ہفتہ 27جون 2021ء کو بلوچستان اسمبلی کے بجٹ سیشن اجلاس میں وزیراعلیٰ جام کمال نے حکومت کے پروگرام اور منصوبوں کو بڑی شائستگی، وضاحت اور جامعیت کے ساتھ پیش کردیا ہے۔ متحدہ حزبِ اختلاف نے بجٹ اجلاس منعقدہ 18جون سمیت پورے سیشن کا مقاطعہ کیے رکھا۔ اسمبلی کے اندر اُس روز بہت ہی شرمناک رویّے دیکھنے کو ملے۔ یقیناً اس کے لیے حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں قصور وار ٹھیرتے ہیں۔ گاہے جام کمال خان کا لہجہ بھی تلخ ہوجاتا ہے۔ جام کمال کو افہام و تفہیم کی راہ اپنانی چاہیے تھی۔ انہیں بخوبی علم تھا اور ہے کہ حکومتی صفوں کے اندر سے بدخواہ ان کو چاروں شانوں چت کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس ضمن میں اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کردار و گفتار کے لحاظ سے مبرہن ہیں۔ اسپیکر چاہتے تو بجٹ والے دن رسوائی نہ ہوتی۔ پھر حزبِ اختلاف کے خلاف مقدمے میں جلدبازی ہوئی۔ بہتر ہوتا کہ معاملے کے گرد و پیش پر باریک بینی سے غور و خوض کے بعد کوئی قدم اٹھایا جاتا۔ چناں چہ ہوا یہ کہ حزبِ اختلاف کے اراکین جو پرچے میں نامزد کیے گئے تھے، خود چل کر زرغون روڈ کے بجلی گھر تھانہ پہنچ گئے۔ انہوں نے بجٹ اجلاس کے اگلے دن سے آج تک تھانے میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ حکومتی دائو کارگر نہ ہوسکا، اُلٹا وہ مشکل میں پھنس گئی۔ پولیس اراکینِ اسمبلی کو گرفتار کر نہیں سکتی جب تک اسپیکر اسمبلی ایکٹ 3اور6کے تحت تحریری اجازت نہ دے۔ جبکہ اسپیکر اپنی بچھائی ہوئی بساط پر کھیل رہے ہیں، اب حکومت یا جام کمال کریں تو کیا کریں؟ لہٰذا کئی حکومتی اراکین تھانے گئے، مگر حزبِ اختلاف اپنی بات پر قائم ہے۔ ادھر سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی تھانے آمد جاری ہے۔ یہ صورتِ حال حکومت مخالف رجحان میں اضافے کا باعث بنی، حتیٰ کہ سردار یار محمد رند نے بھی تھانے جاکر جام مخالفت میں حصہ ڈالا۔
سردار رند نے 23جون کے اسمبلی اجلاس میں دنیا جہاں کی محرومیوں کا اظہار کیا، وزارت سے الگ ہونے کا اعلان کیا، اور25جون کو گورنر بلوچستان کو اپنا استعفیٰ بھیج دیا۔ اسپیکر عبدالقدوس بزنجو تو اسمبلی ہال کے خراب مائیک کے لیے بھی جام کو ذمہ دار ٹھیرانے کی کوشش کرچکے ہیں۔ گویا یہ سب کچھ جان بوجھ کر اور سازشی تھیوری کے تحت ہورہا ہے، اور ان سب تماشوں سے صوبہ ہر لحاظ سے منفی اثر لے رہا ہے اور عوام میں بے یقینی پھیل رہی ہے۔ حکومتی ایوانوں کے اندر نمائندوں کے ذاتی منافشات سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ جیسے صوبہ فی الواقع کسی آفت اور آزمائش میں مبتلا ہے۔ سردار یار محمد رند حکومت کا حصہ ہیں، اپنی جماعت کے پارلیمانی لیڈر ہیں، مگر اس کے باوجود انہیں اپنی جماعت کے اراکین کی حمایت حاصل نہیں۔ انہوں نے رونا کچھی میں سہولیات کا بھی رویا۔ دیکھا جائے تو سردار رند خود ایوانوں کا حصہ رہے ہیں، پرویزمشرف کی آمریت میں وفاقی وزیر تھے۔ اُس وقت فنڈز کی فراوانی تھی۔ پرویزمشرف کی شخصی حکومت میں وزراء موج میں تھے۔ لہٰذا تب ہی سردار یار محمد رند اپنے حلقے میں اچھے اسپتال تعمیر کرتے، تاکہ مریضوں اور حاملہ خواتین کو کوئٹہ لے جانے کی حاجت و ضرورت نہ پڑتی۔ سردار رند کو اپنی جماعت کے اراکینِ اسمبلی کی حمایت حاصل ہوتی تو اب تک سب اپنے استعفے گورنر کو بھیج چکے ہوتے، یا وہ خود مارچ2021ء کے سینیٹ انتخابات میں اپنے بیٹے کو امیدوار لانے کے بعد واپس دست بردار نہ کراتے۔ اسمبلی میں بعض دوسری باتیں اُن کی شخصیت کے شایانِ شان ہرگز نہ تھیں۔ رند قومی سطح کی جماعتوں کے ساتھ رہے ہیں، اس لحاظ سے وہ قومی سطح کے سیاسی رہنما ہیں، وہ قبائل کے متفقہ سربراہ بھی ہیں۔ اسمبلی اجلاس میں ایسی چھوٹی اور سطحی باتیں تو شاید ایک علاقائی لیڈر بھی نہ کرے۔ دراصل سردار رند اپنی آئندہ کی سیاسی راہیں مسدود کررہے ہیں۔
غرض اس پورے تناظر میں اگر جام کمال حزبِ اختلاف کو قریب لاتے ہیں تو یقیناً ان کی جماعت اور اتحادی محاذ قائم کرلیں گے۔ اور حقیقتِ حال یہ ہے کہ اپنے، بہت کچھ پر بھی اکتفا نہیں کرتے۔ حزبِ اختلاف بھی سمجھے کہ حکومتی حلقوں سے اگر کوئی ان سے وارفتگی و محبت کا اظہار کرتا ہے تو یہ صرف اور صرف جام کمال خان کے بغض میں ہورہا ہے۔ ان سطور میں پہلے بھی لکھا جاچکا ہے کہ وزیراعلیٰ متحدہ حزبِ اختلاف سے قربت پیدا کرنے کی پالیسی اپنائیں۔ جام کمال نے اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کو منصب سے ہٹائے جانے کے تاثر کی اگرچہ نفی کی ہے، مگر یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ گھر کا یہ بھیدی سازشی تھیوری پر ہی گامزن رہے گا۔
ادھر ایڈووکیٹ زینت شاہوانی نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے اندر کا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ زینت شاہوانی بی این پی سے تعلق رکھنے والی رکن اسمبلی ہیں۔ پارٹی نے ان کی رکنیت مارچ2021ء کے سینیٹ انتخابات میں اپنے امیدوار ساجد ترین کو ووٹ نہ دینے کی پاداش میں معطل کردی ہے، جس پر زینت نے 26 جون کو پریس کانفرنس کے ذریعے ردعمل دیا، سوالات رکھ دیے اور پردہ فاش کیا ہے۔ اس انتخاب میں پارٹی کے دیرینہ کارکن اور رہنما ایڈووکیٹ ساجد ترین حیرت انگیز طور پر شکست سے دوچار کیے گئے۔ زینت شاہوانی کہتی ہیں کہ پارلیمانی بورڈ کا فیصلہ راتوں رات تبدیل کرکے ساجد ترین کے ووٹ پارٹی کے دوسرے امیدوار قاسم رونجھو کو ڈالے گئے۔ پارلیمانی بورڈ نے ساجد ترین کو پہلے اور قاسم رونجھو کو دوسرے نمبر پر رکھا تھا۔ خاتون رکنِ اسمبلی نے سوال کیا کہ ساجد ترین کو ملنے والے سیکنڈ ووٹ کہاں گئے؟ زینت شاہوانی نے پارٹی کی تحقیقاتی کمیٹی کو مسترد کردیا ہے اور جوابی وار کرتے ہوئے کہا کہ بی این پی کے دو ارکان نے2018ء کے سینیٹ الیکشن میں پارٹی امیدوار ہمایوں عزیز کرد کے بجائے کہدہ بابر کو ووٹ دیئے تھے، اور نقطہ اٹھایا کہ مارچ کے سینیٹ انتخابات میں پارٹی کی خاتون امیدوار کے بجائے ایک دن پہلے شامل ہونے والی نسیمہ احسان کو جتواکر سینیٹر بنایا گیا۔ زینت شاہوانی کی رکنیت معطل کرکے بی این پی نے حکمت سے کام نہیں لیا ہے۔ سینیٹ کے اس انتخاب میں بلوچستان اسمبلی کی متحدہ حزبِ اختلاف وحدت کے ساتھ نہ چلی تھی۔
nn