”صبح سے دودھ ہی نہیں پیا، ٹھنڈا ہورہا ہے، الٹی پہ الٹی۔“
”تیز بخار، تالو سوج گیا ہے، روئے چلی جارہی ہے، گود میں اٹھاؤ تو اور زیادہ رونے لگتی ہے۔“
”سر درد سے پھٹ رہا ہے، لائٹ آنکھوں پر پڑے تو چلاّنے لگتا ہے، عجیب حرکتیں، گردن پکڑ کر رو رہا ہے۔“
کوئی ایک خاص بات نہیں… جتنے منہ اتنی باتوں کی طرح کئی شکایات۔
کیا ہیں یہ سب علامات؟ مختلف عمر کے بچوں میں مختلف شکایتیں، مگر مسئلہ ایک، خطرناک، خراب اور برے اثرات کے ساتھ۔
گردن توڑ بخار (Meningitis) ایک جان لیوا بیماری ہے، اگرچہ کہ بہت عام نہیں مگر ایسا بھی نہیں کہ آپ واقف نہ ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے انسانی دماغ کو کئی جھلیوں/ پرتوں میں ایک بہت ہی محفوظ طریقے سے رکھا ہے، اور سر کی ہڈیاں اس کی حفاظت کا انتظام کرتی ہیں، لیکن خون کی گردش تو جسم میں ہر جگہ موجود ہے، اور دماغ کو غذا سے لے کر آکسیجن تک خون ہی کے ذریعے پہنچتی ہے۔
اب تصور کریں کہ آپ یا آپ کا بچہ ہوا، غذا، پانی یا کسی دیگر ذریعے سے کسی بیکٹیریا/ وائرس/ فنگس/ پیراسائٹ کا شکار ہوتے ہیں… کوئی ٹائیفائیڈ، کوئی نمونیہ، کوئی ملیریا، کوئی ٹی بی کا شکار ہوتا ہے… یا کوئی اور بیکٹیریا، وائرس، فنگس (پرندوں کا کام کرنے والوں کو کبھی کبھی پرندوں کی بیٹ کے ذریعے فنگل انفیکشن ہوجاتا ہے) کا شکار ہوتا ہے، یعنی کوئی بھی ایسا جرثومہ جو خون میں شامل ہوجائے اور خون کے ذریعے دماغ کی ان جھلیوں (Meningies) تک پہنچ جائے ، کوئی چوٹ لگے اور ناک کے جراثیم کا راستہ دماغ کی جھلی تک ہو جائے تو یہ جھلی انفیکشن کی موجودگی کی وجہ سے سوج جاتی ہے ۔ یہ سوجن (Inflammation) ہی گردن توڑ بخار (Meningitis) ہے ۔
دماغ کی ان جھلیوں کی سوجن کی وجہ سے کئی علامات ظاہر ہوتی ہیں، اور اگر ڈاکٹر توجہ نہ دیں تو بعض اوقات اتنی معمولی ہوتی ہیں کہ غلطی کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔
آپ سوچیں ایک نومولود بچہ سو رہا ہے، وہ دودھ بھی نہیں پی رہا ، یا اس کا درجہ حرارت نارمل سے بھی کم ہوگیا ہے۔ اب علامات بظاہر بہت معمولی ہیں ، کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ ٹھنڈ لگ گئی ہے لپیٹ دیں ، یا تھوڑی دیر بعد دودھ پی لے گا، یا سونے دو کیا مسئلہ ہے! چھوٹے بچے تو بہت سوتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ یا تھوڑے بڑے بچے کو بخار ہے، اٹھانے میں جسم دُکھ رہا ہوگا، اس لیے اٹھانے پر زیادہ روتا ہے، دیکھو کہیں ہنسلی تو نہیں اتر گئی !
ارے لائٹس بند کردو نا… اب سر درد میں اگر لائٹس بری لگ رہی ہیں تو کیا ہے، بند کردو!
تکیہ غلط رکھ لیا ہوگا اس لیے گردن میں درد ہے۔ یہ گردن درد کی علامت بڑوں میں کلاسیکل مگر سال بھر سے چھوٹے بچوں میں اتنی زیادہ اہمیت کی حامل نہیں۔
الٹا سیدھا کچھ کھا لیا ہوگا، اس لیے الٹی پہ الٹی وغیرہ وغیرہ۔ یعنی جتنے منہ اتنی باتیں۔
اسی لیے ان کامن علامات کے باوجود ڈاکٹروں کی جانب سے بہت توجہ سے ہسٹری اور فزیکل چیک اپ… جس میں وہ کلاسیکل علامات خود چیک کرتے ہیں اور فزیکل ریویو کے بعد ہی بتا سکتے ہیں کہ اس کو گردن توڑ بخار ہے کہ نہیں۔ اور پھر لیب آپ کو مدد دیتی ہے۔ فون کال پر یا فاصلے سے بیٹھ کر ویڈیو کال پر معائنہ ممکن نہیں اور غلطی کا امکان بہت زیادہ ہے۔
گردن توڑ بخار میں بخار کا آنا لازمی نہیں ۔ نومولود بچوں میں درجہ حرارت کا بہت کم ہونا بھی اس بات کی علامت ہوسکتی ہے، خاص طور پر وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں میں۔
اسی طرح ایک اور قابلِ ذکر بات کہ ان تمام علامات میں سے سب یا کوئی ایک علامت بھی گردن توڑ بخار کی پہلی علامت ثابت ہوسکتی ہے، اس لیے ماہرین کے نزدیک بچوں کے ڈاکٹر کا بچوں کے علاج میں متجسس (index of suspicion) ہونا ضروری ہے۔ یعنی بچہ گود میں اٹھانے پر ہی کیوں روتا ہے ؟ ٹھنڈا کیوں ہے ؟ شدید سر درد آخر کیوں ؟؟ وغیرہ وغیرہ۔
علامات سے آگے بڑھتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا ایک ہی قسم کے جراثیم سب بچوں میں گردن توڑ بخار کا باعث ہوتے ہیں؟ یا اس میں عمر ، موسم اور جغرافیائی حالات کا کوئی دخل ہے؟
جی ہاں مختلف عمر کے بچوں میں مختلف جراثیم… مختلف جغرافیائی حالات میں مختلف جراثیم…
بیکٹیریا عام طور پر دو سال سے کم عمر کے بچوں کو متاثر کرتا ہے، لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ وائرس اور فنگل انفیکشن دو سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو نہیں ہوتے۔
ویکسین کا کوئی رول ہے اس خطرناک بیماری سے بچاؤ میں؟
جی ہاں بالکل ہے، جب سے Hib ویکسین، (Hemophilus influenza type b)اور نمونیہ کی ویکسین PCV 13 , PCV 10 وغیرہ بچوں کو لگائی جارہی ہیں، ان بیماریوں سے ہونے والے گردن توڑ بخار میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
ایک بات سمجھنے کی ہے کہ کوئی بھی بیکٹیریا جو جسم میں داخل ہوگیا ہے وہ خون کے ذریعے دماغ تک پہنچ کر بچے کو گردن توڑ بخار میں مبتلا کرسکتا ہے۔ اس لیے یہ سوچنا کہ ویکسین کے بعد ایسا کیوں ہوا، درست نہیں، کیونکہ بیکٹیریا کی ہزاروں اقسام ہیں۔ بیکٹیریا کی طرح مختلف وائرس بھی جسم میں داخل ہوکر دماغ کی جھلی کو سوجن میں مبتلا کرکے گردن توڑ بخار کا باعث بنتے ہیں۔
وائرس زیادہ تر گرمی کے موسم میں یا خزاں کے ابتدائی دنوں میں حملہ آور ہوتے ہیں، اور اس میں ایک طرح سے وبائی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ وائرس بھی کئی طرح کے ہیں اور کئی خطرناک ہیں۔
ان سے ہٹ کر جیسے پہلے عرض کیا، پرندوں کا کام کرنے والے بعض اوقات فنگل انفیکشن اور گردن توڑ بخار (جو فنگس کی وجہ سے ہوتا ہے) کا زیادہ شکار ہوسکتے ہیں۔ یعنی کوئی بھی جرثومہ جو دماغ کی جھلی تک پہنچ جائے وہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
اب کرنا کیا ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے، کیونکہ معاشرے میں اس قدر غلط فہمیاں پھیل گئی ہیں کہ مریض کے مفاد میں کی جانے والی بات بھی بعض اوقات مریض کی تیمارداری کرنے والوں کو سمجھ میں نہیں آتی۔
ایک بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ اگر آپ کا بچہ کسی بھی وجہ سے گردن توڑ بخار میں مبتلا ہوگیا ہے تو اس کی تشخیص کا واحد ٹیسٹ ”کمر سے پانی نکال کر لیب میں معائنہ کرنا“ ہی ہے۔ عام زبان میں ڈاکٹر کمر سے پانی نکالے گا اور اس کو لیبارٹری بھجوا کر یہ جاننے کی کوشش کرے گا کہ اس بچے میں بیکٹیریا، وائرس یا کس جراثیم گردن توڑ بخار پیدا کیا۔
کمر کے پانی (Cerebrospinal fluid) یا CSF کے سوا کوئی ذریعہ نہیں جو یہ بتا سکے کہ جراثیم کون سا ہے، کیا دوا استعمال کرنی ہے۔ نہ کوئی MRI , CT ٹیسٹ بھی نہیں۔ صرف کمر کا پانی۔
یہ کیوں ضروری ہے، اس کو سمجھیں۔ دماغ کے گرد جو جھلی ہے اس پر انفیکشن ہے۔ اس جھلی کے گرد ایک خاص قسم کا پانی گھوم رہا ہوتا ہے، اس کو CSF/ Cerebrospinal fluid کہتے ہیں، اور یہ پانی نیچے کمر تک آتا ہے اور واپس جاتا ہے۔ ڈاکٹرز اس پانی کو کمر سے نکال کر اس کا لیب میں معائنہ کرکے بتا سکتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔
یہ کیوں ضروری ہے؟ اس لیے جناب کہ اگر آپ کو علم ہی نہ ہو کہ ہوا کیا ہے تو علاج کیسے کریں گے! یہ تو ہوئی پہلی بات۔ دوسری اور اہم بات یہ کہ اس پانی کے کلچر کے ذریعے آپ جراثیم کا نام معلوم کرتے ہیں، اس کی کلاسیفکیشن کرتے ہیں، اور سب سے اہم بات، ”ہر جراثیم کے لیے علاج کی مدت مختلف، دوا بھی مختلف“… یعنی کچھ کا علاج دس دن اور کچھ جراثیم جو گردن توڑ بخار کا سبب بنتے ہیں ان کا علاج کبھی کبھی ایک مہینہ بھی کرنا پڑتا ہے۔
اب اگر آپ انکار کردیں کہ نہیں بھئی ہم اپنے بچے کی کمر کے پانی کو ٹیسٹ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، ہمارے خاندان میں کبھی ایسا ہوا ہی نہیں… یا پھوپھو کے سسرالیوں نے کروایا تھا، آج تک بچہ بدتمیز ہے۔ نا بھئی نا… تو جناب پھر کیسے کریں علاج!
دس دن میں ٹھیک ہونے والے جراثیم کے لیے مہینہ بھر دوا بھی زیادتی، اور مہینہ بھرجس کا علاج ضروری اس کو دس دن دوا میں بند کردینا زیادتی نہیں بلکہ گناہ ۔
تو جناب تشخیص کا واحد ٹیسٹ CSF Culture اور بعض اوقات PCR ۔
اگر ڈاکٹر آپ سے کہہ رہے ہیں کہ گردن توڑ بخار لگتا ہے، تو براہِ مہربانی اپنے بچوں پر رحم کریں اور بچے کی بہتری کے لیے یہ کمر کے پانی والا ٹیسٹ کرنے دیں۔
ایک بار جب یہ مخصوص ٹیسٹ ہوجائے، جو بعض اوقات مریض کے مفاد میں دیر سے بھی کیا جاتا ہے اگر داخلے کے وقت مریض کی حالت اس ٹیسٹ کے قابل نہ ہو۔
دیگر ادویہ کے ساتھ ساتھ اینٹی بائیوٹک ادویہ کا بہتر استعمال اور دورانیہ اسی ٹیسٹ پر منحصر ہے۔
اگر کسی بچے کو گردن توڑ بخار ہوجائے تو بہترین علاج کے باوجود اس کے خراب اثرات بعد کی زندگی میں نظر آتے ہیں، جس میں سماعت کے متاثر ہونے سے (جو کہ معمولی اثر ہے) لے کر شدید نقصان یعنی ذہنی پسماندگی(Mental Retardation) تک ہوسکتی ہے۔ آپ سوچیں، یہ علاج کے باوجود ہے۔ اور اگر علاج ہی نہ کریں اور بیماری کو جھٹلا دیں کہ بیماری تو ہے ہی نہیں، تو کیا ہو؟ شاید موت۔
گردن توڑ بخار ایک مہلک اور جان لیوا بیماری ہے، اس لیے اس بیماری کو عام اور آسان نہ سمجھیں۔
بچوں میں اس کی علامتیں عام نوعیت کی ہی ہوتی ہیں، اس لیے نظرانداز ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ یہ بیماری ڈاکٹر کی بھی خصوصی توجہ چاہتی ہے، اور ان کا Index of suspicion بہت اہمیت کا حامل ہے۔
یاد رکھیں احتیاط علاج سے بہتر ہے۔