حد ضروری ہے۔