’’حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ لازم ہے، یہ ہر روز ہے جس میں سورج طلوع ہوتا ہے۔ تم دو انسانوں میں انصاف (صلح کرائو) کرو، یہ صدقہ ہے۔ تم کسی آدمی کو اس کی سواری پر بٹھانے میں مدد کرو یا اس کا سامان اس پر اٹھاکر رکھ دو، یہ صدقہ ہے۔ بھلی بات کہنا بھی صدقہ ہے۔ ہر وہ قدم جو نماز کے لیے اٹھائو صدقہ ہے۔ اور راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا صدقہ ہے۔‘‘ (رواہ البخاری و مسلم)
مسلم شریف کی ایک دوسری روایت میں ہے: (تم میں سے) جو بھی صبح کو اٹھتا ہے تو اس کے ہر عضو پر صدقہ واجب ہے۔ سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے، الحمدللہ کہنا صدقہ ہے، لاالٰہ الااللہ کہنا صدقہ ہے، اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم کرنا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ ان کاموں کی جگہ دو رکعتیں چاشت کی پڑھنا کافی ہیں۔
اسلام میں نیکی اور صدقے کا تصور نہایت وسیع ہے اور اس کا دائرہ بہت سے معاشرتی، اخلاقی، تمدنی اور معاشی معاملات تک پھیلا ہوا ہے، لیکن عام لوگ سمجھتے ہیں کہ صدقہ، خیرات اور نیکی یہ ہے کہ مسلمان رواجی عبادت اور کچھ مالی انفاق کرلے تو یہ نیکی اور صدقہ ہے، اور یہ بھی کبھی کبھار کرلے تو کافی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ حدیث میں دو بنیادی باتیں ارشاد فرمائیں: ایک یہ کہ ہر انسان پر روزانہ کچھ نہ کچھ صدقہ اور معاشرتی نیکی کا کام کرنا لازم ہے، لہٰذا اسے ہر وقت یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ میرے ہر ایک عضو پر اللہ کا شکر کرنا لازم ہے۔ صبح کو بیدار ہوتے ہی انسان یہ سوچے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ قیمتی عضو دیئے ہیں جو لاکھوں، کروڑوں اور اربوں کے ہیں، اس لیے ان کا شکریہ ادا کرنا اور ان کی زکوٰۃ ادا کرنا چاہیے۔ اس بات پر تھوڑا سا غور کریں تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ہم میں سے کسی شخص کو کوئی مال دار آدمی کہے کہ میرے بیٹے کی آنکھ کسی حادثے میں ضائع ہوگئی ہے، تو تم اپنی ایک آنکھ لاکھ میں فروخت کردو تاکہ میں اپنے بیٹے کو لگوائوں، تو ہم میں سے کوئی انسان ایک لاکھ میں آنکھ فروخت کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوگا۔ ایسے کتنے ہی عضو ہمارے جسم میں موجود ہیں جن کی قیمت لاکھوں روپے ہے، جیسا کہ آج کل ایک گردے کی قیمت تین چار لاکھ تک ہے۔ لہٰذا ان تمام اعضا کی نعمت کا شکر ادا کرنا اور ان کی زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے، نیکی کمانے، صدقہ اور خیرات کرنے کے کئی طریقے اور کام ہیں جنہیں اختیار کرکے آدمی نیکی کماسکتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان طریقوں اور کاموں میں سے چند ایک کا نمونے اور مثال کے طور پر تذکرہ فرمایا ہے۔ اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اپنے جسم کی زکوٰۃ نکالنے کے لیے ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے، اور کوئی نہ کوئی نیکی کا کام کرکے ثواب کمانا چاہیے۔
انفاق کے ذریعے نیکی کمانے کے لیے یہ سوچنا کہ میرے پاس پیسے ہوں تو پھر میں نیکی اور صدقہ و خیرات کروں، پھر پیسے نہ ہونے کی صورت میں مایوس ہونا، پیسے والوں پر حسد و حسرت کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ ایسے لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سامنے رکھ کر نیکی، بھلائی اور خدمت کے کاموں میں حصہ لینا چاہیے۔ دو ناراض لوگوں میں صلح کرانا، جھگڑے اور فتنے کو ٹالنا، کسی کو حق لے کر دینا، بیوہ عورتوں اور بے سہارا لوگوں کی مدد کرنا، کسی پیدل چلنے والے کو اپنی سواری پر بٹھا کر منزل پر پہنچانا، کسی معذور کو راستہ پار کرانا، کسی بھولے بھٹکے کو راستہ بتانا، کسی اجڈ اور انجان کو کوئی کام سکھانا وغیرہ… یہ سب نیکی اور بھلائی کے کام ہیں، ان کاموں سے ایک طرف جسم کی زکوٰۃ ادا ہوتی ہے تو دوسری طرف اجرو ثواب ملتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ایسے آدمی سے راضی ہوتے ہیں۔
مسلم کی روایت میں یہ بھی ہے: ’’نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے‘‘۔ یہ کام کارِ انبیاء ہے۔ انبیائے کرام کے دنیا میں آنے کا ایک مقصد نیکیاں پھیلانا اور برائی سے روکنا ہے، اور اللہ کے دین کو دنیا میں نافذ کرنا اور اللہ کا کلمہ بلند کرنا ہے۔
زیر مطالعہ حدیث سے اسلام کا ایک جامع تصور سامنے آتا ہے، وہ یہ کہ اسلام صرف چند رسوم و رواج اور پوجا پاٹ کا نام نہیں ہے، اور نہ ہی یہ جوگیوں، سادھوئوں اور راہبوں کا مذہب ہے کہ انسان مخلوق سے کٹ کر گوشہ نشین ہوکر بیٹھ جائے اور کسی کے کام نہ آئے۔ بلکہ یہ ایک انقلابی نظام اور اجتماعی زندگی سے واسطہ رکھنے والا دین ہے۔ اس میں حقوق اللہ، حقوق العباد اور حقوق النفس کا مکمل نظام اور ضابطہ موجود ہے۔ کامل مومن وہ ہے جو یہ تینوں حقوق اعتدال اور توازن سے ادا کرے، اللہ تعالیٰ کے حقوق پوری طرح ادا کرے، پھر اپنی ذات اور جان و جسم کے حقوق ادا کرتے ہوئے اس کی دیکھ بھال کرے، اور اس کی ضروریات پوری کرنے میں کوئی کوتاہی نہ کرے، اور اس کے ساتھ حقوق العباد ادا کرے، اپنے عزیز و اقارب، پڑوسیوں، دوستوں، ساتھیوں، غریبوں، مسکینوں، معذوروں اور حاجت مندوں کے حقوق ادا کرے۔ ان تینوں حقوق کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی، اور اجر و ثواب ہے۔ ان حقوق میں توازن اور اعتدال قائم رکھنے والا ہی کامل مومن ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرے کہ یہ تینوں حقوق ادا کرکے نیکیوں سے جھولیاں بھریں اور دنیا اور آخرت کی نجات حاصل کریں۔