منصوبہ بندی کا فقدان گیس کا سنگین بحران

کراچی میں ایک بار پھر بجلی کے بعد گیس کا بحران پیدا ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے پیداواری صنعتیں بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ برآمدی صنعت کو بھی گیس فراہم نہیں کی جارہی، جس کی وجہ سے آرڈر منسوخ ہوسکتے ہیں، اور آرڈر منسوخ ہونے سے برآمدات میں کمی ہوسکتی ہے۔ صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ سی این جی، آر ایل این جی اسٹیشنز کو بھی گیس کی فراہمی معطل کردی گئی ہے اور گیس کی بندش سے صنعتوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس صورتِ حال میں سوئی سدرن گیس کمپنی نے صنعتی مالکان کو کہا کہ وہ گیس کی بحالی تک متبادل بندوبست کریں۔ ایس ایس جی سی کے ترجمان کے مطابق ”کنڑپساکھی گیس فیلڈ سالانہ مرمت کی وجہ سے بند ہے، جس کی وجہ سے 177 ایم ایم سی ایف ڈی کا شارٹ فال ہے، جس سے لائن پیک متاثر ہوئی ہیں۔
ایک خبر کے مطابق گیس کی فراہمی معطل ہونے اور بحران کی وجہ سے سائٹ، کورنگی، نیو کراچی صنعتی ایریا میں کام بند ہوگیا ہے۔ دوسری طرف آل پاکستان سی این جی اسٹیشن ایسوسی ایشن نے دھمکی دی ہے کہ ملک بھر میں گیس کی بندش کا فیصلہ واپس نہ لیا گیا اور سی این جی اسٹیشن نہ کھولے گئے تو احتجا ج کریں گے۔ ان کے مطابق ملک بھر میں 2300 سی این جی اسٹیشن بند ہیں جس سے 3 لاکھ افراد کا روزگار متاثر ہورہا ہے۔
گیس کی سپلائی نہ ہونے سے گیس کے ذریعے بجلی بنانے والے اداروں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، جس کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں، خاص کر کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھ چکا ہے۔ ہمارے ملک میں گیس کے ذریعے بجلی کی کم پیداوار کی صورت میں فرنس آئل سے بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، اور اس کے لیے حکومت کی جانب سے بجلی کے کارخانوں کو تیار رہنے کے لیے بھی کہا گیا ہے، لیکن یہ بجلی مہنگی پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ فرنس آئل کی زیادہ قیمت ہے۔ ماہرینِ توانائی اس صورتِ حال کو حکومت کی ناقص انتظامی پالیسی اور ویژن کا فقدان بھی قرار دے رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ گیس کے شعبے کی صورت حال اتنی خراب کیوں ہوئی؟ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گیس کی طلب پوری کرنے کے لیے مقامی سطح پر پیدا ہونے والی گیس کے ساتھ ایل این جی درآمد کی جاسکتی ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں گیس فیلڈز سے گیس کی پیداوار کے ساتھ درآمدی گیس کے لیے کراچی کی بندرگاہ پر دو ایل این جی ٹرمینل تعمیر کیے گئے تھے جنھیں فلوٹنگ اسٹوریج اینڈ رجسٹریشن یونٹ (ایف ایس آر یو) کہا جاتا ہے۔ یہ ٹرمینل بحری جہاز پر ہی بنے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک اینگرو کمپنی کا ٹرمینل ہے اور دوسرا پورٹ گیس نامی کمپنی کی زیر ملکیت ہے۔
ان ٹرمینل کو ایک خاص مدت کے بعد مینٹی نینس یعنی بحالی کی ضرورت ہوتی ہے جسے ’ڈرائی ڈاک‘ کہا جاتا ہے۔ گزشتہ برس اینگرو ٹرمینل پر مرمت کا کام ہونا تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے باہر سے تکنیکی عملہ نہیں آسکا، اس لیے یہ کام نہیں ہوسکا تھا۔ اب کمپنی نے اس کام کو جون کے آخر میں کرنے کا اعلان کیا ہے کیونکہ اُسے عالمی اداروں کے قانون کے تحت 30 جون تک یہ کام مکمل کرنا ہے۔ اس پلانٹ کی مینٹی نینس کی وجہ سے گیس کی اسٹوریج اور اس کی تقسیم متاثر ہونے کی وجہ سے گیس کی سپلائی متاثر ہوسکتی ہے، جس کا اعتراف وفاقی وزیر توانائی نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ہے۔ جبکہ سوئی سدرن گیس کمپنی نے پہلے ہی صنعتی صارفین کو اطلاع دے دی تھی کہ اس کی ایک بڑی گیس فیلڈ سالانہ مینٹی نینس کی وجہ سے بند ہے جس کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان میں گیس سپلائی میں کمی کا سامنا ہے۔
کراچی میں ڈارسن سیکورٹیز میں توانائی کے شعبے کے تجزیہ کار ولی محمد نے بتایا کہ ملک میں روزانہ 6ارب کیوبک فیٹ گیس کی طلب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں سے 3.5 ارب کیوبک فیٹ گیس مقامی گیس فیلڈز میں پیدا ہوتی ہے، اسی طرح درآمدی گیس یعنی ایل این جی کے دو ٹرمینلز پر 600 ایم ایم سی ایف روزانہ کی استعداد ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے اینگرو کو کہا ہے کہ وہ اپنے ٹرمینل کی مینٹی نینس کا کام جون کے بجائے آگے بڑھائے، اس وقت اس ٹرمینل کے بند ہونے سے توانائی کا بحران بڑھ سکتا ہے کیونکہ سوئی سدرن گیس کمپنی کے اعلان کے مطابق اُس کی ایک گیس فیلڈ 21 دن کے لیے بند ہے اور اطلاعات کے مطابق سالانہ بحالی کے کام کے لیے ایک اور گیس فیلڈ بھی بند کی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ دو گیس فیلڈز بند ہونے اور اینگرو کے ٹرمینل کے بحالی کے کام کی وجہ سے بندش کی صورت میں ملک کو بہت بڑے گیس بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کے آثار ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ سوئی سدرن گیس کمپنی کا بھی کہنا ہے کہ فراہمی میں اِس وقت کمی واقع ہوئی ہے جس کی بڑی وجہ انھوں نے سندھ کے علاقے میرپور خاص میں ایک بڑی گیس فیلڈ میں سالانہ دیکھ بھال اور مرمت کے کام کو قرار دیا۔ کیونکہ اس گیس فیلڈ سے 170 سے 200 ایم ایم سی ایف گیس فراہم کی جاتی ہے جو فیلڈ بند ہونے کی وجہ سے سسٹم میں نہیں آرہی۔
پاکستان میں کمپریسڈ نیچرل گیس ایسوسی ایشن کے مرکزی عہدیدار اور گیس کے شعبے کے ماہر غیاث پراچہ نے ایس ایس جی سی کے اس اعلان کو مسترد کیا کہ گیس فیلڈ بند ہونے کی وجہ سے گیس کی کمی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ اُن کا اپنی ناکامی کو چھپانے کا منصوبہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ دراصل گیس ہی کم درآمد کی گئی ہے جس کی وجہ طلب و رسد کو مدنظر رکھتے ہوئے وقت پر امپورٹ کا آرڈر نہ دینا ہے۔ ماہرین کے مطابق بجلی کی طلب کا یہ پیک سیزن ہے اور گیس بحران کی وجہ سے ملک کو پھر مہنگے فرنس آئل کی طرف جانا پڑے گا جس سے بجلی بنانے کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ ماہرین اس خدشے کا بھی اظہار کررہے ہیں کہ فرنس آئل کے کاروبار سے وابستہ کمپنیاں اس بحران میں ملوث ہوسکتی ہیں اور اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ہمارے یہاں طاقت ور مافیا موجود ہے، اور ہر بحران کے پیچھے مفادات اور طاقت ور مافیا کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ ملک میں فرنس آئل کا اسٹاک ایک مہینے کا ہوتا ہے، اور وہ بھی اس صورت میں جب دوسرے ذرائع سے بھی بجلی بن رہی ہو جن میں پانی، گیس، نیوکلیئر شامل ہیں۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ اگر گیس کے بجائے ساری بجلی فرنس آئل سے پیدا کی جائے تو یہ اسٹاک چند دن میں ختم ہوجائے گا اور اس کے ساتھ یہ مہنگی بجلی بھی بنائیں گے کیونکہ فرنس آئل سے بننے والی بجلی گیس کی نسبت مہنگی پڑتی ہے، جس کا خمیازہ بعد میں مختلف ہتھکنڈوں سے عام صارف کو ہی بھگتنا ہوتا ہے۔
ایک طرف گیس بحران کی وجہ سے صنعتی اداروں سمیت عام آدمی کی مشکلات بڑھ رہی ہے، تو دوسری طرف اس کا حل نکالنے کے بجائے حکومت اور اپوزیشن مناظرے کررہی ہیں کہ ملک میں بجلی اور گیس کے بحران کا ذمہ دار کون ہے؟ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے مناظرے کا چیلنج دیا، جسے وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے قبول کرلیا ہے۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ایس ایس جی سی کی گیس بندش مرمت کی وجہ سے نہیں ہے، نون لیگ کے دور میں فرنس آئل زیادہ سڑ رہا تھا، حماد اظہر کیوں غلط بیانی کررہےہیں؟ آپ لوگ 3سال سے موجود ہیں، پائپ لائن آپ لوگوں نے نہیں بڑھائی، آپ لوگ مہنگا فرنس آئل لے رہے ہیں، مہنگی بجلی دے رہے ہیں۔ حماد اظہرکا کہنا تھا کہ صرف ایک ایل این جی ٹرمینل کی مرمت ہورہی ہے، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اپنی جگہ، یہ حقائق پر مبنی بات ہے، کل سے مرمت شروع ہوگی تو 75 ایم ایم سی ایف ٹی سسٹم سے نکلے گی۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ انہوں نے لوکل انڈسٹریز کی گیس بند کردی ہے، آپ نے آخری وقت پر پوچھا جس پر قطر نے منع کردیا، پلانٹس کی 6 ماہ پہلے مرمت کرلیتے، آج ملک میں بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، آپ آج مہنگی گیس خرید رہے ہیں۔ حماداظہر نے کہا کہ ایس ایس جی سی میں 15 فیصد گیس کی بندش ہے، 85 فیصد دی جارہی ہے، ہرگرمی میں تین سے چار گیس فیلڈز آؤٹیج میں جاتی ہیں، ہم نئے ٹرمینل کے لیے لائسنس جاری کرچکے ہیں، 15 سال میں دو بار مرمت کی شق نون لیگ کے دور میں معاہدے میں شامل کی گئی۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ان کے پاس لانگ ٹرم کا کوئی معاہدہ نہیں، ہم نے 13.3فیصد کا گیس کا معاہدہ کیا، آپ مجھے کوئی ایک لانگ ٹرم پراجیکٹ دکھا دیں، 10.4 فیصد کے معاہدے پر گیس آج تک نہیں آئی، آپ نے لانگ ٹرم کنٹریکٹ کیا ہی نہیں، ہم بار بار کہتے ہیں کہ ایل این جی لے کر آئیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارا معاہدہ جنوری 2022ء سے شروع ہوگا۔
گیس بحران پر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی نااہلی و بدانتظامی کے باعث سندھ بالخصوص کراچی میں گیس کا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے، کراچی ملک کی اقتصادی شہ رگ اور معاشی حب ہے، یہاں کی صنعتوں کو گیس کی بندش سے قومی معیشت اور برآمدی پیداوار کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ گیس کے بحران سے بجلی کی لوڈشیڈنگ میں بھی اضافہ ہوگیا ہے، اور سی این جی اسٹیشنز کی مسلسل بندش نے شہرِ قائد میں موجود برائے نام پبلک ٹرانسپورٹ کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ سی این جی اسٹیشنز سے وابستہ افراد کا کاروبار تباہ اور اس سے منسلک ہزاروں افراد بے روزگار ہورہے ہیں، گھریلو صارفین بھی گیس لوڈشیڈنگ کے باعث مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہیں اور گھروں میں خواتین کے لیے کھانا پکانا مشکل ہورہا ہے۔ موسم گرما میں گیس کا بحران وفاقی حکومت اور متعلقہ اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ گیس کی ممکنہ کمی اور بحران کے حوالے سے پہلے سے خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا، مگر وفاقی حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی، اور اس کی نااہلی و بدانتظامی کی سزا کراچی کی صنعتوں اور عوام کو بھگتنا پڑرہی ہے۔ گیس کی بندش سے صنعتوں میں پیداواری سرگرمیاں بند ہوگئی ہیں اور بالخصوص برآمدی مصنوعات تیار کرنے والی صنعتوں میں نئے آرڈر نہیں لیے جارہے، کیونکہ پہلے سے دیئے گئے آرڈرز پورے کرنا ممکن نہیں ہورہا۔ حکومت ایک طرف برآمدات میں اضافے کی خوش خبری سناتی ہے اور دوسری طرف گیس کا بحران پیدا کرکے اپنے دعووں کے برعکس اقدام کرتی ہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ کراچی کی صنعتوں کو گیس پریشر کی کمی اور بندش کے ذریعے تنگ کیا جارہا ہے، اور ان کو ایک دباؤ کے تحت آر ایل این جی پر منتقل کرنے اور آر ایل این جی ان کو مہنگے داموں فروخت کرنا سازش ہے جو کراچی کے صنعت کاروں کے ساتھ سراسر ظلم و زیادتی ہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ وفاقی حکومت اور ایس ایس جی سی کراچی کے صنعت کاروں کو تنگ کرنے کا رویہ ترک کرکے کراچی میں صنعتی عمل تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے کراچی سمیت سندھ کو بھی آئین کے مطابق گیس میں سے اس کا جائز حصہ دیں۔ کراچی کی صنعتوں اور سی این جی اسٹیشنز کو گیس کی فراہمی فی الفور یقینی بنائی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنی پیش رو حکومت کی ناکامی کے بعد بلند و بانگ دعووں کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی، کیونکہ عوام ماضی کی حکومت کے عوام دشمن رویّے سے بہت تنگ تھے۔ بداعمالیاں، بدانتظامی اور بدترین کرپشن، تیزی سے بڑھتی مہنگائی… یہ سارے عنوانات پہلے بھی تھے اور آج بھی موجود ہیں، اور صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں ہے، اور موجودہ گیس بحران میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں لیکن ان میں سب سے بڑی وجہ منصوبہ بندی کا فقدان ہے جو بدقسمتی سے اس حکومت کے ہر شعبے میں موجود ہے۔