آزادکشمیر انتخابات گلگت کا ’’ایکشن ری پلے؟‘‘

آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں اب محض چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ انتخابی مہم زور پکڑرہی ہے، اور مستقبل کا دھندلا منظرنامہ کچھ کچھ واضح ہوتا نظر آتا ہے۔ یہاں کی روایت کے مطابق انتخابی مہم کا آغاز ایک تاثر سے ہوتا ہے جو آگے چل کر حقیقت کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔ وہ تاثر یہ ہوتا ہے کہ جس کی حکومت اسلام آباد میں، اُسی کی مظفرآباد میں۔ یہ تاثر اس قدر مضبوط، تیر بہدف اور آزادکشمیر کی سیاست کا سکۂ رائج الوقت ہوتا ہے کہ جس کے سامنے نہ کسی حکومت کے ترقیاتی کام ٹھیرتے ہیں، نہ کسی شخصیت کا سحر، اور نہ پُرکشش نعرے… ہر حقیقت اس ایک تاثر کے سیلاب میں خس وخاشاک کی مانند بہتی چلی جاتی ہے۔
اِس بار اوّل اوّل تو یہ تاثر زیادہ زور نہیں پکڑ رہا تھا، مگر گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج نے تیزی کے ساتھ آزادکشمیر کی سیاسی اور انتخابی حرکیات کو متاثر کرنا شروع کیا۔ یوں ہوا کا رخ دیکھ کر فیصلے کرنے والوں کا رخ پوری طرح اسلام آباد کی طرف ہوکر رہ گیا۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے ارکانِ اسمبلی اور وزرا سے پارٹی نہ چھوڑنے کا حلفِ وفاداری لیا، تو اس سے پی ٹی آئی میں پہلے سے مضبوط امیدواروں کی آمد کا ایک راستہ بند ہوگیا۔ پیپلزپارٹی کے مضبوط لوگ اسلام آباد میں مذاکرات تو کرتے رہے مگر پھر بات آگے نہ بڑھ سکی۔ یوں دو بڑی جماعتیں کسی بڑی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوسکیں۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ تھی کہ پی ٹی آئی کے منصوبہ سازوں نے گلگت بلتستان کے انتخابات سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ الیکٹ ایبلز کا تجربہ زیادہ کامیاب نہیں، کیونکہ وہاں مسلم لیگ (ن) سے ٹوٹ کر پی ٹی آئی کا حصہ بننے والے اکثر الیکٹ ایبلز انتخاب ہار گئے تھے۔
ابھی تک پیپلزپارٹی تو ووٹروں اور لیڈروں کی حد تک بدستور اپنے پیروں پر کھڑی نظر آتی ہے، مگر مسلم لیگ (ن) کے غیر حلف یافتہ دوسری اور تیسری صف کے کارکن پارٹی سے الگ ہوکر تبدیلی کو راہ دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی مسلم کانفرنس کے ساتھ ایسا ڈھیلا ڈھالا اتحاد کرچکی ہے جس سے فریقین کو حقیقی فائدہ ہو یا نہ ہو، مگر پہلے سے قائم تاثر کو مزید تقویت مل رہی ہے۔ ماضی کی روایات کے عین مطابق وفاقی وزرا کی ایک ٹیم میدان میں اُتر چکی ہے اور انتخابی مہم کے انچارج وزیر امورِ کشمیر علی امین گنڈا پور ہیں۔ مراد سعید اپنی شعلہ بیانی سے اُن کی معاونت کررہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری بھی ایک دو جلسوں سے خطاب کرچکے ہیں۔ شہبازشریف اور مریم نواز بھی اپنی شعلہ نوائی دکھانے کو تیار ہیں۔
گلگت بلتستان کی انتخابی مہم کی طرح آزادکشمیر میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی طرف سے ’’کشمیر کارڈ‘‘ کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کشمیر کو تقسیم کرنے، اور سودا کرنے جیسے الزامات کی تیر اندازی کا آغاز بلاول نے ایک انتخابی جلسے میں کردیا ہے۔ راجا فاروق حیدر بھی تقسیمِ کشمیر کے الزامات تواتر سے دہرا رہے ہیں۔ مریم اور شہبازشریف بھی یہی کارڈ کھیل سکتے ہیں، مگر قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شہبازشریف اور بلاول کی طرف سے کشمیر کا سودا ہوجانے سے متعلق استفسار نہ کرنا ان کے پرانے مؤقف کو کمزور کرگیا۔ عین ممکن ہے اب انتخابی مہم میں وفاقی حکومت کی ناکامیوں کی داستان اور مہنگائی کی دُہائی تو دی جائے مگر سودا ہوجانے کی باتیں فقط دھیمے سُروں میں جاری رہیں۔ یوں بھی آزادکشمیر کا ووٹر ان الزامات اور نعروں کے بجائے بہت عملیت پسندی کا مظاہرہ کرکے اپنا فیصلہ صادر کرتا ہے۔ قبیلائی سسٹم کا یہی کمال ہوتا ہے کہ یہاں قبیلے کا ایک یا چند بااثر لوگ مینج کیے جاتے ہیں، جس کے بعد باقی لوگ اسی دھارے میں بہتے ہیں۔ پی ٹی آئی گلگت بلتستان کی طرح اپنا جوڑ توڑ مکمل کرچکی ہے جس کے مطابق یہ ایک تاثر کو حقیقت میں بدلنے کے لیے لہر کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے سب سے بڑی جماعت کے طور پر اُبھرنے کا سامان کرچکی ہے۔ اب دوسری پوزیشن کے لیے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان مقابلہ جاری ہے۔ آزادکشمیر کی سیاسی روایات کے عین مطابق اپوزیشن کی جماعتیں ایک سے ڈیڑھ درجن نشستیں بھی حاصل کر سکتی ہیں۔
چار بڑی صف آرا جماعتوں میں سے ابھی تک پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی اپنا منشور شائع کرکے عوام وخواص تک پہنچا چکی ہیں۔ دوسری دو جماعتوں کے منشور سامنے آنا ابھی باقی ہیں۔
آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کی 45 نشستوں کے لیے 701 امیدوار میدان میں ہیں۔ اس وقت راجا فاروق حیدر خان کی صورت میں موجودہ، اور بیرسٹر سلطان محمود چودھری، سردار عتیق احمد اور سردار یعقوب خان کی صورت میں تین سابق وزرائے اعظم، اور پی ٹی آئی کے انوارالحق چودھری کی صورت میں ایک سابق، اور مسلم لیگ (ن) کے شاہ غلام قادر کی صورت میں موجودہ اسپیکر بھی انتخابات میں قسمت آزمائی کررہے ہیں۔ سردار یعقوب خان کی صورت میں ایک سابق صدرِ آزادکشمیر بھی انتخابی دوڑ میں شامل ہیں۔ ایک دلچسپ معرکہ اسلام آباد کے وسط میں مینار نما کاروباری مراکز ’’سینٹورس مال‘‘ کے مالک پی ٹی آئی کے راہنما سردار تنویر الیاس خان، سابق امیر جماعت اسلامی عبدالرشید ترابی، اور مسلم کانفرنس کے راجا یاسین خان کے درمیان ہونے جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ نظریں اسی حلقے پر مرکوز ہیں جہاں کی سیاست لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہورہی ہے۔ ان انتخابات میں پارلیمانی نظام کے احیائے نو کے وقت یعنی 1985ء کے انتخابات میں چھتیس سالہ پارلیمانی کیریئر کے حامل کئی امیدوار میدان میں ہیں، جن میں وزیراعظم راجا فاروق حیدر، سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود، (باقی صفحہ 41 پر)
پیپلز پارٹی کے صدر چودھری لطیف اکبر، پی ٹی آئی کے حاجی گل خنداں، خواجہ فاروق احمد اور مسلم لیگ (ن) کی مسز نورین عارف شامل ہیں۔ 1985ء سے ہر انتخاب میں مستقل نظر آنے اور اکثر جیتنے والا ایک چہرہ وقت کی گرد میں اِس بار گم ہوگیا ہے۔ یہ میرپور سے پیپلزپارٹی کے سابق صدر اور آزادکشمیر کے سابق وزیراعظم چودھری مجید ہیں جو بیماری کی وجہ سے انتخابی سیاست سے ریٹائر ہوکر سیٹ اپنے بیٹے قاسم مجید کے حوالے کرچکے ہیں۔ ان انتخابات میں براہِ راست دو خواتین مظفرآباد سے مسلم لیگ (ن) کی مسز نورین عارف، اور مہاجرین کی نشست سے پی ٹی آئی کی نازیہ نیاز بھی قسمت آزمائی کررہی ہیں۔ سردار سکندر حیات خان کی صورت میں ایک سابق وزیراعظم اور سابق صدر پیرانہ سالی اور بیماری کی وجہ سے انتخابی اکھاڑے سے باہر رہ کر بارہویں کھلاڑی کا خاموش مگر بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔