سائنس پرستی جدید تصورِ جہاں کی بنیاد

صرف چند الفاظ سائنس پرستی کو سائنس سے الگ کرتے ہیں، مگر پیالی اور لبوں کی یہ ذرا سی دوری وہ وجہ ہے جس سے ہمارے موجودہ مسائل جنم لیتے ہیں۔ یہ مسائل تصورِ جہاں اور انسانی روح سے متعلق ہیں۔ اصطلاح ’’سائنس‘‘ میں اچھا توازن قائم ہے، مگر ’’سائنس پرستی‘‘ کے لیے کچھ بھی اچھا نہیں کہا جاسکتا۔ یہاں ہر بات کا انحصار تعریف پر ہے۔ سائنس اور سائنس پرستی کی اصطلاحوں میں فرق کسی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
دونوں اصطلاحوں کی درست تعریف و توضیح خیالات، تصورات، جذبات اور مفادات کے ہجوم میں سے خیر خیریت سے نکل جانے کے لیے ناگزیر ہے۔ اس ہجوم نے آج ’’سائنس‘‘ کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے۔ میں اس لفظ کے یہی مسلّم معنی لیتا ہوں کہ سائنس وہ علم ہے جس نے ہماری دنیا بدل ڈالی۔ ٹیکنالوجی کی معیت میں جدید سائنس وہ ہے جو جدید اور روایتی معاشروں اور تہذیبوں کو تقسیم کرتی ہے۔ اس کا سارا مواد قدرتی دنیا کے وہ حقائق ہیں جنہیں سائنسی طریقہ کار سے روشنی میں لایا گیا ہے۔ جس کا مغز تجربے کی وہ استعداد ہے، جو مادی دنیا کے بارے میں غلط مفروضوں کو سچ سے ممیز کرتی ہے۔
سائنس پرستی (Scientism) سے سائنس میں دو بدیہی اور منطقی نتائج اضافی طور پر سامنے آتے ہیں: پہلا یہ کہ سائنسی طریقہ کار سچ تک رسائی کا اگر واحد ذریعہ نہیں ہے، تب بھی یہ سب سے زیادہ قابلِ بھروسا ذریعہ ہے، اور دوسرا یہ کہ وہ اشیاء سائنس جن سے معاملات کرتی ہے، یعنی وہ مادی اجسام سب سے زیادہ اساسی اور اہم ہیں جو وجود رکھتے ہیں۔ یہ وہ دو منطقی نتیجے ہیں جو سائنس پرستی سے برآمد ہوتے ہیں۔ مگر ان کے بارے میں کہیں کوئی بات سنائی نہیں دیتی، کیونکہ اگر یہ ایک بار عام توجہ میں آجائیں، تو پھریہ دیکھنا ذرا بھی مشکل نہ ہوگا کہ دونوں من مانے خیالات ہیں، جنہیں حقائق کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ یہ دونوں اپنی اصل میں فلسفیانہ قیاسات ہیں، اور بہت ہی پست درجے کی آراء ہیں۔ مثال کے طور پر سگمنڈ فرائیڈکا یہ کہنا کہ ’’ہماری سائنس دھوکا نہیں ہے، مگر یہ فرض کرنا ایک دھوکا ہوگا کہ سائنس ہمیں وہ کچھ نہیں دے سکتی، جو ہم کہیں اور سے حاصل کرسکتے ہیں۔‘‘ ہماری اخلاقیات ریت پر اٹھی ایسی بنیادوں پر بے یقینی سے لڑکھڑاتی ہیں۔
ہماری ’’صنعتی مغربی دنیا‘‘کے اہلِ علم کے لیے یہ حقیقت کوئی راز نہیں کہ ہماری امیدیں، خواب، وجدان، لافنا پذیری کی جھلکیاں، پراسرار تجربات اشیاء کے بارے میں عام فہم تصورات کا طلسم توڑ دیتے ہیں۔ تاریخ اب ایسے خیالات کا قبرستان بن چکی ہے۔ وہ خیالات کہ جنہیں کبھی من وعن تسلیم کرلیا گیا تھا۔ آج کا ’عام فہم‘ کل مضحکہ خیز بیان بن کررہ جاتا ہے، وقت ایک قدیم سچ کوحال کی بھدی بات بنادیتا ہے۔ آئن اسٹائن نے ’عام فہم‘ کی تعریف میں کہا کہ ’عام فہم‘ وہ ہوتا ہے جو ہمیں چھ سال کی عمر میں سمجھایا جاتا ہے، اور بات اگر ذرا پیچیدہ ہو تو چودہ سال کی عمر تک سمجھ آجاتی ہے۔ دانش کی ابتدا اس پہچان سے ہوتی ہے کہ اگرضرورت پڑجائے ہمارے خیالی مفروضے جانچے جاسکتے ہیں اور بدلے جاسکتے ہیں۔
ہم یہاں Bryan Appleyard کی کتاب Understanding the Present: Science and the Soul of Modern Man سے ایک واقعہ مثال کے طور پر لیتے ہیں۔ تصور کیجیے، ایک عیسائی مشنری افریقا میں ہے۔ اس دوران ایک بچہ انفیکشن سے بیمارہوجاتا ہے۔ قبائلی حکیم بلائے جاتے ہیں۔ مگر بچے کی طبیعت نہیں سنبھلتی۔ وہ زندگی سے دور ہوتا جاتا ہے۔ اچانک عیسائی مشنری کی ایک خاتون کو یاد آتا ہے کہ اُس کے سفری بیگ میں پینسلین رکھی ہے، جوبچے کو دی جاتی ہے اور وہ رو بہ صحت ہوجاتا ہے۔ قبائلی حکیم آگاہ ہوتے ہیں کہ مشنری خاتون کے پاس ایسا علم ہے جوانہیں حاصل نہیں، اور وہ اُس کے بڑے شکرگزار ہوتے ہیں۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ اجنبی ہمارے جسم کے بارے میں ایک ایسی بات جانتی ہے جس سے ہم ناواقف ہیں۔ تاہم یہ صورت حال اور مشنری کی دوا انہیں یہ بتانے سے قطعی قاصرہے کہ ہم سب کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ اور اس دنیا میں کیوں ہیں؟ ان سوالوں میں اس قصے کے سارے کردار یکساں طور پر لاجواب ہیں۔ ان سوالوں کا اس بات سے قطعی کوئی تعلق نہیں کہ مشنری خاتون کی دوا قبول نہ کی جائے، یا یہ علاج مسترد کردیا جائے۔ کوئی وجہ نہیں کہ اس جدید دوا اور جدید علاج کے بعد زندگی کے بنیادی سوالوں پرغور کرنا چھوڑدیا جائے، اور اسطورہ پر اعتقاد ترک کردیا جائے۔ مگرمسئلہ یہ ہے کہ دونوں جانب فراست کی کمی ہے۔
میں ایک بار University of Notre Dameکی ایک اکادمی کانفرنس میں شریک تھا۔ ایک صبح ناشتے پرمیرے ساتھ معروف برطانوی سائنس دان آرتھر پی کوک موجود تھے۔ میں نے اُن سے برائم ایپل یارڈ کی کتاب کے بارے میں رائے معلوم کی، انہوں نے جواب دیا کہ ’’کتاب تو نہیں پڑھی مگر سنا ہے کہ سائنس مخالف کتاب ہے‘‘۔ کلک! سائنس پرستی! سائنس پرستی! کیونکہ یہ کتاب ہرگز سائنس مخالف نہیں ہے، وہ سائنس جو سائنس پرستی نہیںہے۔ مگر کیونکہ یہ غیر معمولی قوت اور اعتماد کا اظہار کرتی ہے، اور اس کی وجہ ماہرین عمرانیات کی نظر میں اس کا ’مقدس گائے‘ہونا ہے، اور گائے کی عبادت کے فطری نتائج ہیں جوسامنے آتے ہیں، اور اصل سائنسی کاوشوں پر پانی پھیردیتے ہیں۔
یہ بات سب سائنس دانوں کے لیے نہیں ہے۔ سب اپنے پیشے کی ’عبادت‘ نہیں کرتے۔
سائنس کا ایک محقق Timothy Ferris لکھتا ہے کہ سائنس پرستی جو ہے، یہ سچ تک رہنمائی نہیں کرتی۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ سائنس پرستی انیسویںصدی میں شروع ہوئی، جب کچھ مفکرین نے، جوسائنسی کامیابیوں جیسے Newtonian dynamics، تھرمو ڈائنمکس کا دوسرا قانون، اور دیگر انکشافات پر ازخود اس غلط گُمان میں مبتلا ہوگئے کہ اب بہت جلد سائنس ہرطرح کی پیش گوئی کرسکے گی۔ ایسے تصورات اور دعوے یقیناً مبالغہ آمیز ہیں۔ آج سائنس دانوں کی معمولی اقلیت ہی سائنس پرستی میں مبتلا ہے۔
John Polkinghorne بڑے پائے کا برطانوی سائنس دان تھا، وہ پچاس سال کی عمر میں اینگلیکن پادری بن گیا تھا۔ نیویارک ریویو آف بُکس جوکبھی بھی دینیاتی کتابوں پرتبصرے نہیں لکھتا، مگر پوکنگ ہارن کی موت کے بعد اُس نے تبصرہ لکھا کیونکہ وہ ایک ممتاز سائنس دان تھا، اس لیے استثنیٰ دیا گیا تھا۔ اُس کی کتاب پر تبصرے کے لیے ریویو بُکس نے عالمی شہرت یافتہ سائنس دان فری مین ڈائسن… کلک! ایک سائنس دان سے علم دینیات کی کتاب پر تبصرہ کروایا، کیوں؟ یہ انتخاب خود بتارہا ہے کہ تبصرہ کروانے والے کیا چاہتے ہیں۔ اگر اسی ترتیب کو الٹ دیا جائے اورایک عالم دین سے سائنس کی کسی کتاب پر تبصرہ کروایا جائے؟ سائنس ایک ٹیکنیکل موضوع ہے جبکہ الٰہیات نہیں ہے۔
کئی سال پہلے Notre Dame University کی ایک کانفرنس میں ایک چوٹی کے ماہرِ’’سینٹ تھامس ایکوائنس‘‘ نے پیپر پڑھتے ہوئے بتایا کہ ’’شاید ایسے بارہ علما ہی اس وقت حیات ہیں جوسینٹ تھامس کو سمجھ سکتے ہیں، اور میں اُن میں سے نہیں ہوں‘‘۔ ڈائسن نے پوکنگ ہارن کی کتاب کے بارے میں کیا کہا؟ مصنف کی سائنس کے لیے خدمات گنوانے کے بعد اُس کی الٰہیات کوالفاظ کا گورکھ دھندا قرار دیا، جبکہ سائنس کوٹھوس اشیاء سے متعلق قرار دیا۔ کلک ڈبل کلک!! میں نے اس کے جواب میں بک ریویو کوخط لکھا اور اعتراض اٹھایا کہ ڈائسن الٰہیات کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، اور اُسے یہ نہیں معلوم کہ الٰہیات میں خدا کا وجود’’قادر مطلق‘‘ ہے، اور باقی ہر شے اُس سے خلق ہوئی ہے۔ ڈائسن نے جواب میں لکھا کہ ’’میں ہسٹن اسمتھ کا شکرگزار ہوں کہ جنہوں نے میری غلطیوں کی نشاندہی کی، میرے پاس جیسا کہ وہ کہتے ہیں علم الٰہیات پر کوئی سند موجود نہیں… میں نے اُن کے خط سے بہت کچھ سیکھا ہے‘‘۔
ایک بار میں کیلی فورنیا میں ’’سائنس پرستی‘‘ پر ایک سیمینار منعقد کروا رہا تھا۔ جیسے جیسے دن گزرا، حاضرین میں ایک شخص جوبڑی توجہ سے میری بات سنتا رہا تھا، جب سارے لوگ اٹھ گئے تو وہ میرے پاس آیا اور چہل قدمی کی دعوت دی۔ دورانِ گفتگو معلوم ہوا کہ وہ یونیورسٹی آف منیسوٹا میں غیر سائنسی افراد کو سائنس پڑھا رہا تھا۔ اُس نے کہا کہ ’’تم نے موضوع سے انصاف کیا… مگرسائنس پرستی کے بارے میں ایک بات ہے جس پر تم نے اب تک غورنہیں کیا۔ ہسٹن، سائنس ہی سائنس پرستی ہے۔‘‘
اُس وقت مجھے اُس کی بات بہت عجیب لگی، میں نے وہ سارا دن اس غوروفکر میں گزاردیا کہ سائنس اور سائنس پرستی میں کیا مماثل ہے۔ نکتہ کھلا، کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ ازروئے قانون تو ٹھیک ہے، مگر حقیقت کا یہ پہلو بالکل نظرانداز کرگیا ہوں کہ سائنس جس طرز پر معاشرے میں سرگرم عمل ہے، اس کی سائنس پرستی سے علیحدگی ممکن نہیں۔
Stephen Jay Gould کی Rocks of Agesکہتی ہے کہ سائنس معلوم حقائق سے معاملہ کرتی ہے، جبکہ مذہب اقدار پر بات کرتا ہے، اس لیے تصادم ممکن نہیں۔ سائنس اور مذہب کی جنگ صرف لوگوں کے ذہنوں میں ہے، اس کا منطق میں کوئی وجود نہیں۔ دونوں حیات آفریں ہیں۔ سائنس قدرتی دنیا کے حقائق جاننے کی کوشش کرتی ہے، نظریات اور کلیات پروان چڑھاتی ہے، ان کی وضاحت کرتی ہے… جبکہ مذہب انسانی مقاصد، معنویت، اوراقدار کی وضاحت کرتا ہے۔