’’حضرت ابوسعید سعد بن مالک بن سنان خدری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اسلام میں کسی کو نقصان اور تکلیف پہنچانے کی اجازت نہیں ہے‘‘۔
تشریح: یہ حدیث جوامع الکلم میں سے ہے، اور اسلام کے اصولی قاعدوں میں سے ایک اہم قاعدہ بیان کرتی ہے۔ ابودائودؒ نے کہا ہے کہ فقہ کے متعدد قاعدے جن پانچ حدیثوں سے نکلتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے۔ فقیہوں اور اصولیوں نے اس میں سے کتنے ہی فروعی قاعدے اور قانون نکالے ہیں، یہ قواعد فقہ اور اصولِ فقہ کی کتابوں میں تفصیل سے معلوم کیے جاسکتے ہیں۔
حدیث میں دو لفظ آئے ہیں: ایک ’’ضرر‘‘، جس کے معنی ہیں: کسی ایسے شخص کو نقصان پہنچانا جس نے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے، دوسرا لفظ ’’ضرار‘‘ ہے، اسے بعض راویوں اور فقیہوں نے اضرار بھی پڑھا ہے، لیکن عام مشہور ضرار ہی ہے جو بابِ مفاعلۃ کا ایک مصدر ہے جیسے قتال، علاج اور عقاب وغیرہ۔ اس کے معنی ہیں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا، یا نقصان کے درپے ہونا۔
اسلام اور ایمان اپنے الفاظ سے امن و سلامتی ظاہر کرتے ہیں، ان ہی سے مسلم اور مومن کے کلمات بنے ہیں جو بتاتے ہیں کہ مومن امن و سلامتی کا مجسم ہوتا ہے۔ بدامنی، بے ایمانی، دھوکے، ٹھگی اور خیانت سے دور رہتا ہے، اور ظلم و زیادتی سے عاری ہوتا ہے۔
ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تمہارے خون (جانیں)، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام ہیں‘‘۔ (بخاری)
’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے بھی وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری)
جس دین میں اتنی جامع اور واضح ہدایات موجود ہیں، اس میں کسی کو نقصان پہنچانے اور تکلیف دینے کی گنجائش کہاں ہوگی!
ایک دوسرے کو مالی نقصان نہ پہنچانے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’اور اگر تم توبہ کرلو تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر کوئی ظلم کیا جائے‘‘۔ (البقرہ 279:2)
یعنی نہ تم کسی کو رنج پہنچائو اور نہ تمہیں کوئی رنج پہنچائے، نہ تم کسی کا مال ہڑپ کرو اور نہ تمہارا مال کوئی ہڑپ کرے۔ لیکن اگر کوئی تمہیں دکھ دیتا ہے اور گالی گلوچ کرتا ہے یا تکلیف دیتا ہے تو شریعتِ مطہرہ کے موجب تم اپنے طور پر کوئی کارروائی نہ کرو البتہ حاکمِ وقت کے پاس یا کسی قاضی یا ثالث کے پاس جائو اور ان کے ذریعے اپنا حق وصول کرو۔ ایک حدیث میں آپؐ نے فرمایا:’’دونوں، گالیاں دینے والوں کے لیے وہی (وبال) ہے جو انہوں نے ایک دوسرے کو کہا ہے، اور ان میں سے پہل کرنے والے پر گناہ ہے جب تک مظلوم کسی اور وجہ سے زیادتی نہ کرے‘‘۔ (رواہ مسلم)
آج ہمارے معاشرے میں مسلمانوں کا عمل اور رویہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ مسلم قوم کو کیا ہوگیا ہے کہ ایک دوسرے سے جھگڑے، دشمنیاں اور مخاصمتیں قائم کیے ہوئے ہیں! حکمرانوں، لیڈروں اور رہنمائوں سے لے کر عوام تک اپنی طاقت، دولت، وقت اور تمام صلاحیتیں ایک دوسرے کو دبانے، نیچا دکھانے اور ایک دوسرے کے حقوق مارنے میں خرچ کررہے ہیں۔ جس گروہ کو جب موقع ملتا ہے اور اقتدار اور حکومت ملتی ہے تو دوسرے گروہ سے انتقام لینے میں لگ جاتا ہے۔
غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آج امتِ مسلمہ کی پستی، زوال اور ذلت کا اہم سبب بھی یہی ہے کہ تمام امت ایک فرد سے لے کر گروہوں، جماعتوں، حکومتوں تک اس بیماری میں مبتلا ہے، پھر افسوس اس بات کا ہے کہ مسلم امت نے اپنی باگیں دوسری اقوام کے ہاتھوں میں دے دی ہیں، یعنی یہود، نصاریٰ اور ہنود کی سازشوں کا شکار ہوگئی ہے۔ وہ جیسے چاہتے ہیں، انہیں آپس میں لڑا دیتے ہیں، قرضوں کے جال میں پھنسا دیتے ہیں، الحاد، بے دینی اور شہوت پرستی کے چکر میں ڈال کر ان کے دین و دنیا دونوں برباد کردیتے ہیں۔
امت کے ہر فرد کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی پر نظر ڈال کر سوچنا چاہیے کہ میرا مقام کون سا ہے، میری ذمہ داری کیا ہے، اور مجھے زندگی کس طرح گزارنی ہے، اور ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح رہنا ہے۔ اس طرح زندگی گزارنے کا ایک اصول لاضرر ولاضرار ہے۔