یہ بھلے وقتوں کی بات ہے جب گورنمنٹ کالج لاہور ابھی خودمختاری کے نام پر نفع بخش کاروباری یونیورسٹی نہیں بنا تھا، اور اپنے سخت میرٹ، شاندار روایات، اعلیٰ تعلیمی معیار اور مثالی نظم و ضبط کے باعث ایشیا کی عظیم درسگاہوں میں شمار ہوتا تھا۔ اعلیٰ تعلیمی ریکارڈ کے حامل اساتذہ اور اسپورٹس کی دنیا کے جگ مگ کرتے ستارے اس درسگاہ سے وابستہ تھے۔ اُن دنوں کالج کی دیگر نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے ساتھ انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کے لیے ینگ اسپیکرز یونین (وائی ایس یو) کے نام سے ایک منتخب طلبہ باڈی بھی ہوتی تھی جو انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کی اسٹوڈنٹس یونین تھی، جبکہ ڈگری کلاسوں کے طلبہ و طالبات اپنی ایک باقاعدہ اسٹوڈنٹس یونین کا انتخاب کرتے تھے۔ دونوں یونینز کے امیدواروں کی حتمی جانچ پڑتال اور اسکروٹنی اساتذہ کی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کرتی تھی۔ یہ کمیٹی امیدوار کے تعلیمی ریکارڈ، تقریری صلاحیت، مجموعی رویّے اور کلاسوں میں حاضری کا ریکارڈ دیکھاکرتی تھی، اور اس کمیٹی کی منظوری کے بعد ہی کوئی طالب علم امیدوار بن سکتا تھا۔ وائی ایس یو کے انتخاب میں زیادہ گرم جوشی اور گہماگہمی ہوتی تھی، کیونکہ اسکولوں سے آنے والے طلبہ کو پہلی بار حقِ رائے دہی ملتا تھا۔ تاہم کسی ہنگامے یا لڑائی جھگڑے کی کوئی روایت نہیں تھی۔ کالج میں فرسٹ ایئر میں داخل ہونے والے طلبہ کی بڑی تعداد سینٹرل ماڈل اسکول سے آتی تھی جو کالج سے تقریباً متصل ہی تھا۔ چنانچہ وائی ایس یو کے انتخاب کے موقع پر اس اسکول کے طلبہ بھی اپنے امیدواروں کی حمایت میں انتخابی مہم میں شریک ہوجاتے تھے۔ لیکن یہ شرکت اتنی شریفانہ ہوتی تھی کہ طلبہ اور اساتذہ کو اعتراض نہ ہوتا تھا۔ اُس سال شاید کالج کی تاریخ میں پہلی بار انتخابی مہم کے دوران بدمزگی ہوئی اور بات لڑائی جھگڑے تک جا پہنچی۔ سینٹرل ماڈل اسکول کے جن طلبہ کو اس بدمزگی کا ذمہ دار سمجھا گیا، اُن میں ایک نوجوان کا نام زیادہ نمایاں ہوا۔ کچھ عرصے بعد ان ہی طلبہ کے گروپ کا کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلے کے وقت بھی اسی طرح کا جھگڑا ہوگیا۔ اِس بار بھی اسی نوجوان کا نام لیا گیا، اور پھر چند ماہ بعد یہی نوجوان خود گورنمنٹ کالج میں فرسٹ ایئر میں داخل ہوگیا۔ سرخ و سفید، خوبصورت و وجیہ، گٹھا ہوا کسرتی جسم، نشیلی سیاہ آنکھیں، چہرے پر پھوٹتی ہوئی ہلکی ہلکی داڑھی والا یہ نوجوان دیکھنے میں بڑا معصوم لگتا تھا لیکن اس کے جسم میں بجلیاں بھری ہوئی تھیں اور آنکھوں میں بہت کچھ کرجانے کا عزم۔ اُس کے گرد سینٹرل ماڈل اسکول کے سابقہ طلبہ کا ہالہ ہوتا۔ جلد ہی دیگر طلبہ بھی اس حلقے میں شامل ہوگئے۔ چنانچہ وائی ایس یو کا انتخاب آیا تو یہ نوجوان اپنی پُرکشش شخصیت، ساتھی طلبہ میں مقبولیت، اسلامی جمعیت طلبہ کی حمایت سے باآسانی وائی ایس یو کا سیکرٹری جنرل منتخب ہوگیا۔ وائی ایس یو کا یہی منتخب سیکرٹری جنرل بعد میں پنجاب میں طلبہ تحریکوں، لاہور کی بلدیاتی سیاست، اور پھر قومی سیاست کا ایک روشن اور تابناک ستارہ بنا۔ اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کی مختلف ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ وہ پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کا نائب صدر، پنجاب اسمبلی کا رکن، قومی اسمبلی کا دو بار رکن منتخب ہونے کے علاوہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کا جنرل سیکرٹری و صدر، ریلوے ملازمین کی سوداکاری یونین ’پریم یونین‘ کا جنرل سیکرٹری و صدر رہا، لیکن ہر ذمہ داری نبھانے اور عہدے سے فارغ ہونے کے بعد وہ کپڑے جھاڑ کر عام سیاسی کارکن بن جاتا۔
یہ وجیہ و شکیل نوجوان، بہادر و جری طالب علم لیڈر، بے لوث اور مخلص سیاسی کارکن، بے داغ و شفاف سیاست دان، چھا جانے والا مقرر اور درویش و فقیر انسان، حافظ سلمان بٹ تھا۔
حافظ سلمان کے چہرے پر لڑکپن اور جوانی میں ایک متاثر کن معصومیت تھی جو آخر وقت تک موجود رہی۔ شاید یہ قرآن کا اعجاز اور حافظ صاحب کے مضبوط کردار کی وجہ سے ہو۔ ایک عرصے تک لاہور شہر میں اُن کا دبدبہ اور ہیبت موجود تھی۔ لیکن اس طاقت کو انہوں نے لوگوں کی ترغیب کے باوجود کہیں ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا۔ اُن کے عزیز ترین بھائی حافظ زوہیب کو شہر کے ایک جرائم پیشہ ملاں مظفر گروپ نے قتل کردیا، لیکن حافظ صاحب نے یہ جانکاہ صدمہ صبر و ہمت سے برداشت کرلیا۔ وہ قومی و صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تو درجنوں لوگوں نے انہیں مالی فوائد کے راستے اور امکانات دکھائے جن میں لاکھوں روپے روزانہ بھتہ دینے والا لاہور کا اڈہ بادامی باغ بھی تھا۔ لیکن حافظ صاحب نے اس جانب دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ گوجرانوالہ میں کچھ مخلص دوستوں نے ایک رہائشی اسکیم میں حافظ صاحب کا نام بطور وائس چیئرمین دے دیا۔ حافظ صاحب نے ان دوستوں سے معذرت کرکے اپنا نام نکلوا دیا۔ چنانچہ اتنے دبدبے اور ہیبت والے رکن قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کی موت کرایہ کے مکان میں اس انداز میں ہوئی کہ اُس کے بینک اکائونٹ میں چند ہزار روپے اور ذاتی ملکیت میں اپنے نیک نام اور رزقِ حلال کے لیے مشہور باپ خواجہ طفیل کی چھوڑی ہوئی تھوڑی سی جائداد کے شرعی حصے کے سوا کچھ نہیں تھا۔
حافظ صاحب کی شرم و حیا اور پاک بازی کا یہ عالم تھا کہ پنجاب یونیورسٹی میں انتخابی مہم کے دوران کوئی طالبہ بات کرتی تو حافظ صاحب کی نظریں زمین پر گڑ جاتیں اور وہ اس طرح مؤدب ہوکر اس کی بات سنتے جیسے اپنی والدہ محترمہ کا حکم سن رہے ہیں۔ عام طالبات حافظ صاحب کے اس رویّے سے زچ ہوجاتیں، بلکہ ترقی پسند طالبات تو یہاں تک کہہ دیتیں ’’ایڈا سوہنا تے گبھرو جوان کیتھے جماعتیاں چہ جا مریا اے‘‘ (اتنا خوبصورت اور گبھرو جوان کہاں جماعتیوں میں جا مرا ہے!)
گورنمنٹ کالج میں وائی ایس یو کے انتخاب میں جمعیت کی جانب سے شہباز شیخ صدارت اور حافظ سلمان سیکرٹری جنرل کے امیدوار تھے۔ اُس وقت تک حافظ صاحب تقریر اور خطابت میں پیدل تھے۔ چنانچہ وائی ایس یو کے اُس وقت کے صدر اور آج کے معروف معالج ڈاکٹر حافظ اعجاز کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اقبال ہاسٹل کے اپنے کمرے میں آئینے کے سامنے کھڑا کرکے حافظ صاحب کو تقریر کی پریکٹس کرائیں۔ یہ مشق کامیاب رہی اور شہباز شیخ اور حافظ سلمان دونوں باآسانی انتخاب جیت گئے، لیکن ابھی بطور سیکرٹری جنرل کامیاب ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ ایک افسوسناک واقعے نے حافظ صاحب کی زندگی کا رُخ ہی بدل دیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کا پینل کامیابی کے بعد شہر بھر کے تعلیمی اداروں کا چکر لگاتے ہوئے گورنمنٹ کالج لاہور پہنچا تو یہاں پی ایس ایف کے نوجوانوں نے جلوس کا راستہ روک لیا۔ اس جھگڑے کے دوران پی ایس ایف کے رہنما اور موجودہ وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ اور بعض دیگر طالب علم زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں نوازشریف کے فرسٹ کزن حنیف برکت بھی شامل تھے، جن کی ران پر چھری لگی تو حافظ سلمان نے بھاری بھرکم حنیف برکت کو رکشہ میں ڈال کر میو اسپتال پہنچایا۔ خون زیادہ بہہ جانے کے باعث وہ جانبر نہ ہوسکے اور اس قتل کا مقدمہ دیگر افراد کے ساتھ حافظ سلمان کے خلاف بھی درج ہوگیا، حالانکہ اُن کا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں قائم پیپلز پارٹی کی حکومت اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ ساتھ اُبھرتے ہوئے حافظ سلمان سے بھی خوف زدہ تھی۔ حافظ صاحب اس مقدمے میں سال ڈیڑھ سال قید رہے۔ بعد میں باعزت بری ہوئے لیکن پھر جیل آنا جانا اُن کا معمول بن گیا۔ ایک مقدمے سے فارغ ہوتے تو دوسرے میں دھر لیے جاتے، ایک سے بری ہوتے تو دوسرے میں نامزد ہوجاتے۔ بہرکہف یہ سارا وقت حافظ صاحب نے پورے حوصلے کے ساتھ کاٹا، بلکہ اپنے نصب العین اور مقصد کے ساتھ اُن کی کمٹمنٹ زیادہ مضبوط ہوتی گئی۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں کی طلبہ تحریکوں اور بہت سے ہنگامہ خیز واقعات کا نمایاں کردار حافظ سلمان بٹ تھے۔ تحریک نظام مصطفیٰ میں اُن کے کردار کو اہلِ لاہور آج بھی یاد کرتے ہیں۔ اس تحریک کے دوران سول نافرمانی کا اعلان ہوا تو لاہور سے گوجرانوالہ اعلانیہ بغیر ٹکٹ سفر کرنے والے کارکنوں کی قیادت حافظ سلمان کررہے تھے۔ تحریک کے دوران پولیس اور پیپلز پارٹی کے فسطائی ہتھکنڈوں کے خلاف عملی مزاحمت کرنے والوں میں حافظ سلمان سب سے نمایاں تھے۔
1980ء کی دہائی کے وسط تک حافظ صاحب اسلامی جمعیت طلبہ میں سرگرم تھے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات آئے تو جماعت اسلامی نے انہیں اندرون شہر کے حلقے سے قومی اسمبلی کا امیدوار نامزد کردیا۔ یہ ایک مشکل حلقہ تھا اور مزاجاً پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ جیسی جماعتوں کے لیے سود مند تھا۔ پھر یہاں سے اُس وقت کے صوبائی وزیر میاں صلاح الدین عرف میاں صلی امیدوار تھے، جن کا یہ آبائی حلقہ بنتا تھا۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد لاہور کے پہلے میئر میاں امیر الدین کے صاحبزادے، شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے داماد، اور خود اس حلقے سے 1977ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے تھے۔ علاقے میں اُن کی دھاک تھی۔ وہ مالی اور سیاسی اعتبار سے بھی مضبوط تھے اور ڈنڈی پٹی بھی تگڑے تھے۔ اُن کے کارکن مخالفین کے اسٹیج الٹانے اور ان کے جلسے خراب کرنے کی شہرت رکھتے تھے۔ حافظ صاحب نے اللہ کا نام لے کر اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔ چند دن بعد میاں صلی کے آبائی علاقے میں جلسہ رکھا جہاں مخالفین نے پہلے دھمکیاں دیں، پھر اسٹیج نہ بننے دیا۔ کارکنوں نے اسٹیج بنایا تو اسے اکھاڑ پھینکا اور آخر میں اعلان کردیا کہ اگر حافظ سلمان جلسہ گاہ پہنچے تو انہیں گولی مار دی جائے گی۔ حافظ صاحب مختلف کارنر میٹنگز سے خطاب کرتے ہوئے اس جگہ پہنچے تو اسٹیج اور جلسہ گاہ کے بجائے چند فکرمند کارکن موجود تھے، جبکہ اطراف اور گھروں کی چھتوں پر کچھ تماشائی نظر آرہے تھے۔ حافظ صاحب وہاں پہنچتے ہی ایک تھڑے پر چڑھ گئے۔ انہوں نے انتہائی جذباتی انداز میں اپنا خطاب شروع کیا کہ ’’مجھے دھمکیوں، اسٹیج اکھاڑنے اور کارکنوں کو خوف زدہ کرنے کی اطلاعات مل رہی تھیں، ایک موقع پر میں کسی جھگڑے سے بچنے کے لیے یہ پروگرام ملتوی کرنے پر بھی آمادہ تھا، لیکن جب مجھے پیغام ملا کہ آج حافظ سلمان کو گولی ماری جائے گی تب میں نے ہر صورت میں یہاں پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ اب میں پہنچ گیا ہوں، کسی میں جرأت ہے تو آگے آکر گولی مارے‘‘۔ ساتھ ہی حافظ صاحب یہ اعلان کرتے ہوئے تھڑے سے اُتر آئے کہ اب یہ جلسہ میاں صلی کی حویلی کے سامنے ہی ہوگا۔ اب حافظ صاحب آگے تھے اور اُن کے پیچھے ان کے چند درجن کارکن۔ اس بڑھتے ہوئے قافلے میں رفتہ رفتہ دوسرے لوگ بھی شامل ہوتے گئے، یہاں تک کہ میاں صلی کی حویلی تک پہنچتے پہنچتے یہ ایک معقول جلوس بن چکا تھا۔ حافظ صاحب نے یہاں پہلے سے بھی زیادہ جذباتی اور جرأت مندانہ خطاب کیا اور اعلان کیا کہ اب ہر روز اسی جگہ جلسہ ہوا کرے گا۔ یہ اعلان دراصل حافظ صاحب کی کامیابی اور میاں صلی کی شکست کا اعلان تھا۔ یہ انتخاب حافظ صاحب نے باآسانی ہزاروں ووٹوں کی برتری سے جیت لیا۔ میاں صلی اس شکست سے اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ انہوں نے تین دن بعد ہونے والے صوبائی انتخابات سے بھی دستبرداری کا اعلان کردیا۔ چنانچہ اس نشست پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق کی والدہ بیگم فرحت رفیق کامیاب ہوگئیں۔
1990ء میں اس حلقے سے حافظ صاحب ایک بار پھر امیدوار تھے جب وہ پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر سے شکست کھا گئے۔ لیکن اُس وقت تک وزیراعلیٰ پنجاب میاں نوازشریف حافظ سلمان پر فریفتہ ہوچکے تھے، چنانچہ وہ جماعت اسلامی سے مشاورت کے بعد ایک ضمنی انتخاب کے ذریعے حافظ صاحب کو پنجاب اسمبلی میں لے آئے۔ 2002ء میں حافظ صاحب ایک بار پھر سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کو ایک نئے حلقے سے شکست دے کر قومی اسمبلی میں پہنچ گئے۔
جنرل پرویزمشرف کے دور کے بلدیاتی انتخاب میں اہلِ پاکستان کو لاہور کا معرکہ ہمیشہ یاد رہے گا جس کا مرکزی اور روشن کردار حافظ سلمان بٹ تھے۔ ان انتخابات میں ضلع ناظم لاہور کے لیے حکومتی اور اسٹیبلشمنٹ کے امیدوار دنیا ٹی وی کے موجودہ چیف ایگزیکٹو میاں عامر محمود تھے۔ کہا جارہا تھا کہ بعض باہمی دوستوں کی کوششوں سے یہ بات طے پائی تھی کہ میاں عامر ناظم اور حافظ سلمان نائب ناظم لاہور کے امیدوار ہوں گے۔ لیکن اُس وقت کے مسلم لیگ (ق) کے سربراہ میاں اظہر نے محض ذاتی مخاصمت کی بنیاد پر ایسا نہ ہونے دیا۔ چنانچہ حکومتی امیدوار میاں عامر کے مقابلے میں پیپلز پارٹی نے عزیز الرحمٰن چن، مسلم لیگ (ن) نے سابق لارڈ میئر لاہور خواجہ حسان، اور جماعت اسلامی نے حافظ سلمان بٹ کو ضلع ناظم لاہور کے لیے امیدوار نامزد کردیا۔ اس دوران اپوزیشن کا مشترکہ پینل لانے کے لیے کوششیں اور میٹنگز ہوئیں، لیکن کوئی جماعت اپنا امیدوار دست بردار کرنے کو تیار نہ تھی۔ انتخاب سے پانچ یا چھ دن پہلے آخرکار یہ کوششیں کامیاب ہوگئیں، اور حافظ سلمان ناظم، پیپلز پارٹی کے عزیز الرحمٰن چن نائب ناظم، اور خواجہ حسان داتا گنج بخش ٹائون کے تحصیل ناظم کے طور پر اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار ڈیکلیر ہوگئے۔ ان پانچ چھ دنوں ہی میں حافظ صاحب نے اپنی ذہانت، خطابت، جرأت اور محنت سے فضا بنادی، اور پورا لاہور متحرک کردیا۔ لگتا تھا کہ حکومتی برج الٹ جائے جائے گا۔ حافظ صاحب کی اس محنت
کے نتیجے میں میاں عامر حکومتی اثررسوخ، فوج کی آشیرباد اور وسائل کے باوجود 50 فیصد سے زائد ووٹ نہ لے سکے۔ حافظ صاحب ان سے صرف سوا سو ووٹ پیچھے تھے۔ چنانچہ یہ انتخاب دوبارہ ہوا۔ لیکن اس دوران میاں عامر، حکومت اور حکمران فوجی ٹولے نے دولت اور دھونس کے ذریعے اپوزیشن کے بعض گروپ توڑ لیے۔ اس طرح دوسرے مرحلے کا انتخاب جیت کر میاں عامر ناظم لاہور تو منتخب ہوگئے، لیکن عوامی سطح پر جو پذیرائی حافظ صاحب کو حاصل ہوگئی تھی، میاں عامر اُس کی دھول کو بھی نہ چھو سکے۔
حافظ سلمان نے بیسیوں الیکشن لڑے۔ ہار یا جیت دونوں صورتوں میں اُن کی بے نیازی نمایاں رہتی۔
دراصل اُن کی ذات میں ایک عجیب طرح کا عجز اور انکسار تھا۔ انہوں نے زندگی بھر کلف لگے کپڑے نہیں پہنے، پائوں کی پشاوری چپل یا جوتا ہمیشہ سلیپر کی طرح ایڑی دبا کر استعمال کیا۔ انہیں اچھا کھانے، ویٹ لفٹنگ، کسرت اور پہلوانی کرنے، فٹ بال کھیلنے اور کھلانے کے علاوہ موقع بہ موقع آرام و استراحت کا شوق تھا۔ مواقع کے باوجود انہوں نے کبھی کوئی کاروبار کیا، نہ کسی کاروبار میں شرکت کی۔ وہ پائوں چوڑے کرکے اور تقریباً گلے پر ہاتھ باندھ کر نماز کی نیت کرتے تو مخالفین بھی متاثر ہوتے۔ انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ ایک کھٹارا موٹر سائیکل پر گزار دیا، اور شاید وہ موٹر سائیکل بھی جمعیت کی ملکیت تھی۔ انہوں نے حوالات کے سخت فرش اور ملک کے اعلیٰ ترین ایوان کے یخ بستہ ماحول دیکھے، مگر نہ حوالات اور جیل سے خوف زدہ ہوئے اور نہ اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں سے مرعوب۔ کرایہ کے مکان سے اُن کا جنازہ اُٹھا تو دور کسی مجذوب نے آواز لگائی کہ بستی کے لوگو! آج تمہارے درمیان سے ایک ایسا جری و بے خوف شخص اُٹھ گیا جس نے اپنی ہیبت اور طاقت کو کبھی اپنی ذات اور خاندان کے لیے استعمال نہیں کیا۔ اس تاریخی شہر نے ایسا شخص دہائیوں میں دیکھا جس پر اعلیٰ ترین ایوانوں میں پہنچنے کے باوجود ایک دھیلے کی کرپشن کا الزام ہے نہ اس نے کوئی مراعات حاصل کیں۔ راہِ حق کا یہ مسافر بے پناہ خطرات کے باوجود ہمیشہ بے خوف ہوکر لاہور کی سڑکوں اور گلیوں میں موجود رہا۔ اور ایسا شخص اس شہر نے خال خال ہی دیکھا ہوگا جس کا جنازہ مواقع اور عہدوں کے باوجود کرایہ کے ایک مکان سے اٹھا ہے۔
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے