ایک عہد کی سرگزشت

کتاب
:’
ایک عہد کی سرگزشت
مصنف
:’
جمیل اطہر قاضی
قیمت
:’
1000 روپے
صفحات
:’
616
فون
:’
042-37231518,37245072
ناشر
:’
بک ہوم لاہور

جمیل اطہر قاضی کو عام طور پر لوگ اخبار کا ایڈیٹر ہی سمجھتے ہیں، لیکن یہ قاضی سراج الدین سرہندی کے فرزند ہیں۔ علمی خانوادے سے تعلق کے نتیجے میں بہت کم عمری میں قلم تھاما اور ماہ و سال کی تیزی اور تلخی سے نمٹتے نمٹتے اس پر گرفت مضبوط ہوگئی۔ کئی مقامات سے آج کل روزنامہ جرأت جاری کیا ہوا ہے، لیکن انہوں نے اس دوران جو اہم کام کیا وہ قابلِ قدر ہے۔ انہوں نے ”ایک عہد کی سرگزشت“ کے عنوان سے اُن نابغۂ روزگار شخصیات کے بارے میں اپنے کالموں اور مضامین کو جمع کیا ہے جن سے ان کا رابطہ رہا ہے۔ اس میں سو کے لگ بھگ تحریریں شامل ہیں جو صحافتی، مذہبی اور قومی سیاسی شخصیتوں سے متعلق ان کے انتقال پر یا ان کے حوالے سے لکھی گئی ہیں۔ یہ سارے کام عام طور پر ایک اخبار نویس کرتا ہے، لیکن جمیل اطہر قاضی نے اس کتاب میں جن شخصیات کا ذکر کیا ہے اُن کی وجہ سے بھی اس کتاب کی وقعت اور قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ بلاشبہ جمیل اطہر اردو پر بھی بلا کی قدرت رکھتے ہیں۔ گفتگو بھی نستعلیق انداز میں کرتے ہیں اور اختلافِ رائے اور ناراضی کا اظہار بھی نہایت مشفقانہ انداز میں کرتے ہیں۔ انہوں نے جن شخصیات کے ذکر سے اس کتاب کو سجایا ہے اُن میں امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، امین احسن اصلاحی، مولانا سرفراز نعیمی جیسی شخصیات شامل ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہر شعبے کی اہم شخصیات کا ذکر ہے، اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسلام اور نظریہ پاکستان کی راہ پر رکھنے میں جرأت و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی جبر کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ ان شخصیات کا ذکر بار بار کرنے کے لائق ہے تاکہ جو بھی ان کا ذکر پڑھے اُس کے ذہن میں اس ملک کے قیام کی غایت تازہ ہوسکے۔ اس مجموعے میں جمیل اطہر قاضی کے والد قاضی سراج الدین سرہندی کا ذکر پڑھ کر اندازہ ہوا کہ اس آیت کا مفہوم کیا ہوتا ہے: وکان ابوھما صالحا۔ جس کا باپ صالح ہو اور اس کے ہاتھ میں قلم ہو وہ ایسی ہی روشنیاں بکھیرتا ہے۔ جمیل اطہر قاضی نے جو کتاب مرتب کی ہے یہ خود تقریباً68برس پر محیط عرصے کا احاطہ کرتی ہے۔ اس اعتبار سے اس کتاب کی ضخامت کم ہے لیکن یقیناً دریا کو بلکہ کئی دریائوں کو کوزے میں بند کرنا جمیل اطہر قاضی ہی کا حصہ ہے۔ کتاب تیار کرنا، شائع کرنا اور اسے لوگوں تک پہنچانا خود ایک بڑا مرحلہ ہے، اور اگر اس میں ایسی شخصیات کا ذکر ہو تو کتاب کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ ان کے سامنے تو ہم جونیئر قرار پاتے ہیں، اس لیے زورِ قلم اور زیادہ ہونے کی دعا کے بجائے سایہ سلامت رہنے کی دعا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے ”دیارِ مجدد (سر ہند) سے داتا نگر(لاہور) تک“ کے عنوان سے اپنی سر گزشت بھی لکھی ہے جو خود پڑھنے کے لائق ہے ۔ صحافت کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو یہ کتب ضرور اپنے زیرمطالعہ رکھنی چاہئیں۔