… بلوچستان … بات تو سچ ہے مگر

وزیراعظم عمران خان نے عندیہ دیا ہے کہ وہ ناراض بلوچوں سے مذاکرات کا سوچ رہے ہیں۔ گوادر کے دورے کے دوران مقامی عمائدین، کاروباری شخصیات اور طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ناراض ہونے والوں کو شاید پرانے رنج ہوں، اور ہوسکتا ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کے ہاتھوں میں بھی استعمال ہوئے ہوں، مگر ماضی میں حکمرانوں نے بلوچستان پر وہ توجہ نہیں دی جو دینا چاہیے تھی، پارلیمانی نظام کی وجہ سے حکومتوں نے صرف انتخابات جیتنے کی سیاست کی۔ نوازشریف اور آصف زرداری نے بھی اپنے اقتدار کے دوران یہی کچھ کیا، انہوں نے پسماندہ علاقوں کو نظرانداز کیا۔ نوازشریف نے کرپشن سے جو پیسہ بنایا وہ جاکر لندن میں گرمیاں گزار کر اور ہیرلڈز میں شاپنگ کرکے خرچ کرتے تھے۔ انہوں نے لندن کے 24 دورے کیے جن میں سے 23 نجی دورے تھے، وہ اس دوران دوبار بھی بلوچستان نہیں آئے، جب کہ آصف زرداری نے دبئی کے 51 دورے کیے اور ایک بار بھی بلوچستان کا دورہ نہیں کیا۔ ماضی کے حکمرانوں کے مقاصد اور سوچ مختلف تھی، جو سیاست دان الیکشن کے بارے میں سوچتے ہیں وہ بلوچستان کے بجائے صرف فیصل آباد ڈویژن پر توجہ دیتے ہیں جس کی نشستیں حاصل کرکے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وزیراعظم بن جائیں، جب کہ میری ترجیح الیکشن جیتنا نہیں بلکہ عوامی خدمت ہے۔ ماضی میں بلوچستان اور سابق فاٹا جیسے علاقوں کو نظرانداز کیا گیا، ان علاقوں میں انسانوں پر پیسہ خرچ نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے یہ علاقے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔ قومیں صرف اُسی وقت ترقی کرتی ہیں جب ملک کے مختلف علاقوں کو ایک ساتھ اوپر اٹھایا جائے۔ کچھ علاقوں کو نظرانداز کرکے ترقی نہیں کی جا سکتی۔ مخصوص علاقوں کو ترجیح دینے سے ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔
وزیراعظم نے گوادر میں جو گفتگو کی، اس سے اختلاف کی گنجائش خاصی کم ہے۔ انہوں نے ناراض بلوچوں سے مکالمے اور مذاکرات کی جس سوچ کا اظہار کیا ہے اُس سے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ دیر آید درست آید۔ تاہم یہاں اس جانب توجہ مبذول کرانا بھی نامناسب نہیں ہوگا کہ صرف کوئٹہ یا گوادر کو ہی پورا بلوچستان تصور نہیں کیا جانا چاہیے، نہ محض ان علاقوں کی ترقی کو پورے بلوچستان کی ترقی کہا جا سکتا ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اور معدنی وسائل سے مالامال ہے۔ اگر اس پر توجہ دی جاتی تو نہ صرف یہ کہ بلوچستان کو خوش حال بنایا جا سکتا تھا، بلکہ پورے ملک میں ترقی کی رفتار میں خاصا اضافہ ممکن تھا۔ اگر صرف سوئی کی مثال ہی کو سامنے رکھا جائے جہاں سے نکلنے والی قدرتی گیس نے پورے ملک میں تعمیر و ترقی کی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ کیا ہے اور ملک بھر میں چولہے جلانے اور کارخانے چلانے میں اس کا مرکزی کردار ہے، مگر افسوس کہ خود سوئی اور گرد و نواح کے علاقے اس ترقی اور خوش حالی میں سے اپنا جائز حصہ اور حق آج تک حاصل نہیں کرسکے، جس سے احساسِ محرومی کا جنم لینا عین فطری امر ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ہمارے ہمسایہ ممالک نے بھی بلوچستان کے حالات خراب کرنے اور وہاں کے عوام خصوصاً نوجوانوں میں احساسِ محرومی پروان چڑھانے میں بھرپور کردار ادا کیا، اور ہمارے حکمرانوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے پوری طرح فائدہ اٹھایا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بلوچستان سے زیادتیوں میں ماضی کے حکمرانوں خصوصاً سابق وزیراعظم نوازشریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے ادوار کی مثالیں دی ہیں مگر وہ یہ حقیقت فراموش کر گئے کہ ان کو ملک کا اقتدار سنبھالے تین برس ہونے کو آئے ہیں مگر خود انہوں نے ان تین برسوں میں بلوچستان کی ترقی و خوشحالی اور وہاں کے عوام کی محرومیاں دور کرنے کے لیے اب تک کیا عملی اقدامات کیے ہیں! گوادر میں انہوں نے جو گفتگو کی، ایسی تقاریر اور بیانات برقی اور ورقی ذرائع ابلاغ کی زینت اور شہ سرخیاں تو بن جاتے ہیں مگر عوام کے مسائل و مصائب اور احساسِ محرومی میں کمی محض زبانی جمع خرچ سے ممکن نہیں۔ احساسِ محرومی کے شکار بلوچ عوام سے مکالمہ بھی بلاشبہ بہت ضروری ہے، مگر اس سے قبل ان کے احساسِ محرومی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات ناگزیر ہیں، ان کے بغیر مذاکرات اور مکالمے کے ذریعے وقتی فوائد تو ضرور حاصل کیے جا سکتے ہیں مگر مستقل بنیادوں پر صوبے کے عوام کو مطمئن کرنا، بیرونی قوتوں کی سازشوں کو ناکام بنانا اور دیرپا امن و استحکام شاید ممکن نہ ہو۔ اس کے لیے حکومت کو ٹھوس بنیادوں پر صوبے میں تعمیر و ترقی کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور پھر سنجیدگی سے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا، ورنہ زبانی بیانات، تقریریں، وعدے اور دعوے وغیرہ تو سابق حکمرانوں کی جانب سے بھی کچھ کم نہیں کیے گئے تھے۔