حاجی جمال محمد

جنوبی ہند کے عظیم سپوت اور معمارِ قوم، جنہوں نے علامہ سیدسلیمان ندوی، علامہ پکتھال، اور علامہ اقبال کے خطبات دنیا کو عطا کیے

عظیم مؤرخ علامہ عبدالحئی حسنی ؒ نے اپنی کتاب ’’یادِ ایام۔ تاریخ گجرات‘‘ میں مہائم ممبئی میں مدفون، برصغیر میں شاہ معین الدین اجمیریؒ کے بعد دوسرے مقبول ترین بزرگ، مفسر و فقیہ شیخ علاء الدین علی المہایمی النایتی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں احساسات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’ایک ایسا شخص جس کو ابن عربی ثانی کہنا زیبا ہے، وہ کس کسمپرسی کی حالت میں ہے، کہیں اور ان کا وجود ہوا ہوتا تو ان کی سیرت پر کتنی کتابیں لکھی جاچکی ہوتیں، اور کس پُرفخر لہجے میں مؤرخین ان کی داستانوں کو دہراتے‘‘۔ (52)
یہ بات شیخ مہایمی تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ رویہ جنوبی ہند کی عموماً عظیم شخصیات کے ساتھ پیش آیا ہے، کہ ان کے کارنامے دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ رہ گئے۔ یہی دیکھیے آج جنوبی ہند کا مسلمان دینی، تعلیمی اور معاشی میدانوں میں شمالی ہند کے اپنے بھائیوں سے کتنا آگے نظرآتا ہے، ان کی حالت بھی مغربی سامراج اور تقسیم ہند کے بعد دوسری جگہ کے مسلمانوں جیسی تھی، لیکن وہ اس لحاظ سے بڑے خوش نصیب تھے کہ انہیں جو رہنما ملے وہ مخلص تھے، اور انہیں درست ترجیحات سے آگاہی تھی۔ آج جو بھی مختلف میدانوں میں ان کی ترقیاں نظر آتی ہیں، یہ انہی مخلصین کی قربانیوں کی دین ہے۔ ملت کے لیے ان قربانی دینے والوں میں سے ایک فراموش شدہ شخصیت جناب حاجی جمال محمد مرحوم کی ہے، جن کا تعلق جنوبی ہند کے آخری سرے پر واقع رامناڈ کی روتھر برادری سے تھا، چنئی میں آپ کی ولادت حاجی جمال محی الدین کے یہاں 6جنوری1882ء کو ہوئی اور وفات 7 نومبر 1949ء کو۔
آپ کے والد مدراس (چنئی) خالی ہاتھ آئے تھے، لیکن یہاں آکر چمڑے کی تجارت میں لگ گئے۔ اللہ نے کامیابی عطا کی، انہیں مال ودولت سے خوب نوازا، تو انہوں نے بھی اللہ کی راہ میں دل کھول کر اسے پیش کردیا۔ جمال محی الدین مرحوم نے چنئی میں مدرسہ جمالیہ اور پیری میٹھ جامع مسجد اور ترچناپلی میں بہت سارے اوقاف اپنی یادگار میں چھوڑے، آپ کے بعد بڑے فرزند جمال محمد نے ان کاموں کو چار چاند لگا دیے۔ مولانا عبدالماجد دریابادیؒ چنئی کے ڈاکٹر عبدالحق کرنولی (افضل العلماء) کو جنوب کا سرسید قرار دیتے ہیں، اور کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کو اس بلندی تک پہنچانے میں جمال محمد مرحوم کا بڑا ہاتھ تھا۔ افسوس کہ امت کے اس عظیم محسن کو کبھی کا بھلا دیا گیا، اور ان کے سلسلے میں اردو میں کوئی تعارف نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ اردو کی عظیم ویب سائٹ ریختہ ڈاٹ کام کے توسط سے 1950ء کی دہائی میں مدراس (چنئی) سے جاری ایک ادبی مجلہ ’فانوس خیال‘ کا وہ شمارہ دستیاب ہوا، جس میں جمال محمد مرحوم کے قریبی دوست ڈاکٹر عبدالحق کرنولی کی مرحوم کے آنکھوں دیکھے حالات پر ایک مستند تحریر شائع ہوئی ہے، جو آزادیِ ہند سے پہلے کے مدراس میں ملّی سرگرمیوں پر روشنی ڈالتی ہے، جن میں جمال محمد کی شخصیت مرکزی حیثیت رکھتی تھی۔ اس تحریر کے ذریعے ایک طویل مدت بعد شاید پہلی مرتبہ دنیا پر آشکارا ہورہا ہے کہ دنیا وآفاق میں مشہور علامہ سید سلیمان ندوی کے خطبات مدراس، علامہ اقبال کے خطبات تشکیل الٰہیاتِ جدیدہ، اور علامہ محمد مارمادیوک پکتھال کے خطبات اسلام کا تہذیبی رخ، اسی عظیم معمارِ قوم کی دین ہے، اور یہ کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کوکسمپرسی کے عالم میں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے والی شخصیت بھی یہی تھی، اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کا جمالیہ ہال بھی آ پ کی یادگار ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ علامہ سید سلیمان ندویؒ کے دو شاگردانِ عزیز اور ندوہ کے قابلِ فخر سپوتوں مولانا ابوالجلال ندوی اور مولانا سید ابو ظفر ندوی نے وطن سے دور جمالیہ کالج مدراس کے لیے اپنی خدمات کیوں پیش کیں۔
یوں تو اِس ناچیز کے اِس دنیا میں آنکھ کھولنے سے پہلے جمال محمد صاحب اس دنیا سے پردہ کرچکے تھے، لیکن ان کے والد کے بوئے ہوئے اور آپ کے سینچے ہوئے درخت الکلیۃ العربیۃ الجمالیۃ کے عہدِ زریں میں یہاں تعلیم پانے اور آخری درجاتِ علمیت اور فضیلت کی سند حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اپنے اس محسن کی خدمت میں سوغات کے طور پر ڈاکٹر عبدالحق کرنولی کی ایک فراموش شدہ تحریر کے ذریعے قومی یادداشت میں ملّت کے عظیم معمار کو تازہ کرنے کی یہ ایک کوشش ہے۔ اِن شاء اللہ جلد ہی جنوبی ہند کے سرسید ڈاکٹر عبدالحق کرنولی کے بارے میں آپ کے قریبی دوست اور ہمارے مشفق استاد مولانا سید عبدالوہاب بخاریؒ سابق پرنسپل جمالیہ عربک کالج چنئی کی ایک یاد گار تحریر پیش کی جائے گی۔
عبدالمتین منیری۔ بھٹکل (کرناٹک)
واٹس ایپ :00971555636151
…٭…٭…٭…
حاجی جمال محمد صاحب مرحوم کی زندگی کے واقعات اور سوانح حیات کو تفصیلی طور پر قلمبندکرنا آسان کام نہیں ہے۔ اس واسطے کہ صاحبِ موصوف کی زندگی کے مختلف پہلو تھے۔ ایک ہی وقت میں وہ چوٹی کے مخیّر رئیس بھی تھے اور ایک سمجھدار سیاست دان بھی… علمی اور قومی اداروں کے سرپرست بھی تھے اور قوم کے نونہالوں کی تعلیم وتربیت کے مددگار بھی… تجارت میں بھی ماہر تھے اور معاشیات اور پبلک فائنانس میں بھی ایک بلندمرتبہ رکھتے تھے۔ حقیقت میں یہ ایک علمی ادارے کاکام ہے کہ ان کی تفصیلی سوانح حیات مرتب کرائے، تاکہ ان کی زندگی کے مختلف پہلو اجاگر ہوجائیں۔
حاجی جمال محمد صاحب کے والد حاجی جمال محی الدین صاحب مرحوم صوبۂ مدارس کے سب سے جنوبی حصے رام ناڈ کے باشندے تھے۔ ان کے گھرانے کی مادری زبان تامل تھی۔ حاجی جمال محی الدین صاحب خاندانی تاجر تھے۔ چمڑے کی تجارت کے سلسلے میں مدراس آئے اور یہیں مقیم ہوگئے۔ اللہ نے ان کی تجارت میں بڑی برکت دی۔
حاجی جمال محی الدین مرحوم نے اپنی زندگی میں کئی وقف کیے ہیں جن میں مدراس کا عربی مدرسہ ’’جمالیہ‘‘ایک مشہور وقف ہے۔ ترچناپلی میں بھی مسلمانوں کی تعلیم کے لیے انھوں نے وقف کردہ عمارتیں چھوڑیں۔ دینی تعلیم کی اشاعت اور عربی زبان کی تعلیم کا انہیں خاص ذوق تھا۔ ان کے فرزند حاجی جمال محمد غالباً 1881ء میں پیدا ہوئے، تامل اور انگریزی کی تعلیم کرسچین کالج ہائی اسکول مدراس میں ہوئی۔ ففتھ فارم کے بعد یہ اپنی تجارت میں مصروف ہوگئے۔ خداداد ذہنی قابلیت کی وجہ سے اس میں بڑا درجہ حاصل کیا اور نہایت کامیاب تاجر سمجھے جانے لگے۔ پہلی جنگِ عظیم سے قبل تجارت کے سلسلے میں انہیں یورپ کے سفر کا اتفاق ہوا، اور اُس زمانے کی بڑی اہم شخصیتوں سے ان کی ملاقاتیں رہیں۔ انگلستان کے بعض وزراء اور سیاست دانوں سے ملنے کا موقع ہوا۔ جرمنی میں بعض مشاہیر، اور ترکی میں ’’انجمن اتحاد و ترقی‘‘کے اربابِ حل وعقد، اور مصر میں حریت پسند لیڈروں اور عالموں سے ان کی ملاقات رہی۔ شیخ جوہری طنطاوی سے مدارسِ عربیہ کے نصاب میں تبدیلی کے سلسلے میں دو ایک ملاقاتیں ہوئیں، اور خود شیخ طنطاوی مرحوم نے اپنی کتاب ’’تفسیر الجواہر‘‘جلداول میں دوجگہ ان کا ذکرکیا ہے۔
یورپ اور ممالکِ اسلامیہ کا یہ سفر پہلی جنگِ عظیم سے پہلے ان کے لیے بہت مفید ثابت ہوا، جس کے بعد ان کی تجارت کو دن دونی اوررات چوگنی ترقی ہوئی۔
جنگ کے بعد مدراس کے مشہور لیڈروں کے ساتھ خلافت تحریک میں حصہ لیا۔ نقطۂ نظر سیاست میں ہمیشہ قومی رہا، لیکن ہر قسم کے ادارے ان کی سخاوت سے فیض اٹھاتے تھے۔ سمرنا فنڈ کے لیے مسیح الملک حکیم اجمل خان مرحوم نے دہلی میں ان سے چندہ طلب کیا تو انہوں نے بڑے مؤدبانہ اندازمیں چیک بک پیش کردی اور حکیم صاحب کو اجازت دی کہ اپنی جانب سے جو رقم چاہیں بھر لیں، لیکن حکیم صاحب نے انہیں مجبور کیاکہ وہ اپنی جانب سے لکھ دیں۔ حکیم صاحب مرحوم فرماتے تھے کہ انہیں سخت حیرت ہوئی جب یہ دیکھا کہ جمال محمد مرحوم نے ایک لاکھ روپیہ کا چیک لکھ کر حوالے کردیا۔ قوم کے دیگر ملّی اداروں میں ان کی خیرات کا یہی عالم تھا۔ جنوبی ہند کے مدارس ِعربیہ، ’’اسلامی انجمنوں‘‘بلکہ غیر مسلموں کے تعلیمی اور سوشل ادارے بھی ان کے دسترخوان سے زلّہ رباتھے۔
1920ء کے بعد راقم الحروف کا بھی مدراس میں پہلے طالب علم کی حیثیت سے، اور اس کے بعد پروفیسر کی حیثیت سے قیام رہا۔
میری ملاقاتیں1924ء سے شروع ہوئیں جب میں نے گورنمنٹ محمڈن کالج مدراس میں عربی کے پروفیسر کی حیثیت سے چارج لیا تھا۔ دو ایک ملاقاتوں کے بعد حاجی جمال محمد مرحوم نے وہی مسئلہ پیش کیا جس کی انھیں دھن تھی، یعنی عربی مدرسے کے لیے ایک ایسا نصاب بنایا جائے جس میں علومِ جدیدہ اور انگریزی زبان کی تعلیم بھی شامل ہو، اور معیار عربی تعلیم کا کسی حیثیت سے کم نہ ہو۔ اس سلسلے میں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حاجی جمال محمد کے یہاں متعدد مجلسیں ہوتی تھیں اور اکثر مجلسیں اتوار کے دن صبح سے شام تک رہاکرتی تھیں، جن میں نصاب کی ترتیب و ترمیم کا اہم کام ہوا کرتا تھا۔ اس مجلس میں گورنمنٹ محمڈن کالج کے اکثر پروفیسر اور علماء بھی شامل رہا کرتے تھے۔ ایک مدت کی بحث وتمحیص کے بعد ایک نصاب تیارکیا گیا اور خود اُن کے ’’مدرسہ جمالیہ‘‘میں اس کو بطور تجربہ رائج کیا گیا۔ سب سے بڑا مسئلہ اساتذہ مہیا کرنے کا تھا، جمال محمد صاحب نے اس سلسلے میں بڑی سیرچشمی کے ساتھ ہر جگہ سے قابل افراد کا انتخاب کیا، اور انہیں اپنے مدرسے میں استاد کی حیثیت سے رکھا۔ مدرسے کی تعلیمی حالت روزافزوں ترقی پذیر تھی اور جمال محمد صاحب کی تجارت کو بھی اللہ پاک نے فروغ دیا تھا۔ اپنے خلوص اور حسنِِ نیت سے انھوں نے قوم کے نونہالوں کی تعلیم میں جو مددکی اس کی مثال شاید ہی کہیں مل سکے۔ ایک جلسے میں مَیں نے کبھی یہ ذکرکیا تھا کہ عربی مدارس میں جدید نصاب کے رواج کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ انگریزی پڑھنے والے مختلف طلبہ کو ایک ایسے ہاسٹل میں رکھا جائے جہاں دینی تعلیم اور قرآن وحدیث کے درس کا انتظام ہو، اور ایک دینی ماحول ہو، اور تعلیم کے لیے نہایت رعایت کے ساتھ بلکہ مفت رہنے سہنے کا انتظام کردیا جائے تو وہاں کے طالب علم اچھا اثرلے کر نکلیں گے۔ وقت کی بات ہے کہ جمال محمد صاحب کے دل میں یہ بات اثر کرگئی اور انھوں نے ایک ہفتے کے اندر ہی اندر اپنے بنگلے کے ساتھ ایک بہت وسیع اور عظیم الشان بنگلہ تقریباً تین ساڑھے تین سو روپے کرایہ پر تین سال کے لیے لے لیا اور اس میں ایسا ہاسٹل کھولنے کا انتظام کیاجس میں مختلف کالجوں کے طلبہ کو داخل کیا گیا۔ اس بورڈنگ ہاؤس کا نتیجہ تھا کہ مسلمان نوجوان جو تعلیم سے محروم رہاکرتے تھے، ایک کثیر تعداد میں کالجوں میں داخل ہونے لگے، اور یہاں تقریباً سو ڈیڑھ سوطلبہ کے رہنے کا انتظام کیا گیا۔ ان کے لیے صرف لکھنے پڑھنے اور رہنے کا انتظام ہی نہیں تھا بلکہ کالجوں کو آنے جانے کے لیے موٹر بسوں کے اخراجات کے لیے پانچ دس روپیہ ماہوار وظیفہ بھی دیا جاتا تھا۔ غالباً اس ہاسٹل کے پہلے وارڈن اور ڈپٹی وارڈن مولانا ابوظفر ندوی اور مولانا ابوالجلال ندوی تھے۔ تین چارسال تک یہ ہاسٹل نہایت کامیابی سے چلتا رہا، اور اس مدرسے سے صدہا نوجوان اپنی تعلیم ختم کرکے زندگی کے مختلف شعبوں میں چلے گئے۔
آج بھی جنوبی ہندکے بعض مشہور افسر، وکلا، ڈاکٹر، پرنسپل اور سیاست دان اسی ہاسٹل کے بورڈروں میں سے ہیں۔ ایک بات ان سب میں مشترک پائی جاتی ہے، اور وہ ان کی مذہبیت اور ملّی حمیت ہے۔ بانی کے خلوصِ نیت کا اثر تھا کہ ان کی اسکیم بڑی کامیاب رہی۔ شاید یہ اور بہت دنوں چلتا، لیکن تجارت کے پلٹاکھانے اور اقتصادی حالت کے عام طور پر بگڑ جانے کی وجہ سے بہ امرِ مجبوری اس اسکیم کو ختم کرنا پڑا۔
1925ء کے رمضان میں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ وہ بہت دیر تک میرے ساتھ بیٹھے ہوئے گفتگو فرما رہے تھے، اس سلسلے میں ’’ہبرٹ لیکچرز‘‘کا ذکرآگیا اور انھوں نے محسوس کیاکہ آکسفورڈ نے جس طرح اس قسم کے علمی اور مذہبی لیکچرزکا انتظام کیا ہے، ہم کوبھی چاہیے کہ اپنے نوجوانوں کے لیے اسی قسم کا ایک سلسلہ چھوٹے پیمانے پر رائج کریں۔ میں نے کہا ’’یہ کر تو سکتے ہیں لیکن بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کے اخراجات خاصے ہوں گے۔‘‘
جمال محمد صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں سالانہ پانچ چھ لیکچرز کے لیے کسی ایک کا انتخاب کیا جائے تو کیا اخراجات ہوا کریں گے؟ میں نے کہا کم ازکم دوہزار اور زیادہ سے زیادہ تین چارہزار کے قریب بجٹ ہوگا، اور آپ اس اسکیم کے ماتحت ہندوستان کے بہترین اصحاب کو اس سلسلے میں مدعو کرسکتے ہیں۔ جمال محمد صاحب نے فی الفور اس کو منظور کرلیا اور تن تنہا سارے مصارف اپنی جیب سے دینے کا وعدہ کیا، اور صدر انجمن تعلیم مسلمانان جنوبی ہند کی سرپرستی میں ایک کمیٹی بنائی اور انتظام حمید حسن سیٹھ مرحوم کے سپرد ہوا، اور پہلے لیکچررکا انتخاب مجھ ہی پر موقوف رکھا، اور میں نے علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم کا نام پیش کیا کہ ان سے درخواست کی جائے کہ سیرتِ نبوی کے بعض اہم پہلوؤں پر ان کی تقریریں ہوں۔ خط کتابت کے بعد علامہ مرحوم نے ہماری درخواست قبول کرلی اور وہ مدراس رونق افروز ہوئے اور یہاں وہ مشہور خطبے دیے جو بعد میں ’’خطباتِ مدراس‘‘کے نام سے دارالمصنفین سے شائع ہوئے۔ کتاب کی اہمیت اور ان خطبات کی افادیت پر لکھنا تحصیل حاصل ہے، اور یہ لکھنا شاید مبالغہ نہ ہوگا کہ ان خطبات نے بہت سے نوجوانوں کی زندگی میں انقلاب پیداکردیا۔ جمال محمد صاحب مرحوم کی مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، یہ محسوس ہورہا تھاکہ میں نے جو کچھ کیا وہ بہت کم ہے، اور یہ کامیابی اور شاندار نتیجہ حقیقت میں فضلِ الٰہی ہے دوسرے سال نظرِ انتخاب محمد مارماڈیوک پکتھال پر پڑی، وہ ہماری دعوت پر مدراس تشریف لائے اور یہاں اسلام کے ثقافتی پہلو پر چھ لیکچر دیے۔ یہ کتاب بھی انگریزی میں شائع ہوگئی اور اب تک اس کے دو تین ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ تیسرے سال علامہ سر محمد اقبال کو دعوت دی گئی کہ وہ مدراس تشریف لائیں اور کسی خاص اسلامی موضوع پر لیکچردیں۔ عام طور پر لیکچرر کو ایک سال کا وقفہ دیا جاتا تھا، تاکہ وہ اپنے لیکچرز تیار کرسکے، اور انہیں سنانے کے بعد ان کو کتابی شکل میں شائع کیا جاسکے علامہ سر محمداقبال مرحوم کے وہ معرکۃ الآراء خطبات جو کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں سب سے پہلے مدراس میں اسی کمیٹی کی سرپرستی میں مختلف نشستوں میں سنائے گئے۔ اس کے متعدد ایڈیشن آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہوچکے ہیں، ان خطبات کا اردو زبان میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ جمال محمد مرحوم کے اور کوئی کارنامے نہ بھی ہوتے تو صرف یہ کارنامہ ان کی بقائے دوام کے لیے کافی تھا۔
سر محمد اقبال مرحوم جب مدراس تشریف فرما ہوئے تو اُن پر جمال محمد صاحب کی شخصیت کا گہرا اثر ہوا، اور اس کے متعلق انہوں نے مدراس میں وائی۔ ایم۔ ای۔ اے ہال میں تقریر فرماتے ہوئے صاحب ِ موصوف کے متعلق ان خیالات کا اظہار کیا تھا:
’’حاجی جمال محمد صاحب کی شخصیت نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ ایک شخص سادہ لباس میں ہے، کروڑوں کی تجارت کرتا ہے اور دقیق فلسفیانہ مسائل پر گفتگو کرسکتا ہے، اسلام نے اسی Plain Leaving and High Thinking کی تعلیم دی تھی۔ شکل دیکھوتو درویشوں کی، اور دل دیکھو تو بادشاہوں کا اسی زندگی کی سرورِکائناتؐ نے ہدایت کی تھی۔ جس وقت سے مسلمانوں نے یہ زندگی چھوڑی اسی دن سے زوال شروع ہوگیا۔ ہم سب کو چاہیے کہ اس معاملے میں حاجی صاحب کی تقلید کریں۔‘‘
(رسالہ’ سفینہ‘، بابت جنوری 1929ء)
جمال محمد صاحب کی سادہ زندگی کا ایک خاص پہلو یہ تھا کہ وہ رسم ورواج کے بندھنوں سے آزاد تھے۔ شادی بیاہ کے معاملے میں جس سادہ طریقے کو انہوں نے اپنے خاندان کے لیے اختیار فرمایاتھا، اس کی مثال مشکل ہی سے ملتی ہے۔ ان کے لڑکے اور لڑکیوں کی شادی کی اطلاع خاص خاص احباب تک کو بھی نہ ہوتی تھی۔ طریقۂ کار یہ تھاکہ جب کبھی اپنی کسی لڑکی کے بیاہ کا خیال دل میں آیا اور انہوں نے اپنے ہونے والے داماد کا اپنے ذہن میں انتخاب کرلیا، اور ایسا شخص عموماً ان کے خاندان سے یا مدرسۂ جمالیہ کے طلبہ میں سے ہوا کرتا تھا۔ اس قسم کے فیصلے کے بعد چند گھنٹوں یا دو ایک دن کے اندر اندر نہایت سادہ طریقے پر گھر کے افراد کی موجودگی میں مدرسۂ جمالیہ کا کوئی استاد صیغۂ نکاح پڑھ دیتا تھا، اور اس کے بعد طلبہ اور اساتذہ کو کھانا کھلا دیا جاتا تھا۔ گھر میں جوکچھ لباس اور زیور مہیا ہوتا تھا وہ لڑکی کو دے دیا جاتا تھا، اور اس کے ساتھ رخصتی ہوجاتی تھی۔ اپنے نہایت وسیع کمپائونڈ میں مختلف چھوٹے چھوٹے بنگلے ہوتے تھے، ان میں سے کسی ایک میں ان کے قیام کا بندوبست ہوتا تھا، اور حسبِ استطاعت ان کو کسی کام میں لگادیا جاتا تھا۔ آج بھی جمال محمد صاحب کی اولاد اسی طریقے پر عمل پیرا ہے، اور سنتِ رسولؐ کی اس سادگی کی بنیاد جو اس گھرانے میں ڈالی گئی ہے اس کا ثواب یقیناً بانی کی روح کو پہنچتا ہوگا۔ لباس اور طرزِ معاشرت میں بھی سادگی نمایاں تھی۔ عام طور پر لنگی، سفید کرتا اور ایک پگڑی روزانہ کا لباس تھا۔ ولایت کے سفر میں، یا کسی رسمی محفل میں سیاہ شیروانی اور اسی رنگ کی پتلون پہناکرتے تھے۔ لباس کے طرز میں بھی ان کی اولاد و احفاد کی تقلید حیرت انگیز ہے۔ اس سادہ معاشرت نے ان کی زندگی میں جو وقار پیدا کیا تھا صاحبِ نظر لوگوں کی نگاہ سب سے پہلے اسی پر پڑتی تھی، اور یہی وجہ ہے کہ سر محمد اقبال نے اپنے تاثرات کا اظہار اپنی تقریر میں فرمایا۔
جمال محمد صاحب مرحوم کا ایک اور کارنامہ جس کو آسانی سے نہیں بھلایا جاسکتا وہ ان کی بروقت امداد ہے جو انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کو عطاکی۔ غالباً دسمبر 1927ء میں جب کہ مختلف اسباب کی وجہ سے جامعہ کی مالی حالت بالکل نازک صورت اختیار کرچکی تھی، مسیح الملک حکیم اجمل خان مرحوم کا یہ ارادہ ہواکہ وہ مدراس پہنچ کر جامعہ کی امداد کی تحریک کریں۔ اُس زمانے میں آل انڈیا نیشنل کانگریس کا اجلاس بھی مدراس میں مقرر تھا، اور اس کے صدر ڈاکٹر انصاری مرحوم تھے، اور آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس بھی زیرصدارت سر عبدالقادر مرحوم یہیں ہورہا تھا۔ دسمبر کے آخری ہفتے میں ان اجتماعات کے موقعوں پر مسیح الملک مرحوم نے ڈاکٹر ذاکر حسین خان کو جو اُس زمانے میں جامعہ ملیہ کے وائس چانسلر کی حیثیت سے کارفرما تھے، مدراس روانہ فرمایا اور ان سے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ کانگریس کے اجلاس کے زمانے تک وہ خود بھی مدراس پہنچ جائیں گے۔ گویہ انتظام اپنے خیال میں مسیح الملک نے فرمایا تھا، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، عین اُس زمانے میں حکیم صاحب مرحوم رامپور سے دلی آتے ہوئے ٹرین میں عارضۂ قلب سے وفات پا گئے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین خان صاحب مدراس پہنچ چکے تھے اور انہیں روزانہ مسیح الملک کی آمد کا انتظار تھاکہ یکایک اس حادثۂ جاں فرسا کی اطلاع اخبارات کے ذریعے سے ملی۔ لازمی بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب پر اس کا بڑا اثر ہوا اور مایوسی کا غلبہ رہا۔ اس زمانے میں پہلی دفعہ راقم الحروف کی ڈاکٹر ذاکرحسین سے ملاقات ہوئی، اور اس سلسلے میں مَیں نے اور جامعہ سے ہمدردی رکھنے والے بعض اصحاب نے یہ تجویز پیش کی کہ جمال محمد مرحوم سے اس سلسلے میں استمزاج کیا جائے اور مسیح الملک مرحوم کی آرزو سے انہیں آگاہ کیا جائے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے جس وقت جامعہ کے سارے پوست کندہ حالات بیان کیے اور مسیح الملک مرحوم کے ارادے کی اطلاع دی، جمال محمد صاحب نے نہایت ہی خندہ پیشانی سے تاحد امکان امداد کا وعدہ فرمایا اور دو ایک روزکے بعد ہی انہوں نے ڈاکٹر ذاکر حسین کی چائے کی دعوت کی جس میں مدراس کے اکثر معزز تاجر شریک تھے، اور وہیں جامعہ کی امداد کی تحریک کی، اور خود اپنے اور اپنے خاندان کے افرادکی جانب سے عطیات کا اعلان فرمایا جن کی مجموعی رقم شاید سترہ ہزار سے زیادہ تھی، اس کے بعد مدراس کے دیگر تاجروں سے رقمیں دلائیں، دوچار روز میں تقریباً چالیس ہزار روپے کی گرانقدر رقم مہیا کردی گئی۔ جامعہ ملیہ کی تاریخ میں یہ وہ نازک دورتھا جس میں کارکن ابتلا اور آزمائش سے تقریباً مایوسی کے درجے پر پہنچ گئے تھے، اس امداد نے ایک نئی روح پھونک دی اور جامعہ کا نیا دورِزندگی شروع ہوا۔ جمال محمد مرحوم کی قومی خدمات میں سے یہ ایک ایسی خدمت ہے جس کو انہوں نے نہایت ہی خاموشی سے کیا، اوراس کی نہ تو اشاعت کی اور نہ اس کو ذریعۂ شہرت سمجھا۔
تجارتی معاملات اور معاشی مسائل میں ان کی نگاہ دوربین اور دوررس تھی۔ جنگِ عظیم کے بعد عالمی کسادبازاری سے حکومتِ برطانیہ نے معمار زر، اسٹرلنگ کے لیے باقی نہ رکھا تھا اور اس وجہ سے پائونڈکی شرح تبادلہ پر خاصا اثر پڑا تھا، حکومتِ ہند نے ہندوستان کے روپے کو پائونڈ کے ساتھ منسلک کردیا تھا، اس لیے تجارتی منڈیوں میں روپے کی قیمت گھٹ گئی تھی اور اس کی شرح تبادلہ پر بڑا برا اثر پڑا تھا۔ حکومت اور حکومت کے ہم نوا ’اکانومسٹ‘ نے اس طرزعمل کی خوبی کو مدلل طور پر ثابت کرنا چاہا، اور ہندوستان کے فائنانس ممبر نے اس کی تائید میں اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ جمال محمد صاحب نے اس زمانے میں متعددآرٹیکل اس مسئلے پر لکھے اور ہندوستان کے مشہور انگریزی اخبارات اور معاشی رسالوں میں شائع کیے۔ ان میں انہوں نے گورنمنٹ کے اس فیصلے کو ہندوستان کے حق میں نہایت مضر ثابت کیا۔ واقعہ یہی تھاکہ اس سے اگرچہ اُن تاجروں کو جو باہر سے مال منگوایا کرتے تھے، عارضی طورپر فائدہ ہوا، لیکن ہندوستان سے بیرونی ممالک کو اشیاء بھیجنے والے تاجروں، اور خصوصاً تاجرانِ چرم کو جو نقصان پہنچا اُس نے 10سے 20سال تک ان تاجروں کو معاشی بحران میں مبتلا کیا۔ اُس زمانے میں جمال محمد صاحب کے مدلل اور محققانہ مضامین کی شہرت سے کامرس کی جگہ پر اسمبلی میں ان کا انتخاب ہوا، اور اُس زمانے کی لیجسلیٹو اسمبلی میں ایک مدت تک ممبررہے، اور اسی زمانے میں ہندوستان بھر کے تاجروں کے چیمبرز کی فیڈریشن نے انہیں اپنا صدر منتخب کیا ،اور یقیناًیہ ایک ایسااعزازتھا جو شاید ہی مسلمانوںمیں کسی کو میسرہواہو۔ مدراس یونیورسٹی کے ارباب ِحل وعقدجمال محمد صاحب کی تحریروں کے اس قدر قائل تھے کہ انہوں نے یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک غیر گریجویٹ کو اکنامکس اور کامرس کے بورڈآف اسٹڈیز کاممبر منتخب کیا۔
جمال محمد صاحب کی توجہات ابتدا سے ملک کے سیاسی مسائل کی طرف بھی رہیں، اور اس کا میں نے اشارۃً تذکرہ کیا ہے کہ ان کی ہمدردی ہمیشہ سے سیاست میں کانگریس کے ساتھ تھی،گو مدراس میں وہ مسلم لیگ کے صدر بھی رہے اور مسلم لیگ کا دفتر انہی کے آفس میں رہا، لیکن ان معاملات میں ان کی رائے بڑی صائب تھی، گول میز کانفرنس میں جمال محمد مرحوم کو بھی انڈیا گورنمنٹ نے منتخب کیا، یہ پہلی گول میز کانفرنس میں شریک رہے۔ ہندو اخبارکے صفحات شاہد ہیں کہ اُس زمانے میں انہوں نے گاندھی جی اور محمد علی جناح میں مصالحت کی بہت کچھ کوشش کی، لیکن ان ساری مساعی کا نتیجہ خاطرخواہ نہ نکلا، اور ہندوستان کی آزادی کا مسئلہ بہت دنوں کے لیے ملتوی ہوگیا۔ انگلستان کے دورے سے واپسی کے بعد جمال محمد مرحوم کی زیادہ تر توجہات تعلیم اور عربی مدارس کی اصلاح پر مبذول ہوگئیں۔ تجارت کی حالت روزبروز گرتی جاتی تھی لیکن ان کی داد و دہش اور قومی کاموں میں امداد کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ 1936ء میں راقم الحروف نے آکسفورڈ جانے کا خیال کیا تو جمال محمد صاحب نے بہت کچھ ترغیب دلائی اور ہر طرح کی امداد فرمائی۔ سیاحت کا شوق دلایا، یورپ کے مختلف ممالک کی سیر اور بالخصوص جمہوریہ ترکیہ میں کچھ دن اقامت کے لیے انہوں نے مجھ کو مجبور کیا، بلکہ وہ میرے انگلستان کے قیام کے زمانے میں برابر خط لکھا کرتے تھے، اور یورپ کے مختلف ممالک کی سیر کا شوق دلایاکرتے تھے۔ 1940ء کے بعد عموماً تاجرانِ چرم کی حالت اور جمال محمد صاحب کی تجارت میں خصوصاً ایک زبردست انقلاب پیدا ہوگیا تھا، لیکن جمال محمد صاحب کی تجارتی دیانت کی ایک عجیب وغریب مثال یہ ہے کہ انھوں نے جس وقت اپنی تجارت بند کرنے کا فیصلہ کیا تو اپنے سار ے قرض داروں سے جن پر ان کی رقم نکلتی تھی اور جن سے اس قرض کے حاصل کرنے کی مستقبل قریب میں کوئی امید نہ تھی، بلاکر بخوشی ان کی دستاویزاتِ قرض واپس کردیں، اور جن کمپنیوں کو انہیں رقم دینا تھی ان کی پائی پائی کا حساب کرکے بھجوا دیا۔ یہی نہیں بلکہ مدراس اور انجمنوں کی جو کچھ تنخواہیں، وظیفے اور امداد مقرر تھی ان کو بھی اس مہینے میں منی آرڈر کے ذریعے سے رقمیں بھیج دی گئیں، اور اس کے ساتھ یہ معذرت کی گئی کہ آئندہ شاید آپ کی مدد نہ کرسکوں۔
مجھے بھی بعض اداروں کی سرپرستی کی بدولت ان واقعات سے آگاہی رہی، اور میں بلاخوفِ تردید کہہ سکتا ہوں کہ اس قسم کی مثال ملنی بہت ہی مشکل ہے۔ غالباً جمال محمد صاحب کے کردارکی ان خوبیوں نے ہندوستان کی ایک عظیم الشان ہستی سر محمد اقبال کو اس طرح متاثر کیا تھاکہ انہوں نے علی الاعلان ان کی تعریف کی تھی۔
مجھے اس امر کا اعتراف ہے کہ اس مختصر سے مضمون میں ان کی زندگی کے مختلف پہلو تشنہ رہ گئے ہیں، لیکن جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ ان کی سوانح اور حالات کو جمع کرنا ایک ریسرچ اسکالر کاکام ہے جواُس زمانے کے اخبارات اور رسائل کے مضامین کی چھان بین کرے اور ان پر تفصیلی تبصرہ کرسکے۔ مرحوم کی زندگی نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ اعلیٰ کردار، محنت اور دیانت سے ایک شخص اپنے آپ کو کس بلند درجے تک پہنچا سکتا ہے۔
(فانوسِ خیال۔ مدراس 1376ھ ؍ 1956ء جلد چہارم)