سخت گیر استاد

ایک مکتب کا استاد بڑا محنتی تھا۔ مکتب کے بچے استاد کی طرف سے مسلسل محنت اور پڑھائی کی وجہ سے تھک گئے تھے۔ انہوں نے کچھ دن رخصت حاصل کرنے کی تدبیر کی۔ ایک دن سب طالب علموں نے بیٹھ کر پروگرام بنایا کہ جب استاد صاحب کلاس میں آئیں تو سلام کرتے وقت باری باری یہ کہیں گے کہ استاد جی اللہ خیر کرے آپ کا چہرہ زرد محسوس ہورہا ہے۔ سب بچوں نے اس پر اتفاق کیا اور قسمیں کھائیں کہ راز فاش نہیں کریں گے۔
دوسرے دن مکتب میں استاد صاحب تشریف لائے۔ سلام کرتے وقت ایک بچے نے بڑی ذمہ داری سے ہمدردانہ طور پر عرض کیا ’’استاد جی اللہ خیر کرے، آج آپ کا چہرہ کیوں زرد محسوس ہورہا ہے؟“ استاد نے کہا ’’میں تو اچھا بھلا ہوں، تُو یوں ہی بک بک کررہا ہے۔ جا اپنی جگہ پر بیٹھ اور اپنا کام کر‘‘۔ اسی طرح دوسرے طالب علم نے سلام عرض کرتے وقت کہا ’’استاد جی نصیب ِ دشمناں، آپ کچھ بیمار سے محسوس ہوتے ہیں‘‘۔ استاد صاحب کے دل میں کچھ وہم سا پیدا ہوگیا۔ دوسرے لمحے تیسرا طالب علم آیا، اُس نے بھی جھک کر سلام عرض کیا اور کہاکہ ’’آپ کچھ بیمار ہیں، اللہ خیر کرے، اور ہمارے استاد جی کو بہ خیریت رکھے‘‘۔ الغرض ساری کلاس نے استاد کو بیمار بتایا۔ ان کا وہم بڑھتے بڑھتے یقین کے درجے تک پہنچ گیا۔ استاد جی کو سر میں درد محسوس ہونے لگا۔
جس تن لگے وہی تن جانے
دکھیا کی کوئی نہ مانے
استاد صاحب بیماری کے وہم سے سست ہوگئے۔ چادر اوپر لے کر آہستہ آہستہ گھر چلے گئے اور بچوں کو کہاکہ مجھے گھر اکر سبق سنا دینا۔ استاد صاحب جب گھر پہنچے تو بیوی پر خفا ہونے لگے کہ تُو میرا خیال نہیں رکھتی، دیکھ میرا چہرہ زرد ہورہا ہے، جبکہ بچوں نے میری بیماری کی نشاندہی کی ہے۔ بیوی کہنے لگی ’’آپ تو بالکل ٹھیک ہیں۔ آپ بیمار نہیں ہیں‘‘۔ استاد صاحب نے اسے جھڑک دیا اور کہا ”جا میرا بسترا بچھا دے“۔ استاد صاحب بستر پر لیٹے۔ ان کے شاگرد بھی آن پہنچے اور چارپائی کے گرد اونچا اونچا سبق پڑھنے لگے اور گھر سر پر اٹھالیا۔ استاد صاحب نے کہا ’’کم بختو! تمہیں پتا نہیں میں بیمار ہوں اور تم شور مچا رہے ہو! میرا سر پھٹا جارہا ہے۔ جائو اب چھٹی کرو، جیتا رہا تو پڑھائوں گا‘‘۔ لڑکے دل ہی دل میں ہنستے ہوئے گھروں کو بھاگ گئے۔ گھر والوں نے پوچھا تم بے وقت کیوں آگئے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے استاد صاحب بیمار ہوگئے ہیں۔
دوسرے دن بچوں کے والدین استاد صاحب کی بیمار پرسی کرنے کے لیے ان کے گھر آئے تو کہنے لگے ”صبح تو آپ چنگے بھلے تھے“۔ استاد صاحب بولے ’’میری بیوی نے مجھے نہ بتایا کہ میں بیمار ہوں، خدا لڑکوں کا بھلا کرے، مجھے وقت پر بتادیا۔ بس اب آپ دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے شفا عطا فرمائے‘‘۔ والدین لاحول پڑھتے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور کہنے لگے: ایسی بیماری کا علاج کسی کے پاس نہیں۔ سچ ہے کہ وہم کا کوئی علاج نہیں۔
درسِ حیات: وہم کا کوئی علاج نہیں۔ توہم پرست سے جو عقیدہ چاہیں منوالیں۔
(مولانا جلال الدین رومیؒ۔ ”حکایاتِ رومیؒ“)