اشرف غنی کا دورئہ امریکہ خون کے دھبّے دھلیں گے کتنی برساتوں بعد؟

ڈاکٹر اشرف غنی امریکہ کے دورے سے واپس آگئے۔ افغان صدر اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، نائب صدر امراللہ صالح، وزیرخارجہ حنیف اتمر، اور قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب کے ہمراہ جمعرات 24 جون کو صبح سویرے واشنگٹن پہنچے۔ افغان انسانی حقوق کمیشن کی دو خواتین کے علاوہ صدر کی اہلیہ محترمہ رولا غنی بھی سرکاری وفد کا حصہ تھیں۔ افغان صدر خاصی تیاری کرکے واشنگٹن آئے تھے۔ امریکی میڈیا کو مائل کرنے کے لیے انھوں نے حقوقِ نسواں کارڈ بہت ہی مہارت سے کھیلا اور بار بار یہ تاثر دیتے رہے کہ اگر طالبان، افغانستان پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو خواتین پتھروں کے دور میں واپس چلی جائیں گی۔ انھوں نے موقع محل کی مناسبت سے ابراہام لنکن کے اقوال بھی پیش کیے۔ الفاظ کا چنائو شاندار تھا اور حد درجہ احتیاط کے ساتھ بے تکلف لہجے اور برجستہ انداز سے ڈاکٹر صاحب نے ہر جگہ مجمع لوٹ لیا۔
امریکہ پہنچتے ہی افغان وفد نے سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف مچ مک کانل اور ری پبلکن پارٹی کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں۔ گفتگو کے بعد اپنے ایک بیان میں سینیٹر مچ مک کانل نے کہا کہ صدر بائیڈن کا ہمارے افغان اتحادیوں کو دہشت گردوں کے سامنے بے یارومددگار چھوڑ دینا مناسب نہیں۔ نیٹو کی پسپائی سے طالبان کے حوصلے بلند ہوں گے اور حقوقِ نسواں کے لیے افغان عوام نے 20 سال میں جو جرات مندانہ سفر کیا ہے وہ سب ملیامیٹ ہوجائے گا۔ فاضل سینیٹر نے خدشہ ظاہر کیا کہ فوجی انخلا کے ساتھ ہی کابل سرنگوں ہوجائے گا۔ افغان امن کے بارے میں فاضل سینیٹر کے تحفظات شاید درست ہوں، لیکن خواتین کے لیے انھوں نے جس دل سوزی و فکر مندی کا مظاہرہ کیا ہے اسے مگرمچھ کے آنسو سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
ایک جیسے کام اور منصب پر مردوں کے ایک ڈالر کے مقابلے میں امریکی خواتین کی اجرت صرف 84 سینٹ ہے۔ سماجی جائزہ لینے والے ادارے PEW ریسرچ سینٹر کے مطابق اجرت و مراعات میں اتنا فرق ہے کہ خواتین اگر سال میں 42 دن زیادہ کام کریں تب ان کی سالانہ آمدنی مردوں کے بارہ مہینوں کی تنخواہ کے برابر ہوگی۔ یہ شرمناک فرق مٹانے کے لیے کانگریس (امریکی پارلیمان) میں ڈیموکریٹک پارٹی نے کئی بار Equal Pay Bill پیش کیا، لیکن اسے کسی اور نہیں بلکہ خود مچل مک کانل صاحب نے ناکام بنایا۔ معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں، بل کی حمایت کرنے والی ایک ری پبلکن سینیٹر اولمپیا اسنو پر غداری کے الزامات لگے۔ انھیں اس قدر ہراساں کیا گیا کہ سینیٹر اسنو نے پارلیمانی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ سبک دوشی کے بعد ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں سینیٹر صاحبہ نے کہا کہ جماعتی تعصب نے کانگریس کو ایک بے جان ربر اسٹیمپ میں تبدیل کردیا ہے جہاں فیصلے خالصتاً جماعتی بنیادوں پر ہوتے ہیں اور اختلافِ رائے کو پارٹی سے غداری تصور کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی سینیٹ فکری اعتبار سے بانجھ اور عملاً مفلوج ہوچکی ہے، جہاں منتخب نمائندے اپنے ضمیر کے بجائے قیادت کے اشارئہ ابرو پر رائے دیتے ہیں جو عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے۔
جمعہ کو چوٹی ملاقات سے پہلے افغان صدر کیپٹل ہل (امریکی پارلیمان) گئے جہاں انہوں نے اسپیکر نینسی پلوسی اور اراکین کانگریس سے ملاقاتیں کیں۔ اس دوران افغان امن کے ساتھ کورونا کی عالمی وبا اور خشک سالی سے افغانستان کے کچھ علاقوں میں ممکنہ قحط پر بھی گفتگو کی گئی۔ صدر غنی نے اس موقع پر گزشتہ 21 برسوں کے دوران افغانستان میں خواتین کو بااختیار بنانے کی کوششوں کا تذکرہ کیا اور کہا کہ وہ کثرت سے اسکولوں کا دورہ کرتے ہیں اور جب بھی بچیوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ میں سے کون کون ملک کا صدر بننا چاہتی ہیں تو 80 سے 90 فیصد بچیاں اپنے ہاتھ کھڑے کرتی ہیں۔ ”اسپیکر صاحبہ!! یہ ہے نیا افغانستان‘‘۔کیپٹل ہل میں ری پبلکن پارٹی کے ارکان نے تو افغان وفد کو ہاتھوں ہاتھ لیا، لیکن ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے کسی گرم جوشی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا، اور اسپیکر کے سوا ڈیموکریٹک پارٹی کے کسی اہم رہنما نے اشرف غنی سے ملاقات نہیں کی۔
قانون سازوں سے گفتگو و مشورے کے بعد افغان صدر پینٹاگون (وزارتِ دفاع) آئے جہاں وزیردفاع لائیڈ آسٹن سے ملاقات ہوئی۔ امریکہ کے تقریباً تمام حاضر سروس اور ریٹائرڈ جرنیلوں کے لیے افغانستان دُکھتی رگ ہے، کہ یہ سارے سورما ایک کے بعد ایک، کچل دینے اور مٹادینے کے رجز گاتے افغانستان گئے اور بلا استثنا سب کے سب شکست خوردگی کا تمغا سجائے نامراد واپس لوٹ آئے۔
وسطِ 2003ء میں جب طالبان کی سرگرمیوں میں خاصا اضافہ ہوگیا تو جنرل آسٹن صاحب نے صدر بش کو ”استیصالِ طالبان“ کا ایک تیربہدف نسخہ پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان پہاڑی درّوں اور خندقوں میں مورچہ زن ہیں جہاں بمباری کا کوئی فائدہ نہیں۔ کہسارِ افغانستان میں ہلکا توپ خانہ (Light Infantry) طالبان کے پرخچے اڑا دے گا۔ موصوف کو اپنی حکمتِ عملی پر اتنا اعتماد تھا کہ پہاڑی ڈویژن کے سپاہیوں اور چٹانوں کو سرمہ بنا دینے والی توپیں لے کر وہ خود اٖفغانستان وارد ہوئے اور دو سال تک سر پھوڑنے کے بعد مضمحل لیکن مشتعل واپس وطن لوٹ آئے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ جنرل صاحب افغانستان سے انخلا کے سخت خلاف ہیں۔
افغان صدر سے ملاقات میں جنرل آسٹن نے کہا کہ امریکہ افغان فوج کے لیے اہم نوعیت کی معاونت جاری رکھنے کے لیے پُرعزم ہے، اور ہم انخلا اور اس کے بعد بھی افغان شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔ اس موقع پر امن کے لیے افغان فوج کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے صدر غنی کو دفاعی تعاون جاری رکھنے کا یقین دلایا گیا۔
جمعہ کے دن کابل کے ڈاکٹر صاحبان نے امریکی صدر سے ملاقات کی۔ بات چیت کے آغاز میں ڈاکٹر غنی نے افغانستان کی موجودہ صورت حال کا امریکی خانہ جنگی سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ افغان عوام آج جن حالات کا سامنا کررہے ہیں وہ امریکہ کے صدر ابراہام لنکن کے 1861ء کے دور جیسے ہیں۔ یعنی ملک کے دفاع و سلامتی کے لیے اس عزم کے ساتھ کوششیں کی جارہی ہیں کہ سب کو ساتھ لے کر ملک کا تحفظ کیا جائے گا۔ افغان صدر نے فوجی انخلا کا ”خیرمقدم“ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے جس کے بعد ہر فریق نے حالات کا دوبارہ جائزہ لیا ہے۔ ہم اس فیصلے کے احترام اور اس کی حمایت کے اظہار کے لیے واشنگٹن آئے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے جو فیصلہ کیا گیا ہے وہ تزویراتی (اسٹرے ٹیجک) نوعیت کا ہے۔ ہم یہاں جائزہ لینے آئے ہیں کہ کس طرح ان حالات کو ایک مشترکہ کامیابی بنایا جا سکتا ہے۔ نئے زمینی حقائق کے تناظر میں امریکہ افغان تعلقات کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ امریکہ افغان دوستی کے نئے باب کا آغاز ہورہا ہے، اب ہمارے تعلقات فوجی نوعیت سے بڑھ کر باہمی مفادات کے نئے دور میں داخل ہورہے ہیں، اور یہ شراکت داری تادیر قائم رہے گی۔ اس موقع پر انھوں نے افغانستان کے لیے جان کی قربانی دینے والے امریکی فوجیوں کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا۔
افغانستان کی تازہ ترین صورتِ حال سے اپنے امریکی ہم منصب کو آگاہ کرتے ہوئے ڈاکٹر اشرف غنی نے کہا کہ مستقبل کے بارے میں افغان قیادت یکسو ہے۔ افغان عوام اپنی مسلح افواج کے عزم اور امریکہ کے ساتھ شراکت داری سے تمام مسائل پر قابو پالیں گے۔ انھوں نے فخر سے صدر بائیڈن کو بتایا کہ آج جب ہم بات کررہے ہیں، افغان فوج نے چھ اضلاع واپس لے لیے ہیں جو ملک کے جنوب اور شمال میں واقع ہیں۔ یہ چیز ہمارے عزم کو ظاہر کرتی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ عزم، اتحاد اور مؤثر شراکت داری سے ہم مسائل پر قابو پالیں گے۔
امریکی صدر نے ڈاکٹر اشرف غنی کو یقین دلایا کہ امریکہ افغانستان کی مدد جاری رکھے گا اور واشنگٹن اس حوالے سے پُرعزم ہے۔ ہم افغانوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس ضمن میں جو کچھ ممکن ہوا وہ کیا جائے گا۔ انھوں نے کسی فریق کا نام لیے بغیر کہا کہ افغانستان میں تشدد کو ہر صورت ختم ہونا چاہیے۔
دوسرے دن واشنگٹن میں اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر نے کہا کہ افغانوں پر کوئی بھی فیصلہ قوت کے ذریعےمسلط نہیں کیا جاسکتا، اور نہ طاقت مسئلے کا حل ہے۔ انھوں نے طالبان کو دعوت دی کہ جنگ بند کرکے سیاسی عمل کا آغاز کیا جائے، کہ باوقار سیاسی تصفیہ ہی خونریزی ختم کرنے کا حتمی حل ہے۔ افغان صدر نے ابراہام لنکن کا قول دہرایا کہ ”دشنمن سے نبٹنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اسے دوست بنالیا جائے“۔
مشترکہ اعلامیے اور صحافیوں سے بات چیت کے دوران امریکی و افغان اہلکاروں نے ان ملاقاتوں کی جو تفصیل بیان کی اُس کا ذکر اوپر آچکا۔ بند کمروں میں کیا بات ہوئی اس کے بارے میں تجزیہ نگاروں کی آرا مختلف ہیں۔ دنیائے سیاست کے کچھ پنڈت فوجی انخلا کے بعد افغانستان پر زبردست ڈرون حملوں کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں۔ اگر پیچھے مڑ کر اوباما بائیڈن انتظامیہ کی افغان پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو ان خدشات میں وزن نظر آرہا ہے۔
جوبائیڈن اور ان کے باس صدر اوباما کا عہدِ اقتدار افغانستان میں بدترین خونریزی کا دور تھا۔ صدر اوباما ہمیشہ سے احساسِ کمتری کا شکار رہے ہیں۔ ان کے والد بارک حسین اوباما سینئر نہ صرف مسلمان تھے بلکہ انھوں نے تیونس کی مشہور دینی درسگاہ الزیتونہ میں بھی کچھ وقت گزارا تھا، یعنی انھیں ”مولوی“ کہا جاسکتا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران قدامت پسندوں نے صدر اوباما پر مسلمان ہونے کا ”الزام“ لگایا، جس کی وجہ سے سابق صدر دبائو میں تھے۔ خود کو دبنگ اور محب وطن امریکی ثابت کرنے کے لیے انھوں نے دھواں دھار تقریریں کیں جن میں اوباما نے صدر جارج بش کو کمزور رہنما قرار دیا۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ افغان جنگ کو منطقی انجام تک پہنچا کر امریکہ کا وقار بلند کریں گے۔ نومبر 2008ء میں انتخاب جیتتے ہی انھوں نے نومنتخب نائب صدر جوبائیڈن کو صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے افغانستان جانے کا حکم دیا، اور حلف اٹھانے سے پہلے ہی 10 جنوری 2009ء کو بائیٖڈن نے افغانستان کا دورہ کیا۔ اپنے نائب صدر کے مشورے اور سفارش پر صدر اوباما نے افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد 20 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کردی۔ خوفناک کارپٹ بمباری نے اس ملک کو ریت و راکھ کا ڈھیر بنادیا لیکن اس دوران امریکی فوج کا جانی نقصان بھی عروج پر تھا۔ قومی پرچم میں لپٹے تابوت اترنے کے مناظر امریکہ کے ایئرپورٹ پر عام ہوگئے۔ لاشوں سے زیادہ عبرتناک مناظر مصنوعی ٹانگوں اور بیساکھیوں پر گھسٹنے والے وہ ہزاروں جوانِ رعنا تھے جو افغانستان میں معذور ہوگئے۔ دوسری طرف افغانستان میں زمینی صورت حال بھی امریکیوں کے لیے مایوس کن تھی۔ چنانچہ جنوری 2011ء میں جوبائیڈن ایک بار پھر افغانستان بھیجے گئے۔ انھوں نے واپس آکر اپنے باس کو باور کرایا کہ نیٹو اور امریکہ کی زمینی افواج کے لیے طالبان کو کچلنا ممکن نہیں، اور جنگی نقصان سے بچنے کے لیے طالبان کو ڈرون سے نشانہ بنانے کی ضرورت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی وزیر دفاع ڈاکٹر رابرٹ گیٹس نے جوبائیڈن کے تجزیے کو مسترد کردیا اور نشست کے دوران صاف صاف کہا کہ ”جوبائیڈن خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے ہر مسئلے پر ہمیشہ غلط ثابت ہوئے ہیں“۔ صدر اوباما نے اپنے وزیردفاع کا مشورہ مسترد کردیا اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں میں شدت آگئی۔ پانچ ماہ بعد رابرٹ گیٹس مستعفی ہوگئے۔
برّی فوج کے دستوں کو بیرکوں تک محدود کردینے سے امریکی فوج کا جانی نقصان کم ہوگیا۔ ڈرون حملوں سے طالبان کو تو زیادہ نقصان نہیں پہنچا، لیکن مدارس و مساجد، قبائلی جرگوں، جنازوں اور خوشی غمی کی تقریبات پر گرنے والے ”ہیل فائر“ میزائیلوں نے ہزاروں بے گناہوں کو جلا کر خاک کردیا۔ جوبائیڈن شہری نقصانات کے بارے میں مسلسل جھوٹ بولتے رہے اور اُن کا کہنا تھا کہ ڈرون حملوں نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے، طالبان کی سرگرمیاں منجمد ہوگئی ہیں اور ان کے کمانڈر کسی جگہ ٹک کر نہیں رہ سکتے جس کی وجہ سے ان کا باہمی رابطہ ختم ہوگیا ہے۔ دروغ گوئی کی بدترین مہم کے باوجود جوبائیڈن کا تجربہ ناکام رہا، اور 2012ء سے افغانستان سے فوجوں میں تخفیف کا سلسلہ شروع ہوا اور ساتھ ہی بات چیت کا ڈول ڈالا گیا، لیکن طالبان مذاکرات کے لیے تیار نہ ہوئے۔
فوجی انخلا کے بعد ڈرون دہشت گردی میں اضافے کے خطرے کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ امریکی قدامت پسندوں اور برطانیہ کے عسکری حلقوں نے ”ایک اور نائن الیون“ کا راگ الاپنا شرورع کردیا ہے۔ برطانوی خفیہ اداروں کے افسران کو ڈر ہے کہ نیٹو افواج کے واپس ہوتے ہی شدت پسند افغانستان کا رخ کریں گے، اور تیاری کے بعد نائن الیون نوعیت کی ایک اور کارروائی خارج از امکان نہیں۔ برطانوی فوج کے سربراہ جنرل نک کارٹر نے صدر بائیڈن کی جانب سے انخلا کے فوراً بعد اس پر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھاری جانی و مالی قربانی دے کر 20برس میں جو کچھ حاصل کیا گیا ہے وہ بالکل اکارت چلا جائے گا۔ برطانیہ کے ایک مرکز دانش Eden Intelligenceنے بھی یہی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نیٹو کے انخلا کے ساتھ ہی القاعدہ اور داعش افغانستان میں اپنے اڈے بنا لیں گی۔
واشنگٹن میں ڈاکٹر اشرف غنی سے ملاقات کے دوران بغلان، پکتیا، فاریاب اور قندوز صوبوں پر ڈرون حملے کیے گئے جس میں امریکیوں نے تین کمانڈروں سمیت 35 طالبان کے قتل کا دعوٰی کیا ہے۔ یہ خبر جس انداز میں جاری کی گئی اُس سے تو یہی لگ رہا ہے کہ عسکری انخلا کے بعد ڈرون حملوں میں شدت آجائے گی۔ جارحیت کی صورت میں جانی نقصان سیاست دانوں کے لیے ایک ڈرائونا خواب ہے کہ اس سے اُن کا ووٹ بینک متاثر ہوتا ہے، لیکن ڈرون کے استعمال میں ایسا کوئی ڈر نہیں۔ معصوم شہریوں کی ہلاکت کا امریکی رائے عامہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اس لیے ڈرون ٹیکنالوجی جوبائیڈن کی اوّلین ترجیح نظر آتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق کابل ایئرپورٹ کا ایک حصہ ڈرون آپریشن کے لیے مختص کیا جارہا ہے، جسے گوادر کے قریب بحیرئہ عرب میں تعینات امریکی بحریہ کے طیارہ بردار جہاز آئزن ہاور سے کنٹرول کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ عمان کے ساحلی شہر الدّقم میں برطانوی بحریہ کا جدید ترین اڈہ بھی اس کام کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔ ڈرون کنٹرول کے لیے بحرین ایک اچھا متبادل ہے، جہاں برطانیہ اور امریکہ دونوں کے اڈے موجود ہیں۔ امریکہ کا مشہورِ زمانہ پانچواں بحری بیڑا وہیں تعینات ہے۔ مشرقی ازبکستان میں افغان سرحد سے 335 کلومیٹر کے فاصلے پر سوویت دور کا قرشی خان آباد المعروف کے ٹو اڈہ 2005ء تک امریکہ کے زیراستعمال رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک افواہ گرم تھی کہ چچا سام کے ٹو کے لیے ازبکستان سے بات چیت میں مصروف ہیں۔
زمینی حقائق کے حوالے سے امریکیوں کے لیے پریشان کن بات اٖفغان فوج کی تیزی سے تحلیل ہے۔ شمالی اتحاد کے رہنما اور جنگجو کمانڈر عبدالرشید دوستم نے انکشاف کیا ہے کہ شمالی افغانستان میں کئی جگہ افغان فوج نے ٹینک، بکتربند گاڑیاں اور دوسرا بھاری سامان خود طالبان کے حوالے کردیا۔ افغانستان کے قائم مقام وزیردفاع جنرل عبدالستار نے بھی بھاری ہتھیاروں پر طالبان کے قبضے کا اعتراف کیا ہے۔ فوج کی طرف سے مایوس ہوکر افغان حکومت عام لوگوں کو مسلح کرکے طالبان کے خلاف کھڑا کررہی ہے۔ سیاسی حلقے شک ظاہر کررہے ہیں کہ ”عوامی مزاحمت“ کے نام پر کابل انتظامیہ قبائلی جنگجوئوں کی مدد سے پیشہ ور قاتلوں اور سماج دشمن عناصر کو طالبان سے مقابلے کے لیے مسلح کررہی ہے۔
خوفناک ڈرون حملوں کی تیاری اور جرائم پیشہ عناصر کو میدان میں اتارنے سے واشنگٹن اور کابل کے ڈاکٹر صاحبان کی نیتوں کا فتور ظاہر ہورہا ہے۔ اس تناظر میں طالبان کے لیے خیرخواہی کے دعووں، امن کی خواہش اور مذاکرات کی دعوت پر اعتماد کرنا مشکل نظر آرہا ہے۔ اللہ کرے ہمارا تجزیہ غلط ثابت ہو، لیکن لگ ایسا ہی رہا ہے کہ 1979ء سے اپنے خون میں غسل کرتے افغانوں کے لیے خوشی و خوشحالی اور راحت کی منرل ابھی بہت دور ہے۔
……………………..
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔