سائنس دانوں نے یادداشتی نیورون دریافت کرلیا

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب ہم کوئی چہرہ دیکھتے ہیں تو یکلخت خیال آتا ہے کہ یہ پہلے سے دیکھا ہوا ہے۔ یا پھر ہم اس میں شناسائی یا اپنے کسی عزیز کا چہرہ دیکھتے ہیں۔ بہت کوشش کے باوجود ماہرین اس کیفیت کو سمجھنے سے قاصر تھے، لیکن اب یادداشتی بصری خلیات (نیورون) کی بالکل نئی قسم دریافت ہوئی ہے جس سے ہمیں اس دماغی صلاحیت کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اکثر اوقات ہم لوگوں کے چہروں کو اپنے بزرگوں سے بھی وابستہ کرلیتے ہیں۔ یہ خلیات دماغ کے ’ٹیمپرل حصے‘ میں پائے جاتے ہیں۔ یہ علاقہ (اور اس سے وابستہ نیورون) کسی چہرے کے نقوش کو طویل المدتی یادداشت سے وابستہ رکھتا ہے۔ اس کی تمام تفصیل جریدہ ’سائنس‘ میں شائع ہوئی ہے۔ اس سے پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ کس طرح ہمارا دماغ ایک طویل عرصے تک ہمارے عزیزوں کے چہرے کے خدوخال دماغ میں زندہ رکھ کر اسے کسی پرانی تصویر کی طرح دوسروں سے ملاتا رہتا ہے۔ راک فیلر یونیورسٹی میں برتاؤ اور نیوروسائنس کے ماہر پروفیسر ونرخ فرائی والڈ کہتے ہیں کہ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ مسلمہ سائنسی تحقیق ہے کہ دماغ کا نچلا ٹیمپرل کنارہ ’نانی اماں‘ نیورون کی بہترین جگہ ہوسکتا ہے، کیونکہ یہاں چہروں، ان کے احساس اور ان سے وابستہ طویل یادداشتیں تحریر ہوتی ہیں۔
توقع ہے کہ اس تحقیق سے ایک تکلیف دہ کیفیت ’پروسپیگنوشیا‘ کے شکار افراد کے علاج کی راہ ہموار ہوگی جس میں لوگ چہرے یاد نہیں رکھ سکتے۔ اس کیفیت کو عام زبان میں ’چہرے کا اندھا پن‘ یا فیس بلائنڈنیس بھی کہا جاتا ہے۔