پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس

پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جو نہایت اہم پیش رفت تھی۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں نے اس میں بصد مسرت یا ضرورت شرکت کی۔ کمیٹی کا یہ اجلاس قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کی براہِ راست کوششوں سے ہوا۔ کمیٹی کو اس خطے کی صورتِ حال، بھارت، افغانستان، سی پیک اور ملک کے اندرونی سلامتی امور کے معاملات پر تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا گیا۔ قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف شہبازشریف کے علاوہ دیگر پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شریک ہوئے۔ قومی سلامتی کے ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے افغانستان، کشمیر اور خطے کی صورتِ حال پر بریفنگ دی۔ بریفنگ کے بعد سوال جواب کا سیشن بھی ہوا۔ پارلیمانی کمیٹی کے شرکاء کی جانب سے جو بھی سوال ہوا، اُس کا تسلی بخش جواب دیا گیا۔ ہر پارلیمانی لیڈر نے بریفنگ پر اطمینان ظاہر کیا اور میڈیا کے سامنے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے اختلاف و انتشار کا تاثر ملتا ہو۔ اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کو بریفنگ اچھی ہوئی، بہت سے ایشوز پر بریفنگ دی گئی۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اپوزیشن کے مطالبے پر یہ بریفنگ دی گئی، فیصلوں سے نہیں ہمیں صرف حقائق سے آگاہ کیا گیا۔ اس اجلاس کے لیے سیاسی جماعتوں کو موقع دیا گیا تھا کہ خود اپنے ارکان کا انتخاب کریں۔ اجلاس میں بنیادی طور پر افغانستان کے ایشو پر غور ہوا۔ یہ اجلاس بند کمرے میں ہوا جس کے لیے چند میڈیا پرسنز کو بھی مدعو کیا گیا تھا، لیکن متعدد اپوزیشن رہنمائوں کے اعتراض پر ان کے لیے دعوت نامہ منسوخ کردیا گیا، اسی لیے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں کوئی غیر مطلوب فرد داخل نہیں ہوا۔ اجلاس کے وقت ریڈ زون میں ہائی الرٹ رہا۔ اگرچہ اجلاس سے متعلق میڈیا کو کچھ بھی نہیں بتایا گیا، تاہم کچھ نہ کچھ اندازہ تھا کہ سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کن موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ اجلاس آٹھ گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہا۔ کھانے، چائے اور نماز کے لیے وقفہ ہوتا رہا۔ فوجی قیادت نے بریفنگ دی جس پر سیاسی قیادت نے اطمینان کا اظہار کیا۔ وزارتِ اطلاعات و نشریات کی جانب سے بیان جاری کیا گیا کہ ’’اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی جانب سے ملک کی سیاسی و پارلیمانی قیادت، رہنمائوں اور اراکین کو اہم خارجہ امور، داخلی سلامتی، اندرونی چیلنجز، خطے میں وقوع پذیر تبدیلیوں خصوصاً تنازع کشمیر اور افغانستان کی حالیہ صورتِ حال کے حوالے سے جامع بریفنگ دی گئی ہے۔‘‘
سفارتی امور کے ماہرین کے مطابق یہ اجلاس نہایت غیر معمولی تھا جس میں قومی مفاد کے پیش نظر ایک حکمت عملی سامنے آئی ہے، اور غالباً یہ ذہن بنا ہوا نظر آیا کہ پاکستان طالبان کی حمایت کے لیے اب ماضی جیسا سرگرم نظر نہیں آئے گا۔ بلاشبہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے ساتھ ساتھ خدشات اور اندیشوں کے عین مطابق طالبان اور افغان فوج کے درمیان جنگ میں شدت بڑھتی جارہی ہے۔ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی ملکوں کی حملہ آور افواج کے خلاف بیس سال تک سخت جان مزاحمت کرنے والے طالبان کے حوصلے بلند ہیں اور ملک بھر میں اُن کی پیش قدمی کی رفتار بہت تیز ہے، تاہم اشرف غنی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سرکاری فوج بھی طالبان کوبھاری جانی نقصان پہنچا رہی ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ تمام بڑے شہروں کا محاصرہ کرلیا گیا ہے۔ امریکہ طالبان معاہدے کی رو سے امریکی افواج کی واپسی کی تاریخ سے پہلے افغان حکومت میں شامل تمام افغان گروپوں اور طالبان کومذاکرات کے ذریعے ملک کے آئندہ نظام کی صورت گری کرنی تھی، لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔
افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کا سلسلہ عروج پر ہے۔ افغانستان کے 372 اضلاع میں سے 117 پر طالبان نے قبضہ کرلیا ہے۔ کابل سے صرف چار سے پانچ گھنٹوں کی مسافت پر موجود صوبہ بغلان کے بعض علاقے بھی طالبان کے پاس چلے گئے ہیں۔ کابل میں پریشانی ہے کہ طالبان اگلے چند مہینوں میں یہاں پہنچ جائیں گے۔
افغانستان کی صورتِ حال کے اس مختصر جائزے کے ساتھ ساتھ اس بریفنگ سے پہلے ملک کا سیاسی منظرنامہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعت مسلم لیگ(ن) کی لیڈرشپ اپنا ایک سیاسی بیانیہ مسلسل بڑھا رہی تھی، اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پیپلزپارٹی اگرچہ پی ڈی ایم سے الگ ہوئی تاہم وہ رعایت مانگ رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں ان دونوں جماعتوں کے سوا کوئی قابلِ ذکر اپوزیشن جماعت پارلیمنٹ میں نہیں۔ جے یو آئی پی ڈی ایم میں پائی جانے والی دراڑ کے صدمے سے ابھی تک باہر نہیں نکل سکی، مولانا فضل الرحمٰن خود اپنے انتہائی قریبی لوگوں سے یہ بات کرچکے ہیں کہ انہیں باہمی رکھ رکھائو کے باعث آصف علی زرداری سے ایسی توقع نہیں تھی۔ ملکی سیاسی پس منظر کو افغانستان سے الگ کرکے بھی نہیں دیکھا جاسکتا اور بھارت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ افغانستان کے حالات کے پیش نظر پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نے کوشش کی کہ وہ اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھائیں اور امریکہ میں اپنی لابی بنائیں، لہٰذا امریکہ میں اپنے لابیسٹ گروپس کو متحرک کرنے میں مصروف ہوئے، تاہم کامیابی نہ ملی تو پیپلزپارٹی ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ پنجاب میں متحرک ہوئی۔ خیال یہ تھا کہ بڑے سیاسی خاندان اپنے ساتھ ملا کر تبدیلی لائی جائے اور سمندر پار یہ پیغام دیا جائے کہ ہاتھ رکھا تو ہم تیار ہیں۔ اس پس منظر میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا جس میں افغانستان کی تازہ ترین صورتِ حال اور زمینی حقائق بتائے گئے، افغان مہاجرین کا معاملہ زیربحث رہا، کابل سے امریکیوں کی واپسی ساری گفتگو کا اہم موضوع تھا۔ اس صورتِ حال اور زمینی حقائق پر پارلیمانی لیڈرز کو اعتماد میں لیا گیا اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی تازہ ترین صورتِ حال پر بھی گفتگو ہوئی۔ اس اجلاس کے بعد یقین ہے کہ سارا زہر نکل چکا۔ اب پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کا لہجہ اور بیانیہ تبدیل ہوجائے گا۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ بریفنگ منہ بند رکھو کا پیغام تھی۔ بریفنگ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید دونوں نے شرکا سے براہِ راست گفتگو کی۔
جس لمحے یہ بریفنگ ہوئی، عین اسی لمحے امریکی میڈیا بھارت اور چین کے مابین ایک نئی جنگ کی اطلاع دے رہا تھا۔ لداخ بارڈر پر فوجی نقل و حرکت دیکھی جارہی ہے، بھارت گلگت بلتستان میں سی پیک روٹ کو متاثر کرنا چاہتا ہے مگر اسے منہ کی کھانا پڑی ہے، اور رہی سہی کسر نئی جھڑپوں سے پوری ہوجائے گی۔
اجلاس میں وزیراعظم عمران خان رونق افروز نہیں ہوئے۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے بتایا کہ وزیراعظم تو اجلاس میں شرکت کے لیے تیار تھے لیکن آخری لمحوں میں جب اسپیکر کو اپوزیشن رہنما شہبازشریف کے تحفظات سے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے اپنا ارادہ بدل لیا۔ مسلم لیگ(ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اس دعوے کو سفید جھوٹ کہا اوربلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم کی عدم شرکت کو اُن کی انا پرستی قرار دیا۔ اسپیکر کے ترجمان نے وضاحت جاری کی کہ وزیراعظم کی آمد پر بعض اپوزیشن رہنمائوں کو تحفظات تھے۔ اگر فواد چودھری اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کے ترجمان کی وضاحت تسلیم کرلی جائے تو پھر یہی کہا جاسکتا ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے اپوزیشن کے تحفظات کو اہمیت دی اور وزیراعظم کے لیے جاری دعوت نامہ منسوخ کردیا، یا ان سے معذرت کرلی گئی۔ ان سے دعوت نامہ اُسی طرح واپس لے لیا گیا جس طرح اہلِ صحافت سے لیا گیا تھا۔
قومی سلامتی کمیٹی میں افغانستان سے متعلق کیا بات ہوئی اس کا کوئی علم نہیں، تاہم افغانستان کی صورتِ حال پر جامع تبصرہ یہی ہوسکتا ہے کہ روسی اور امریکی فوجیں بہت مختلف حالات میں، اور مختلف اہداف کے تحت افغانستان میں داخل ہوئیں، لیکن ان دونوں کی رخصتی عزت کے ساتھ نہیں ہوئی۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا سب سے بڑا مقصد یہی تھا کہ حالات کا جائزہ لیا جائے اور فیصلہ کیا جائے کہ اب کیا کرنا ہے؟ افغانوں کے لیے پاکستان کا پیغام یہی ہے کہ پاکستان افغانستان میں عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت کا ہر سطح پر خیرمقدم کرے گا اور افغان امن کے لیے اپنا ذمہ دارانہ کردار جاری رکھے گا۔ پاکستان کی سرزمین افغانستان میں جاری تنازعے میں استعمال نہیں ہورہی، اوراس امید کا بھی اظہار کیا گیا کہ افغانستان کی سرزمین بھی پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ افغانستان کی سرحد پر باڑ کا 90 فیصد کام مکمل کرلیا گیا ہے جبکہ کسٹمز اور بارڈر کنٹرول کا بھی مؤثر نظام تشکیل دیا جا رہا ہے۔ سیاسی و پارلیمانی قیادت نے بریفنگ پر اطمینان کا اظہار کیا۔ افغانستان سے متعلق یہ رائے اور کسی حد تک یقین ہے کہ طالبان اور اشرف غنی حکومت میں مفاہمت نہیں ہوگی، اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان افغانستان کی صورت حال سے براہِ راست متاثر ہوگا۔ پارلیمانی کمیٹی کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ امریکہ اور چین کے تنائو میں پاکستان متاثر ہوسکتا ہے، تاہم پاکستان امریکہ اور چین سمیت کسی ملک کے کیمپ کی سیاست نہیں کرے گا۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے اُسے مقبوضہ کشمیر میں مشکلات ہیں، پاکستان کو یقین ہے کہ بھارت بطور ریاست لاہور بم دھماکے میں ملوث ہے۔ لاہور بم دھماکے کا ماسٹر مائنڈ بھارتی شہری ہے۔ اس واقعے میں بھارت ایک ریاست کے طور پر ملوث ہے۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کا ہاتھ ہے، اور کچھ اشارے افغان مہاجرین کی طرف بھی جاتے ہیں۔ سفارتی امور کے لیے آزاد حلقوں کی رائے ہے کہ پاکستان کو اس بات کی ہرگز کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ صدر بائیڈن وزیراعظم کو فون کریں۔ صدر بائیڈن ابھی رابطہ نہیں کررہے تو اس پر فکرمند نہیں ہونا چاہیے۔ سفارتی ذرائع سے وزیراعظم عمران خان اور صدر بائیڈن کی ٹیلی فونی بات چیت کے لیے جو کوشش کی گئی ہے کافی ہے، اب اس پر بیان بازی مناسب نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک چینی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ اسلام آباد پر دباؤ ہے کہ وہ اپنے لیے چین اور مغرب میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلے۔ پاکستان پر یہ دباؤ بھی ہے کہ وہ چین کے حوالے سے اپنی پالیسی بدلے۔ دراصل یہ اہم نکتہ ہے کہ اس خطے میں بڑی طاقتوں کے درمیان مخاصمت جاری ہے۔ اسلام آباد پر یہ دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا کہ وہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں تبدیلی لائے۔ یہ دباؤ مختلف نوعیت کے ہیں۔ صدر جوبائیڈن نے چین کو ایک طرح سے امریکہ کا دشمن قرار دے دیا ہے اور امریکہ چین کی معاشی ترقی روکنا چاہتا ہے، لہٰذا ہم پر دباؤ ہے کہ ہم سی پیک منصوبہ ختم کردیں، چین کو بحر ہند تک راستہ نہ دیں، واشنگٹن کو فوجی اڈے دیں، بھارت کے تسلط کو کشمیر میں مانیں، اور ساتھ ہی اسرائیل کو بھی تسلیم کرلیں۔ امریکہ خطے میں بھارت کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔ نئی دہلی کو نکیل ڈالنے کے لیے ہمیں بھی اسٹرے ٹیجک پارٹنر کی ضرورت ہے، جو امریکہ نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ہمارے چین سے تعلقات یوں ہی رہیں گے۔ امریکہ ہمیں چین کے خلاف کرنا چاہتا ہے، جس کے لیے آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں کے ذریعے ہم پر دباؤ ڈال رہا ہے۔