’’اسلاموفوبیا ‘‘ اورمغرب کا دہرا معیار

جامعات سمیت علمی و فکری اداروں اور بالخصوص رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد یا اداروں کا بنیادی کام اہم قومی مسائل سے متعلق تحقیق ہوتا ہے۔ وہ عالمی، علاقائی، قومی، سیاسی، سماجی، اقتصادی، اخلاقی، قانونی مسائل جن کا براہِ راست تعلق حکمرانی، فیصلہ سازی، باہمی تعلقات سے ہو، اُن کے پُرامن سیاسی، علمی اور فکری حل کی تلاش ہی عالمی یا قومی سطح پر ایک مہذب اور ذمہ دار معاشرے کے طور پر کسی قوم کو پیش کرتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں جامعات میں آزادانہ بنیادوں پر تحقیق و تجزیہ اورمتبادل بیانیے کی تشکیل میں کئی طرح کی رکاوٹیں درپیش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر مسلم دنیا یا اسلام کے بارے میں جو سوالات منفی بنیادوں پر اٹھ رہے ہیں ان کو ہم علمی وفکری بنیادوں پر تحقیق کے بجائے ردعمل کو کافی سمجھ رہے ہیں۔
اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں دنیا اوربالخصوص مغرب میں اسلاموفوبیا کی لہر نے مغرب اور مشرق سمیت مسلم یا غیر مسلم دنیا میں تقسیم پیدا کررکھی ہے۔ اسلام کے بارے میں مذہبی تعصب نمایاں ہے اور اس کے نتیجے میں جان بوجھ کر اسلام اور مسلمانوں کو نہ صرف نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ اسلام کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے جوڑ کر مسلم دنیا میں ایک خاص حکمتِ عملی کے تحت اشتعال انگیزی، نفرت، تشدد،لاقانونیت کو بنیاد بناکر یہ سوچ اور فکر اجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عملی طور پر اسلام انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مسئلہ محض مسلم دنیا یا مسلم دنیا سے جڑے مسلم اسکالرز یا اہلِ علم و دانش کا نہیں، بلکہ دنیا میں بھی اس اسلاموفوبیا کے بارے میں تشویش موجود ہے۔
اسی پس منظر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسدادِ دہشت گردی کی نظرثانی عالمی حکمت عملی کی متفقہ منظوری دیتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ اسلاموفوبیا، نسل پرستی اور نفرت کی بنیاد پر نئے اورابھرتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔ کیونکہ پاکستان نے او آئی سی کے دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر اسلاموفوبیا کو دہشت گردی کے ابھرتے ہوئے خطرے کے طور پر تسلیم کرانے کی کوششوں کا آغاز کیا تھا، جو نتیجہ خیز ثابت ہورہا ہے۔ کیونکہ وزیراعظم عمران خان مسلسل عالمی برادری کے سامنے اسلاموفوبیا کو ایک بڑے خطرے کے طور پر پیش کررہے ہیں، اور ان کے بقول اسلاموفوبیا صرف مسلم دنیا کے لیے ہی نہیں بلکہ خود مغرب کے لیے بھی چیلنج ہے جو خود مغرب کو کمزور کرے گا اورمسلم دنیا کے ساتھ ان کی خلیج کو نمایاں کرنے کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اقوام متحدہ نے پاکستان سمیت او آئی سی کے دبائو یا کوششوں کے پیش نظر ایک قدم آگے بڑھ کر عالمی انسداد دہشت گردی حکمت عملی کے تحت بالواسطہ یا بلاواسطہ نسلی و مذہبی امتیازکے خاتمے اورا س بنیاد پر دہشت گرد گروپوں کی جانب سے نفرت اور تشدد کی روک تھام پر زور دیا ہے۔ یاد رہے کہ عالمی انسداد دہشت گردی حکمت عملی سب سے پہلے 2006ء میں منظور کی گئی تھی جس کا سال میں دو مرتبہ جائزہ لیا جاتا ہے، اور دہشت گردی کی بدلتی ہوئی نوعیت کے مطابق اس میں ترمیم کی جاتی ہے۔
معروف سماجی دانشور، استاد، ماہرِ تعلیم اور سماجی علوم پر دسترس رکھنے والے وائس چانسلر یونیورسٹی آف اوکاڑہ ڈاکٹر زکریا ذاکر جو بنیادی طور پر تعلیمی اداروں اور بالخصوص جامعات کی سطح پر مکالمہ کے کلچر، آزادانہ بنیادوں پر تحقیق اور نئے متبادل بیانیہ سمیت ریاستی مسائل کے حل میں جامعات کے کردار پر سب سے زیادہ زور دیتے ہیں، پچھلے دنوں لاہور میں انہوں نے اپنی جامعہ کی طرف سے ایک اہم اور فکری نشست کا اہتمام کیا جس کا موضوع’’ اسلاموفوبیا‘‘ تھا۔ اس فکری نشست میں مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، تعلیمی ماہرین اور میڈیا سے وابستہ افراد نے شرکت کی۔ اس فکری نشست کے مہمانِ خصوصی پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر فضل خالد تھے، جبکہ سابق سربراہ ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر نظام الدین، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالقیوم، جامعہ بہاولپور کے سربراہ ڈاکٹر اطہر محبوب، پنجاب یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر ڈاکٹر مظہر سلیم سمیت کئی دیگر وائس چانسلرز موجود تھے۔
ڈاکٹر زکریا ذاکر کے بقول اسلاموفوبیا محض ایک مذہبی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک صنعت کی شکل اختیار کرچکا ہے جس کے ساتھ لوگوں کے بہت سے معاشی اور سیاسی مقاصد جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول اسلامو فوبیا کے پھیلائو کے اسباب میں عدم برداشت، جمہوری اقدار کی پس ماندگی اور مساوات کے اصولوں کی نفی ہے۔ لیکن اگر ہم مغرب پر تنقید کرتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنے گھر کے نظام کو بھی درست کرنا ہوگا، کیونکہ اس وقت مشرق اورمغرب میں ایک ایسے مکالمے کی ضرورت ہے جو ردعمل کی سیاست کو جنم دینے کے بجائے ایک دوسرے کے معاملات اور مسائل کو سمجھنے میں مدد دے سکے۔ ڈاکٹر زکریا کا یہ نقطہ بھی توجہ طلب ہے کہ اسلاموفوبیا محض مسلم دنیا ہی نہیں بلکہ خود مغرب کے لیے بھی خطرہ ہے، جو مشرق اورمغرب کے درمیان مذہب یا نسل پرستی کی بنیاد پر ایک بڑی تقسیم اور انتہاپسندانہ رجحانات کو فروغ دینے کا سبب بنے گا۔
بنیادی طور پر مغرب کا خود کو دیگر ملکوں یا مذہب کے مقابلے میں بالادست سمجھنا، ہر منفی عمل میں مسلمانوں اور مذہب کو خاص ٹارگٹ کرنا، یا نفرت اور تعصب کی لہر کو پروان چڑھانا جیسے امور اسلامو فوبیا کی لہر میں شدت پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان کے جو لوگ وطن سے باہر ہیں اور اقلیت میں ہیں ان کو بالخصوص اسلاموفوبیا سے جڑے مسائل کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ یہ سوچ اور فکر ہی زیادہ خطرناک ہوتی ہے کہ ہر واقعے کو اسلام اور مسلم دنیا پر ڈال کر اس کا سارا نزلہ مسلمانوں پر گرایا جائے۔ روزانہ کی بنیاد پر مغرب میں ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں جن میں مسلمانوں کو مختلف نوعیت کی شدت پسندی، دہشت گردی اور پُرتشدد واقعات یا رجحانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے خود مسلم دنیا میں داخلی سطح پر انتہا پسندی، پُرتشدد رویّے، خیالات اور دہشت گردی جیسے امور پروان چڑھے ہیں انہوں نے بھی مغرب میں مسلم دنیا یا اسلام کے بارے میں غلط تصویر پیش کی ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا ہوگا کہ کچھ غلطیاں ہم سے بھی ہورہی ہیں اور ہم بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی جواز پیش (باقی صفحہ 41پر)
کرکے خود اپنے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے مغرب پر ضرور تنقید کی جائے مگر اپنے گھر کی بھی اصلاح کرنی ہوگی۔ ردعمل یا جذباتیت کے بجائے دانش، فہم و فراست، تدبر، دلیل، شواہد اور علمی و فکری بنیادوں پر اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ مغرب کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اسلاموفوبیا خود ان کے سیکولرازم یا لبرل ازم سمیت ان کی اخلاقی قدروں کی نفی ہوگا، اور یہ عمل خود اُن کے لیے مسلم دنیا میں قبولیت کو مشکل بنادے گا۔ اس لیے مغرب کو بھی محض الزامات کے بجائے اپنی انتہا پسندی یا دہشت گردی کو فروغ دینے والی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی ہوگی۔
ہماری جامعات کا کردار سب سے اہم ہے، انہیں ان موضوعات سمیت ان کی وجوہات اور محرکات پر تحقیق کے کلچر کو اختیار کرکے اپنا بیانیہ تشکیل دینا ہوگا۔ نوجوان نسل میں یہ سماجی، سیاسی اور مذہبی شعور پھیلانا ہوگا کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ اسلاموفوبیا کیا ہے، یہ کیوں جنم لیتا ہے، اور اس کا مقابلہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔ جو کچھ مغرب میں اسلاموفوبیا کے بارے میں لکھا اور بولا جارہا ہے اس کے مقابلے میں ہمیں اپنا متبادل بیانیہ پیش کرنا ہوگا۔ لیکن کیا ہماری جامعات علم و تحقیق کے میدان سمیت قومی، علاقائی یا عالمی بیانیے کی تشکیل میں اپنا کوئی فکری کردار ادا کرسکیں گی؟ اس پر ہمیں زیادہ سوچ بچار اورعملی اقدامات کی ضرورت ہے۔