ہفتۂ رفتہ اس خطے میں رونما ہونے والے کئی واقعات اپنے اثرات کے لحاظ سے دوررس ہیں۔ ان واقعات سے ظاہر ہورہا ہے کہ یہ خطہ دنیا میں شروع ہونے والی نئی کشمکش میں ایک بار پھر سینڈوچ بنتا جارہا ہے۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کا ایک اہم اور فیصلہ کن اجلاس منعقد ہورہا تھا۔ یہ اجلاس پاکستان اور بھارت کے بیانیوں کے درمیان جنگ کا آخری رائونڈ تھا، جس میں مغربی دنیا کو دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے مؤقف پر صداقت اور قبولیت کی مہر ثبت کرنا تھی۔ اجلاس جاری ہی تھا کہ لاہور میں حافظ سعید کی رہائش گاہ کے قریب ایک دھماکہ ہوا جس میں 3 افراد جاں بحق اور درجن بھر زخمی ہوئے۔ اس کارروائی کا ہدف حافظ سعید تھے، مگر اس موقع پر دنیا کو یہ باور کرانا تھا کہ حافظ سعید نامی شخصیت اب بھی پاکستان میں خانہ نظربندی کا سامنا کررہی ہے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں اس واقعے کے بعد ایک بار پھر حافظ سعید کے نام کی گونج سنائی دینے لگی۔ حافظ سعید فیٹف کی کارروائی کا ایک اہم موضوع ہیں۔ دوسرے ہی روز فیٹف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ برقرار رکھا اور مزید 6 نکات کی ایک فہرست پاکستان کو تھمادی گئی۔ اس فہرست کا مرکزی خیال حافظ سعید تھے، کیونکہ اس میں اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گرد قرار پانے والوں کے خلاف کارروائی تیز کرنے کا مطالبہ شامل ہے، اور حافظ سعید کا نام سب سے اوپر ہے۔ اس کے دو دن بعد جموں میں ائرفورس اسٹیشن پر دو ڈرون حملے ہوئے، جن میں دو افراد کے معمولی زخمی ہونے کی بات کی گئی۔ ان حملوں کے فوراً بعد ہی بھارتی میڈیا میں ایک بار پھر یہ افسانہ طرازی شروع ہوئی کہ اس کارروائی میں لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد کا ہاتھ ہے۔گویا کہ جموں حملے کے پس منظر میں ایک بار پھر حافظ سعید کا خاکہ اُبھارا گیا۔ بھارتی میڈیا نے الزام عائد کیا کہ اس سے پہلے بھی عسکری تنظیمیں ڈرون کے ذریعے کشمیر میں اسلحہ منتقل کرتی رہی ہیں۔ ڈرونز کے ذریعے جیشِ محمد حزب المجاہدین کے لیے اسلحہ بھیجتی ہے۔ ایک چینل نے یہ بھی کہا کہ ڈرون کے ذریعے اسلحہ منتقل کرنے کا فیصلہ سید صلاح الدین، ذکی الرحمان لکھوی، موسیٰ بھائی، حمزہ عدنان اور طاہر اعجاز نامی افراد کی میٹنگ میں کیا گیا تھا۔ دفاعی مبصرین جموں حملے کو پلوامہ پارٹ ٹو قرار دے رہے ہیں۔ یوں لاہور دھماکے کی طرح جموں حملوں کی کہانی کا ڈراپ سین بھی گھما پھرا کر آخرکار حافظ سعید کے نام پر لاکر کیا گیا۔ اس طرح پاکستان کو بدستور گرے لسٹ میں رکھنے کے فیٹف کے فیصلے کو بھرپور سندِ جواز بخشی گئی۔
جس طرح پلوامہ میں منوں بارودی مواد کی منتقلی اور اس مشکوک گاڑی کو چیک نہ کرنے کے سوالات کے جواب ملنا باقی ہیں اسی طرح ہائی سیکورٹی زون میں یہ ڈرون حملہ بھی اپنے پلاٹ کے اندر ہی کئی سوالات رکھتا ہے۔ کچھ بھارتی اخبارات نے ان ڈرونز کے پیچھے چین کے ہاتھ کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ چین نے ڈرون ٹیکنالوجی براہِ راست کشمیرکی عسکری تنظیموں کو منتقل کی ہے۔ یہ ڈرونز پاکستان کی جانب سے آئے؟ اگر یہ ڈرونز پاکستان کی طرف سے آئے تو سرحد عبور کرنے کے بعد یہ ڈرونز بھارتی حدود میں 14 کلومیٹر تک اُڑتے رہے مگر بھارت کا دفاعی سسٹم ان کی اُڑان سے بے خبر رہا۔ ماہرین نے یہ نکتہ بھی اُٹھایا ہے کہ اس طرح کے ڈرونز اتنا پے لوڈ اُٹھاکر 10 کلومیٹر تک بھی پرواز نہیں کرسکتے۔ اس سے یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کہیں یہ ڈرونز بھارتی حدود سے تو نہیں اُڑے؟ انہی سوالات کے باعث یہ تاثر عام ہے کہ پلوامہ حملے کی طرح بھارت اس ڈرامے کو تخلیق کرکے ایک بار پھر بالاکوٹ طرز کی کوئی کارروائی کرنا چاہتا ہے، اور اس مہم جوئی میں اسے امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے جو پہلے ہی پاکستان سے ناراض اورنالاں تھا، اب ’’ہرگز نہیں‘‘ سن کر مزید مغضوب الغضب ہوکر رہ گیا ہے۔
جموں کے ڈرون حملہ ڈرامے کے بعد وہی ہوا جس کی توقع تھی، بھارت نے جموں کے ائرفورس اسٹیشن پر ڈرون حملوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں اُٹھایا ہے اور یہ دہائی دی ہے کہ دہشت گردی کے لیے ڈرون کے استعمال کے خلاف اقدامات تجویز کیے جائیں اور اس عمل پر پابندی کے لیے اقدامات اُٹھائے جائیں۔ کہا گیا کہ یہ انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا غلط استعمال ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کے اخبار انڈیا ٹوڈے کے مضمون میں کہا گیا ہے کہ ڈرون حملوں نے خطرات کی نوعیت کو بدل دیا ہے اور اب بھارت کو ماضی کی طرح اس معاملے میں دفاعی طرزِعمل اختیار کرنے کے بجائے جارحانہ انداز اپنانا ہوگا۔
جموں حملوں کے دوسرے روز بھی بھارت نے دوبارہ کالوچک رتنو علاقوں میں ڈرون کی پروازوں کا الزام عائد کیا اور کہا کہ ڈرونز پر فائرنگ کرکے انہیں مار بھگایا گیا۔ گویا کہ اب بھارت کے اندر کا خوف اُسے ڈرونز کو دہشت گرد قرار (باقی صفحہ 41پر)
دلوانے پر مجبور کرنے لگا ہے۔ ماضی میں بھارت دہشت گردی کے لیے افراد کو موردِ الزام ٹھیرا کر انہیں دنیا میں نشان زدہ بنانے کی حکمتِ عملی اپنائے ہوئے تھا۔ نائن الیون کے بعد بھارتی پارلیمنٹ اور سری نگر اسمبلی پر ہونے والے حملوں سے بھارت نے یہی منترا پڑھ کر امریکہ کو ایسے قوانین بنوانے پر مجبور کیا تھا جن کی زد میں کشمیر بھی آئے۔ انہی عالمی اور امریکی قوانین کے تحت بھارت نے کشمیر کی کئی شخصیات کو گلوبل ٹیررسٹ قرار دلوایا تھا۔ پہلے اس کی زد صرف غیر کشمیری عسکری شخصیات پر پڑتی رہی، بعد میں اس کا دائرہ کشمیر کی داخلی مزاحمت کے کرداروں تک بڑھا دیا گیا۔ اب چونکہ گلوبل ٹیررسٹ قرار دلوانے کو کشمیر میں کوئی کردار اور نام باقی نہیں بچا، اور کنٹرول لائن پر افرادی نقل وحرکت بھی ختم ہوکر رہ گئی ہے تو اب ڈرونز کو ایک نئے خطرے کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے۔ اِدھر کچے پکے ڈرون حملے ہوئے، اُدھر بھارت اقوام متحدہ میں رونے دھونے پہنچ گیا۔ اب یہ مسئلہ شد ومد سے اُٹھایا جاتا رہے گا۔ جب بھی یہ مسئلہ زیر بحث آئے گا جیشِ محمد، لشکرِ طیبہ، حافظ سعید اور مسعود اظہر زیر بحث آتے رہیں گے۔ ان کے ہینڈلرز کے طور پر پاکستان، اور پاکستان کے معاون کے طور پر چین کا نام آتا رہے گا۔ ایک طرف تو یہ مسئلہ پاکستان کو زچ کرنے کے لیے مستقل طور پر استعمال ہوتا رہے گا، دوسری طرف ڈرون کے غلط استعمال کے لیے پاکستان اور چین کو مورد الزام ٹھیرا کر اقوام متحدہ سے قانون سازی کرائی جائے گی۔ یہ امریکہ اور بھارت کا نائن الیون کے بعد اختیار کردہ اسٹائل ہے جس کے تحت امریکہ نے بھارت کے تمام خطرات کو اپنے خطرات کے طور پر لینے کے بعد قانون سازی کرائی تھی۔گویا کہ اب بھارت اور امریکہ اقوام متحدہ سے ڈرونز کو بھی گلوبل ٹیررسٹ قرار دلوانے کی مہم شروع کرنے جارہے ہیں۔