”شدید کھانسی اور پتلے موشن… تیز بخار، چڑچڑا پن… شکل سے ہی بیمار… آنکھیں سرخ…. ڈاکٹر صاحب یہ کہیں ”خسرہ“ تو نہیں؟ پچھلے سال بھی ہوئی تھی ”خسرہ“، کیا بار بار ہوسکتی ہے؟ دیکھیں اس کے پیٹ پر دانے نکل آئے ہیں“۔
پانچ سال سے کم عمر بچوں میں بہت تیزی سے پھیلنے والی ”وائرل“ بیماری ”خسرہ“۔
تیز بخار، نزلہ، کھانسی، الٹیاں، پتلے موشن… شروع میں سمجھ میں نہیں آرہا ہوتا کہ بچے کو آخر ہوا کیا ہے! شروع کے چند دن ایسا لگتا ہے جیسے موسمی بخار، نزلہ وغیرہ ہے۔
لیکن غور کرنے کی بات ہے کہ موسمی نزلہ، بخار میں بچہ ایسا نڈھال نہیں ہوتا۔ اور اگر بچے کا مکمل معائنہ کیا جائے، تو آپ کو بچے کے حلق میں شدید ”سرخی“ اور ہلکے سفید رنگ کے دھبے بھی نظر آتے ہیں۔
پھر اگر اس کے ساتھ ساتھ بالکل پانی کی طرح موشن شروع ہوجائیں اور چہرے پر کان کے پیچھے سے ”دانے“ نظر آنے لگیں، اور پہلے چہرے پر، پھر گردن، سینے اور پیٹ سے ہوتے ہوئے ٹانگوں یعنی پورے جسم پر پھیلنے لگیں تو یہ وائرل انفیکشنز میں سے ”خسرہ“ یعنی Measles ہے۔ اکثر یہیں پر غلطی ہوتی ہے اور والدین کا سوال ہوتا ہے ”پچھلے سال بھی تو خسرہ نکلی تھی“۔
ایک بات اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ ”خسرہ“ یعنی Measles زندگی میں ایک ہی بار ہوتی ہے۔
اگر آپ کو زندگی کے کسی بھی حصے میں خسرہ ہوچکی ہے، یا آپ خسرہ کی ویکسی نیشن کم از کم دوبار کروا چکے ہیں پروگرام کے مطابق، تو آپ کو خسرہ بار بار نہیں ہوسکتی۔
خسرہ جیسے دانے پورے جسم پر ایک ساتھ نکل آئیں یا پیٹ پر سے شروع ہوں، یا بخار ختم ہونے کے بعد نظر آئیں تو وہ خسرہ نہیں بلکہ دوسری وائرل بیماری روزیولا انفیکشن (Roseolla Infection) ہے، جو ایک وائرس سے پھیلتی ہے، مگر خسرہ سے بہت کم خطرناک ہے، اور چند دنوں میں بغیر کسی مشکلات کے ختم ہوجاتی ہے۔ اور اس انفیکشن کو ہی اکثر والدین اور کچھ طبی عملہ بھی خسرہ سمجھتا ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ خسرہ ہونے کے بعد جسم میں بننے والی اینٹی باڈیز آپ کو دوبارہ خسرہ سے بچاتی ہیں۔
نومولود سے لے کر تقریباً چھ ماہ کی عمر تک عام طور پر ماں کے جسم سے ملنے والی اینٹی باڈیز جو کہ آنوال (Umbilicus) سے بچے کے جسم میں منتقل ہوتی ہیں وہ اُسے خسرہ سے بچاتی ہیں۔ یعنی کم از کم چھ ماہ کے بچے کو خسرہ ہوسکتی ہے اگر وہ کسی ایسے علاقے میں رہتا ہو جہاں بہت زیادہ خسرہ پھیلی ہوئی ہے، یا ایسے گھر میں جہاں خسرہ کا کوئی مریض اس کے آس پاس رہا ہو۔
آج بھی پاکستان میں ہر سال ہزاروں بچے خسرہ سے متاثر ہوتے ہیں اور کئی بدقسمت بچے جان سے بھی چلے جاتے ہیں۔ اگرچہ کہ خسرہ سے بچاؤ ممکن ہے، مگر ہماری غفلت بچوں کو خسرہ میں مبتلا کردیتی ہے۔
بچوں کی ویکسین کے پروگرام EPI میں نو ماہ کی عمر میں پہلی بار خسرہ کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے، جو کہ خسرہ زدہ علاقوں میں چھ ماہ کی عمر میں بھی لگایا جاسکتا ہے، دوسرا ٹیکہ MMR کے نام سے پندرہ ماہ کی عمر میں، اور چار سال کی عمر میں لگائے جاتے ہیں۔ مگر چونکہ ہمارے ملک میں سازشی نظریات کا بہت زور ہے، اس لیے لوگ ویکسین سے بلاوجہ کترانے لگے ہیں، جس کی وجہ سے جب بچے کو خسرہ نکلتی ہے تو اسے شدید نقصان ہوتا ہے جس میں ذہنی معذوری اور تکلیف بھی شامل ہے، اور بعض اوقات موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔
جیسا کہ ذکر کیا خسرہ ایک وائرل بیماری ہے اور چھوٹے بچوں میں تیزی سے پھیلتی ہے۔ یہ بیماری ہوا کے ذریعے (Air Born) پھیلتی ہے، اور مریض کے جسم سے نکلنے والی رطوبت یعنی بچہ جب چھینکتا اور کھانستا ہے، اور اس طرح بہتی ہوئی ناک کو ہاتھ سے صاف کرکے ہاتھ کسی چیز پر لگاتا ہے اور دوسرا کوئی بچہ اس جگہ کو ٹچ کرنے کے بعد اپنی ناک کو ٹچ کرتا ہے تو بیماری اس میں منتقل ہوجاتی ہے۔
جس کمرے میں خسرہ کا کوئی مریض ہوتا ہے تقریباً دو گھنٹے تک اس کے جراثیم موجود رہتے ہیں اور دیگر لوگوں کو بیماری میں مبتلا کرسکتے ہیں۔ خسرہ لگنے کے تقریباً دس سے پندرہ دن بعد ظاہر ہوتی ہے۔
اگر آپ کا بچہ کسی ایسی محفل میں شریک ہوا ہے، کسی اسپتال کی انتظار گاہ / ویٹنگ روم میں رہا ہے جہاں خسرہ کے مریض تھے تو اس بات کا بہت امکان ہے کہ وہ خسرہ میں مبتلا ہو اگر اسے خسرہ سے بچاؤ کے ٹیکے نہیں لگائے گئے ہیں۔
دانے ظاہر ہونے سے چار دن پہلے اور خسرہ کے دانے ظاہر ہونے کے تقریباً چار دن بعد تک مریض خسرہ کو پھیلاتا رہتا ہے۔
اب سوچیں کہ آپ اپنی کسی مجبوری میں اسپتال گئے ہیں اور بچہ بھی آپ کے ساتھ اسپتال کے ویٹنگ روم میں موجود ہے، اور وہاں ہر طرح کے مریض موجود ہیں جن کی خسرہ جیسی بیماری کا آپ کو علم ہی نہیں تو کیا ہوگا؟ اس لیے ہم ڈاکٹرز بچوں کے والدین کو بار بار سمجھاتے ہیں کہ صرف اُس بچے کو اسپتال لائیں جس کا معائنہ ضروری ہے، اسپتال میں غیر ضروری نہ آئیں۔
خسرہ کے نکلنے والے دورانیہ میں اور خسرہ کے ظاہر ہوجانے تک شدید بخار، آنکھوں سے مسلسل پانی بہنا، شدید کھانسی کے دورے، گلے میں درد اور کوئی بھی چیز حتیٰ کہ پانی بھی الٹی میں نکل جانا، پانی کی طرح موشن، نقاہت، کمزوری، نیم بے ہوشی، جسم پر سر سے شروع ہوکر پاؤں کی طرف بڑھتے دانے جو کہ عموماً پانچ دن میں پورے جسم کو ڈھانپ لیتے ہیں، اور کھانےیا پینے کا بالکل دل نہ چاہنا… شروع سے آخر یعنی جب دانے سوکھنے اور جھڑنے لگیں، یہ مکمل طور پر دو سے تین ہفتوں کا سلسلہ ہے۔
خسرہ (Measles) چونکہ ایک وائرل بیماری ہے اس لیے اس کا باقاعدہ کوئی علاج نہیں، سوائے اس کے کہ آپ اس دوران بچے کو علامات کے حساب سے انفرادی طور پر علاج فراہم کرتے ہیں یعنی Supportive Treatment۔
مثلاً بچہ بالکل کچھ نہیں کھا پی رہا تو ڈرپ کے ذریعے گلوکوز اور پانی دیں۔ (باقی صفحہ 41پر)
مسلسل پتلے موشن ہوں تو ڈرپ کے ذریعے گلوکوز اور نمکیات والا پانی دیا جائے۔
کھانسی یا نمونیہ کی صورت میں جو کہ خسرہ میں بہت عام ہے، نیبولائزر ٹریٹمنٹ۔ آکسیجن کی ضرورت میں آکسیجن۔ نمونیہ کے لیے اینٹی بائیوٹک جو کہ عام طور پر اسپتال میں انجکشن کی صورت میں دی جاتی ہے۔
دانوں کی وجہ سے خارش کے لیے روز نہلانا اور بعض اوقات کوئی لوشن وغیرہ،
منہ کے چھالوں کے لیے منہ میں لگانے کا جیل (Gel) اور آنکھوں میں لگانے کے لیے آئی ڈراپس یا آئینٹمنٹ وغیرہ وغیرہ، یعنی علاماتی (Symptomatic) علاج۔
ایک خاص بات یہ نوٹ کی گئی ہے کہ جن بچوں میں وٹامن اے کی کمی ہوتی ہے ان میں خسرہ شدت اختیار کرلیتی ہے۔ اس لیے اب جن بچوں کو خسرہ ہوتی ہے اُن کو خسرہ ویکسین کے ساتھ لازمی وٹامن اے کے قطرے بھی پلائے جاتے ہیں۔
خسرہ کی شدید ترین مشکل اس کا بعض اوقات دماغ پر اثر ہے جس کی وجہ سے جھٹکے لگتے ہیں اور عمر بھر کی معذوری بھی ہوسکتی ہے۔
اس لیے چلتے چلتے ایک پیغام: ”خسرہ“ کو معمولی مرض نہ سمجھیں، سنجیدگی کے ساتھ علاج کرائیں، خسرہ سے بچاؤ کا واحد طریقہ ”ویکسین“ہے جو اپنے بچوں کو نو ماہ، پندرہ ماہ اور چار سال کی عمر میں ضرور لگوائیں۔
اپنے بچوں کی صحت کی حفاظت کریں۔ یہ بچے ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں اور روزِ جزا و سزا اس امانت کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا۔