برطانیہ اور سوویت یونین کے بعد اب امریکہ اور اُس کے اتحادی بھی شکست اور ناکامی و نامرادی کا داغ لیے افغانستان سے بے نیلِ مرام واپس لوٹ رہے ہیں، ان کی افواج نہایت سرعت سے افغان سرزمین خالی کررہی ہیں، امریکہ اپنا تمام جنگی سازو سامان قطر منتقل کررہا ہے، بھاری اور قیمتی حربی مشینری افغانستان سے امریکہ لے جانے کے لیے دنیا کا سب سے بڑا جہاز این ٹیونو 225 اور 124 روزانہ بگرام کے فضائی مستقر پر اترتا ہے۔ یہ جہاز اتنا بڑا بتایا جاتا ہے کہ ایک عام جہاز پورا کا پورا اس کے اندر سما سکتا ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی مداخلت کی وسعت کس قدر تھی۔ اور صرف امریکہ ہی نہیں اُس کے نیٹو اتحادی ممالک کی مسلح افواج بھی افغانستان پر یلغار میں اُس کے ساتھ تھیں۔ تاہم بیس برس تک افغان پہاڑوں سے ٹکرانے، ہر طرح کا جدید ترین اسلحہ آزمانے، اور تباہی و بربادی کی تمام حدیں پھلانگ جانے کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مکمل ناکام رہے۔ آخر انہیں طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہونا پڑا۔ طالبان نے ان مذاکرات میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ امریکہ اور اتحادی جن طالبان کو اپنے زعمِ باطل میں جنگلی مخلوق تصور کرتے تھے، انہی طالبان نے دوحہ قطر میں سجائی گئی مذاکرات کی میز پر مغرب کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جدید علوم و فنون سے آراستہ مذاکراتی وفود کے اعلیٰ دماغ ارکان کے سامنے بیٹھ کر حیران کن ذہانت اور ٹھوس و مضبوط دلائل سے اپنا مؤقف پیش کیا۔ مدمقابل کے لیے ان کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ طالبان کی پہلی شرط اورمطالبہ یہی تھا کہ امریکہ اور اتحادی غاصب اور حملہ آور ہیں، اس لیے وہ فوری طور پر افغانستان سے نکل جائیں۔ امریکی بھی یہی چاہتے تھے، کیونکہ تمام تر وسائل کے باوجود اُن کے فوجی افغانستان میں اپنے مقاصد کے حصول میں اب تک مکمل ناکام تھے، اور امریکہ اب مزید وسائل اس بے مقصد جارحیت کے لیے فراہم کرنے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ اُس کے فوجی بھی مایوسی کے عالم میں خودکشیوں کی جانب مائل ہورہے تھے۔ چنانچہ طالبان کی افغانستان سے نکل جانے کی شرط امریکہ اور اتحادیوں نے بلا تامل قبول کرلینے ہی میں عافیت سمجھی۔
فریقین کے مابین طے پانے والے معاہدے کے تحت اب غیر ملکی جارح افواج افغانستان سے نکل رہی ہیں تو کٹھ پتلی افغان حکومت خود کو بے سہارا اور بے دست و پا محسوس کررہی ہے، جب کہ طالبان نہایت تیزی سے افغانستان کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اس صورتِ حال سے گھبرا کر کٹھ پتلی افغان حکومت کے صدر اشرف غنی وائٹ ہائوس پہنچے ہیں، اُن کے شریکِ اقتدار عبداللہ عبداللہ بھی اُن کے ہمراہ ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے اس موقع پر کہا ہے کہ افغانستان کا مستقبل افغانوں کے ہاتھ میں ہے، انہیں خود فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں، امریکہ اور افغانستان کے درمیان شراکت داری ختم نہیں ہورہی، یہ قائم رہے گی، افغانستان سے فوجیوں کا انخلا ہورہا ہے، مگر فوجی و اقتصادی تعاون ختم نہیں ہورہا۔ امریکی صدر نے اس بیان میں واضح کردیا ہے کہ افغانستان کا مستقبل افغانوں کے ہاتھ میں ہے۔ اور ظاہر ہے طالبان بھی افغان ہیں، جن کی یلغار کا مقابلہ کرنا افغانستان کی موجودہ امریکی کٹھ پتلی حکومت کے بس کی بات نہیں، تاہم امریکی صدر نے صرف تسلی کے طور پر یہ کہہ کر موجودہ حکمرانوں کو حوصلہ دینے کی کوشش کی ہے کہ افغانستان سے فوجیوں کا انخلا ہو رہا ہے مگر فوجی و اقتصادی تعاون جاری رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ جو امریکہ اپنے اور اتحادیوں کے فوجیوں کی موجودگی میں طالبان پر غلبہ نہ پا سکا، وہ فوجیں نکال لے جانے کے بعد کس قدر مؤثر ہوسکے گا؟
دوسری جانب پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کو فوجی مقاصد کے لیے ہوائی اڈے دینے سے انکار کرتے ہوئے ایک بڑی حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ امریکی جنگ میں ہم نے ساتھ دیا، قربانیاں دیں اور برے بھی بنے۔ کاش پاکستان کے حکمرانوں کو بروقت اس حقیقت کا ادراک ہوجاتا۔ بہرحال اب فیصلہ کن مرحلے میں حالات نہایت حکمت اور تدبر کا تقاضا کرتے ہیں، کہ پاکستان بلکہ پورے خطے کا امن افغانستان کے آئندہ حالات پر منحصر ہے۔ پاکستان کے فیصلہ سازوں کو ماضی کے تجربات کو پیش نظر رکھ کر ہر قدم نہایت سوچ بچار کے بعد اٹھانا ہوگا۔ ملکی مفاد ہر صورت مقدم رکھا جانا لازم ہے۔