موسمی آفتیں گرین پریمیم گنجائش کیسے پیدا کی جائے(چوتھا باب)

(دوسرا حصہ)
چلیے، امریکہ میں بجلی کے لیے پریمیم سے شروع کرتے ہیں۔ یہ درحقیقت اچھی خبر ہے: ہم کاربن اخراج، سادہ سے گرین پریمیم کے ذریعے مٹاسکتے ہیں۔ بجلی کے معاملے میں کاربن سے پاک ذرائع کے حصول میں پریمیم کا مطلب اضافی لاگت ہے۔ یہ ذرائع ہوا، سورج، نیوکلیئر پاور، اورکوئلے، قدرتی گیس کے وہ پلانٹ ہیں جہاں کاربن جذب کرنے والے آلات موجود ہوں۔ یہ پریمیم کتنا ہوگا؟ بدلتے امریکہ کا سارا بجلی نظام اگر صفر کاربن ذرائع میں منتقل کیا جائے تو اضافی لاگت ایک کلو واٹ فی گھنٹہ 1.3 سے 1.7سینٹ بنے گی، یعنی موجودہ قیمت سے پندرہ فیصد زیادہ ادائیگی کرنی پڑے گی۔ یہ ایک گھرانے کے لیے اٹھارہ ڈالر ماہانہ اضافی خرچہ ہوگا۔ یہ اکثر لوگوں کے لیے مشکل نہ ہوگا، لیکن کم آمدنی والے امریکیوں کے لیے آسان بھی نہ ہوگا۔
یہ اچھی بات ہے کہ امریکیوں کے لیے گرین پریمیم سستا ہوگا۔ یہی کچھ یورپ کے لیے بھی کہا جاسکتا ہے۔ یورپین ٹریڈ ایسوسی ایشن کے مطابق یورپ میں گرڈ کی بجلی کا 90 سے 95 فیصد اگر کاربن فری کردیا جائے تو فی گھر لاگت 20 فیصد بڑھ جائے گی۔
بدقسمتی سے چند ہی ریاستیں ہیں جو امریکہ جتنی خوش نصیب ہیں۔ امریکہ کے پاس قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع کی ترسیل وافر ہے، شمال مغرب سے بحرالکاہل ہائیڈرو پاورکی ترسیل ہے، وسط مغرب میں تیز ہوائیں چلتی ہیں، اور جنوب مغرب میں سال بھر کی شمسی توانائی دستیاب ہوتی ہے۔ دیگر ملکوں میں شاید کچھ شمسی توانائی پہنچتی ہو، مگر ہوائیں نہیں چلتیں، اور کہیں تھوڑی بہت ہوا چلتی ہے مگر سورج نہیں نکلتا، اورکہیں دونوں ہی کی کمی ہے۔ افریقا اور ایشیا سب سے مشکل صورتِ حال میں ہیں۔ چند دہائیوں سے چین نے تاریخ کی ایک عظیم کامیابی حاصل کی ہے، کروڑوں انسانوں کو غربت سے نکال دیا ہے، اور اس میں کوئلے سے چلنے والے پلانٹس کی سستی بجلی کا کردار کلیدی ہے۔ چینی فرموں نے کوئلے کے پلانٹ کی لاگت 75 فیصد کم کی، اور آج انہیں زیادہ سے زیادہ صارفین چاہئیں۔ اس لیے اب وہ ترقی پذیر ملکوں تک اس کام کا دائرہ بڑھا رہے ہیں: بھارت، انڈونیشیا، ویت نام، پاکستان، اور پورے افریقا میں۔
یہ نئے صارفین کیا کریں گے؟ کیا یہ کوئلے کے پلانٹس تعمیر کریں گے یا کاربن فری پالیسی اپنائیں گے؟ سوچیے، ان کے اہداف اور انتخاب کیا ہوگا؟ چھوٹے پیمانے پر شمسی توانائی ان غریب ملکوں کے لیے ایک صورت ہوسکتی ہے، دیہاتی علاقے جہاں سیل فون چارج کرنے کے لیے بجلی درکار ہوگی، یا راتوں میں روشنی کی ضرورت ہوگی۔ مگر اس قسم کا حل بڑے پیمانے پر سستی اور ہر وقت دستیاب صاف بجلی کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ جبکہ ان ملکوں کو اپنی معیشتوں کی ترقی کے لیے بجلی کی وافر مقدار درکار ہوگی۔ چنانچہ یہ وہی کچھ کرنا چاہتے ہیں جو چین نے کیا، یعنی یہ اپنی معیشتوں کو زیادہ سے زیادہ صنعت سازی اور کال سینٹرز کے ذریعے ترقی دینا چاہتے ہیں، ایسے کاروبارکو فروغ دینا چاہتے ہیں جو قابلِ تجدید توانائی کے بجائے رائج ذرائع سے حاصل بجلی پرانحصار کرتے ہیں۔ اگر یہ ملک کوئلے سے چلنے والے پلانٹس کا انتخاب کرتے ہیں، جیسا کہ چین اور ہر امیر ملک نے کیا، تو یہ موسم کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ مگر فی الوقت یہی سب سے کم خرچ انتخاب انہیں میسر ہے۔
پہلی بات، یہ ابھی واضح نہیں کہ گرین پریمیم کی گنجائش ہر جگہ کیسے پیدا کی جائے۔ جب تک قدرتی گیس پلانٹس چل رہے ہیں، تیل خریدتے رہیں گے۔ ایک اور بات یہ کہ جب کوئی ٹیکنالوجی بڑے پیمانے پر استعمال کی جاتی ہے تو اُس کی لاگت کم ہوجاتی ہے۔ پھرصاف ستھری توانائی کیوں اضافی لاگت مانگتی ہے؟ ایک سادہ وجہ یہ ہے کہ قدرتی ایندھن بہت سستا ہے۔ ہم نے دہائیوں تک قدرتی ایندھن کے حصول اور ترسیل پر بڑی محنت کی ہے، جس کی وجہ سے یہ آج اتنا سستا ہے۔
ایک وجہ وہ بھی ہے جس کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں کہ دنیا کے بہت سے خطے قابلِ تجدید توانائی کے مناسب ذرائع نہیں رکھتے۔ سو فیصد سے قریب تر ہونا ہے تو اس کے لیے بہت زیادہ کلین انرجی حاصل کرنی ہوگی۔ اس کے لیے اُن مقامات پر نظر مرکوز کرنی ہوگی جہاں سورج کی کرنیں زیادہ سے زیادہ پڑتی ہوں اور تیز ہواؤں کا گزر ہوتا ہو، اور اُن مقامات تک اس توانائی کو منتقل کرنا ہوگا جہاں موسم ابر آلود رہتا ہو اور ہوائیں نہ چلتی ہوں۔ نئی ٹرانسمیشن لائنیں تعمیر کرنی ہوں گی۔ یہ ایک مہنگا اور وقت طلب کام ہے، خاص طور پر اُس وقت جب یہ قومی سرحدوں سے پار جارہی ہوں۔ جوں جوں ہم لائنیں بچھائیں گے یا نصب کریں گے، زیادہ سے زیادہ لاگت بجلی کی پیداوار پر آئے گی۔ درحقیقت بجلی کی ترسیل اور تقسیم لاگت میں ایک تہائی سے زائد کے حصے دار ہوں گے۔ اکثر ملک یہ نہیں چاہتے کہ بجلی کے لیے دوسرے ملکوں پر انحصار کریں۔ (جاری ہے)