امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے پشاور میں قائم تحقیقی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز (آئی آر ایس) کی نئی عمارت واقع خیبر کلے ہائوسنگ اسکیم رنگ روڈ نزد حیات آباد کی افتتاحی تقریب سے بطور مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ بجٹ ملک کی ترقی اور عوامی مسائل کے حل کے بجائے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی خوشی کے لیے بنایا گیا ہے، جس میں ترقیاتی بجٹ 950 ارب روپے، جب کہ سیکورٹی کے لیے 1370 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے 3400 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ملک کی معاشی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ سودی نظام ہے۔ سودی معیشت کا خاتمہ بے حد ضروری ہے۔ سود اللہ سے جنگ ہے، اور اس کے ہوتے ہوئے پاکستان کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ زکوٰۃ وعشر اور صدقات کے نظام کو مؤثر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ گارنٹی دیتے ہیں کہ اگر پاکستان میں سود سے پاک معاشی نظام قائم کیا جائے تو پاکستان قلیل عرصے میں قرضے لینے والا نہیں بلکہ دینے والا ملک بن جائے گا۔ پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک ایک مخصوص طبقہ ملک پر قابض ہے۔ ان کے حواری ہر شعبۂ زندگی میں موجود ہیں جو محکمہ جاتی کرپشن کو پروان چڑھا رہے ہیں، ملک کے وسائل لوٹ رہے ہیں اور عوام کی زندگی کو اجیرن کیے ہوئے ہیں۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے غریبوں کے بچے اسکولوں سے باہر اور عام آدمی کے لیے صحت کی سہولتیں ناپید ہوچکی ہیں۔ بجٹ میں تعلیم اور صحت کے لیے صرف 3 فی صد حصہ رکھاگیا ہے، جب کہ بنگلہ دیش جیسے ملک میں بھی تعلیم اور صحت کے لیے 30 فی صد حصہ رکھا جاتا ہے۔ ملک میں ڈھائی کروڑ بے روزگار نوجوان گلی کوچوں میں پھر رہے ہیں، ان نوجوانوں کے لیے بلاسود قرضوں، تکنیکی مہارتوں اور روزگار کے مواقع پیدا نہیں کیے گئے تو مایوسی کی صورت میں یہ نوجوان ملک کے لیے ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ سراج الحق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں نے سیاست کو کاروبار بنایا ہوا ہے۔ ملک پر مافیاز کا راج ہے جو فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دولت کے پجاریوں نے عوام کی امیدوں اور ارمانوں کا خون کردیا ہے۔ ملک آگے کے بجائے پیچھے کی جانب جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ بجٹ نوازشریف، پی پی پی اور پرویزمشرف کی کابینہ کے ارکان نے بنایا ہے، کیا ان چہروں کی موجودگی میں تبدیلی آ سکتی ہے! موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں ہی کا تسلسل ہے۔ انہوں نے کہاکہ عوام کی گردنوں پر سوار اشرافیہ اور ان کے حواری اگرچہ گنے چنے ہیں، مگر انہوں نے ملک کی 90 فیصد سے زیادہ دولت اور وسائل پر قبضہ جما رکھا ہے۔ 2 فیصد جاگیرداروں نے 98 فیصد چھوٹے کسانوں کے وسائل کو ہڑپ کر رکھا ہے۔ چند بڑے سرمایہ دار چھوٹے کاروباری طبقے اور تاجروں کے حقوق ہڑپ کرکے بیٹھے ہیں۔ غریب اور امیر کی اس تفریق کو ختم کرنے کے لیے ملک میں اسلامی اقدار پر مبنی پائیدار جمہوریت کی ضرورت ہے۔
سراج الحق نے کہاکہ ملک میں وسائل کی کمی نہیں ہے، پاکستان دنیا میں گندم میں آٹھویں، چاول میں چھٹے، گنا پیدا کرنے میں چوتھے، اور لائیواسٹاک میں پانچویں نمبر پر ہے، لیکن ہمارے عوام پھر بھی آٹے اور چینی کے لیے قطاروں میں کھڑے ہیں اور پورے ملک میں خالص دودھ کا ایک لیٹر ملنا بھی معجزے سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کے مسائل کا حل ایمان دار صالح قیادت کے برسراقتدار آنے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
ڈاکٹر اقبال خلیل نے آئی آر ایس کی حیثیت اور مقاصد پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ انسٹی ٹیوٹ کا قیام قاضی حسین احمد نے 1981ء میں افغان جنگ کے دوران کیا تھا، اور اس نے اسلامی لٹریچر کی تیاری اور مختلف زبانوں خاص طور پر روسی زبان میں قرآن پاک اور دیگر کتابوں کے تراجم کے ذریعے جو خدمات انجام دی ہیں وہ ناقابلِ فراموش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انسٹی ٹیوٹ نے اپنی سرگرمیاں دوبارہ بحال کردی ہیں اور اب اسے اپنی تعمیر شدہ عمارت مل گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ادارہ حکومت اوردیگر متعلقہ اداروںکی صحیح سمت میں رہنمائی کرنے کے لیے تھنک ٹینک کا کام کرے گا۔ ڈاکٹر اقبال خلیل نے کہا کہ حال ہی میں اس تنظیم نے تعلیم پر کورونا وائرس کے اثرات کے بارے میں دو مطالعات کیے ہیں۔ پہلے مطالعے کی رپورٹ وفاقی وزیر تعلیم کو پیش کی گئی، جنہوں نے اس موضوع پر اس رپورٹ کو وزارتِ تعلیم کے لیے ایک مفید دستاویز قرار دے کر اس کی تعریف کی ہے۔
تقریب سے جماعت اسلامی کے ڈائریکٹر امورِ خارجہ آصف لقمان قاضی اور آئی آر ایس کے ڈپٹی چیئرمین پروفیسر فضل الرحمان قریشی نے بھی خطاب کیا، جب کہ اس موقع پر دیگر کے علاوہ نائب امراء جماعت اسلامی خیبر پختون خوا مولانا محمد اسماعیل اور نورالحق بھی موجود تھے۔
جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر سراج الحق نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی میں کئی دیگر عوامل کے علاوہ ایک اہم عامل وہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے تحقیقی ادارے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی میں جو کردار لیبارٹریوں کا ہے وہی کردار سماجی ترقی اور معاشرے کی فلاح میں تھنک ٹینک کا ہے۔ انھوں نے آئی آر ایس کے نئے دفتر کے افتتاح اور اس ادارے کی فعالیت کو صوبے کے فلاح و بہبود اور سماجی ترقی کے لیے نیک شگون قرار دیتے ہوئے یہاں نوجوان محققین کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ پاکستان میں اس وقت کتنے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کام کررہے ہیں اور ان میں کتنے سرکاری سرپرستی اور کتنے نجی شعبے کے تعاون سے چل رہے ہیں، اس حوالے سے شاید کسی بھی سطح پر قابلِ ذکر اور معتبر اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مغربی ممالک کی مجموعی ترقی کے پیچھے کئی دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ وہاں گورننس اور پالیسی سازی کے شعبوں میں قائم تھنک ٹینکس کا ایک نمایاں اور کلیدی کردار ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ فارمل تھنک ٹینکس کے علاوہ مغربی دنیا کی جامعات اور خاص کر علوم سماجیات، پالیسی سازی اور گورننس سے متعلق علمی ادارے بھی بلاواسطہ یا بالواسطہ تھنک ٹینکس کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ تھنک ٹینکس کی افادیت اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ان کی اہمیت پر گفتگو کرنے سے قبل اگر تھنک ٹینک کی مسلمہ تعریف پر ایک نظر ڈال لی جائے تو شاید اس سے بات سمجھنے میں قدرے آسانی رہے گی۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق تھنک ٹینک کا مطلب مخصوص سیاسی یا معاشی مسائل کے بارے میں مشورے اور نظریات فراہم کرنے والے ماہرین کا ایک ادارہ ہے۔ یا ماہرین کا ایک ایسا گروپ جو سیاسی، معاشرتی یا معاشی امور پر مشورے اور نظریات فراہم کرتا ہے۔ کیمبرج ڈکشنری کے مطابق تھنک ٹینک کے معنی ہیں: ماہرین کا ایک ایسا گروپ جوکسی خاص موضوع پر نظریات تیار کرنے اور تجاویز پیش کرنے کے لیے اکٹھا ہوا ہو۔ یا ایک ایسی تنظیم جس کا کام مخصوص مسائل کا مطالعہ کرنا اور ان کا حل کسی مخصوص سیاسی نظریے کی روشنی میں تجویز کرنا ہے۔
مغربی ممالک بالخصوص یورپ اور امریکہ میں آج اگر ہمیں سیاسی اور اقتصادی استحکام نظر آتا ہے تو اس میں بنیادی کردار ان ممالک میں کام کرنے والے بیسیوں تھنک ٹینکس کا ہے، جو مختلف شعبوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔ اصل میں ہمارے ہاں ہر فن مولا کا عمومی تصور ہر شعبے میں پایا جاتا ہے، اسی ناسمجھی کی وجہ سے ہمارا آنے والا ہر دن پرانے دن سے بدتر ثابت ہورہا ہے۔ اس حوالے سے نمایاں مثال ہمارے ہاں برسراقتدار رہنے والی حکومتوں اور مختلف سیاسی جماعتوں کی ناقص کارکردگی ہے۔ اس بات سے شاید ہی کوئی اختلاف کرے گا کہ ہمارے ہاں وفاقی اور صوبائی ہر دو سطحوں پر پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کا اختیار کبھی بھی عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں نہیں رہا، حالانکہ جمہوریت کی روح اور آئین کے تحت اس اختیار پر حق صرف عوام کے منتخب نمائندوں کا ہے جو وفاق میں وزیراعظم، اس کی کابینہ اور پارلیمنٹ کے فورم کے ذریعے بروئے کار لایا جاتا ہے، جبکہ صوبائی سطح پر یہ اختیارات وزیراعلیٰ، صوبائی کابینہ اور صوبائی اسمبلی کے منتخب ارکان استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں چونکہ سیاست دانوںکا مختلف شعبوں میں علم اور تربیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور انہیں اس حوالے سے بعض بنیادی باتوں کا علم بھی نہیں ہوتا، اس لیے عیار بیوروکریسی انہیں یا تو مختلف حیلے بہانوں سے کام نہیں کرنے دیتی، یا پھر ان کی ناسمجھی کی وجہ سے انہیں جلد ہی شیشے میں اتارکر ان کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے کر انہیں بے وقوف بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ لہٰذا اس کلچر کو تبدیل کرنے کا آسان نسخہ وہی ہے جو مغربی ممالک میں کامیابی سے آزمایا جارہا ہے۔ وہ نسخہ مختلف شعبوں میں قائم تھنک ٹینکس سے عملی راہنمائی اور تربیت کا حصول ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ اگر ہم آئی آر ایس کا بطور تھنک ٹینک جائزہ لیں تو ہمیں یہ ادارہ اپنے اہداف اور مقاصد کے حصول میں بہت حد تک کامیاب نظر آتا ہے۔
یاد رہے کہ آئی آر ایس کی بنیاد 1980ء کی دہائی کے اوائل میں جماعت اسلامی کے تیسرے مرکزی امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے اُس وقت رکھی تھی جب ابھی وہ جماعت کے مرکزی امیر نہیں بنے تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اس خطے کی بین الاقوامی اہمیت اور یہاں اگلی دہائیوں میں پیش آنے والے دھماکہ خیز واقعات و حالات کے حوالے سے کتنے دور اندیش واقع ہوئے تھے۔ بے سرو سامانی میں قاضی صاحب کے ذاتی مکان کے ایک کمرے سے آئی آر ایس کے آغاز کے وقت کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ آگے جاکر یہ ادارہ نہ صرف افغانستان سے سوویت یونین کی پسپائی میں کردار ادا کرے گا، بلکہ وسط ایشیائی مسلم ریاستوں قازقستان، ازبکستان، تاجکستان، کرغیزستان، ترکمانستان اور آذربائیجان سمیت ڈیڑھ درجن دیگر ریاستوں کی سوویت یونین کے غاصبانہ قبضے سے آزادی میں بھی فکری اور نظریاتی کردار ادا کرے گا۔ آئی آر ایس کے حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلی چار دہائیوں کے دوران یہ مختلف نشیب وفراز سے گزرتا رہا ہے جسے اگر تین ادوار میں تقسیم کیا جائے تو شاید بے جا نہیں ہوگا۔ اس کا پہلا دور جس میں اسے قاضی صاحب کی براہِ راست سرپرستی کے علاوہ پروفیسر محمد ساعد مرحوم، پروفیسر محمد سلیم مرحوم، پروفیسر فتح الرحمٰن مرحوم، پروفیسر عبدالعزیز خان نیازی مرحوم، انجینئر شاہ محمود اور ڈاکٹر فضل الرحمٰن قریشی جیسی نابغۂ روزگار علمی شخصیات کا عملی تعاون حاصل رہا۔ اس عرصے میں آئی آر ایس کا زیادہ تر فوکس قرآن پاک اور دیگر اسلامی کتب کا روسی زبان میں ترجمہ کرکے اس لٹریچر کو افغانستان کے راستے روس اور اُس کے زیر تسلط وسط ایشیائی مسلم ریاستوں تک پہنچانا ہوتا تھا، جو اُس دور میں یقیناً جان جوکھوں کا کام تھا، اور اس مقصد کے لیے کئی راستے اپنائے جاتے تھے جن میں ایک معروف طریقہ یہ تھا کہ افغانستان میں اُس روٹ یا راستے پر جگہ جگہ ترجمہ شدہ لٹریچر کو راستے کے کنارے پڑے پتھروں پر رکھا جاتا تھا جہاں سے روسی فوجیوں کے کانوائے گزرتے تھے۔ اسی طرح اُن دنوں چونکہ سوویت ریاستوں میں کمیونزم سے متاثرہ پاکستانی طلبہ کی ایک بڑی تعداد زیر تعلیم تھی، تو ان طلبہ جن میں بعض طالبات بھی شامل تھیں، کے ذریعے یہ لٹریچر منتقل کیاجاتا تھا۔
افغان جہاد کے خاتمے کے بعد آئی آر ایس بہت عرصے تک غیر فعال رہا، البتہ 1990ء کی دہائی کے وسط میں جب افغانستان میں طالبان کی تحریک اٹھی اور اس کے اثرات پاکستان بالخصوص قبائلی علاقوں، خیبر پختون خوا اور خطے کے دیگر ممالک پر پڑنے لگے تو اُس وقت ان حالات پر تحقیق، تجزیے اور تصنیف کی ایک بار پھر ضرورت محسوس کرتے ہوئے آئی آر ایس کو فعال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مرتبہ بھی یہ فریضہ محترم قاضی حسین احمد ہی نے انجام دیا، جنہوں نے یہ ٹاسک پروفیسر فخرالاسلام اور ڈاکٹر محمد اقبال خلیل کے سپرد کیا۔ آئی آر ایس کے دوسرے دور میں افغانستان کے حالات پر کئی کامیاب سیمینارز اور ڈائیلاگز کے علاوہ خطے کے بعض دیگر ایشوز پر بھی مذاکروں اور مباحثوں کا انعقاد کیا گیا۔ اس دوران کئی دیگر تھنک ٹینکس سے بھی رابطے استوار کیے گئے، ایک فعال ویب سائٹ لانچ کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے پچاس ایسے تھنک ٹینکس کی تحقیق کی مانیٹرنگ اور ان کی رپورٹس کے تلخیص شدہ تراجم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا جو افغانستان اور اس خطے سے متعلق ہوتی تھیں۔ ای نیوز اینڈویوز اور ای سرویز کے علاوہ خیبر پختون خوا کے مختلف انتخابات کے حوالے سے سرویزاور ٹریننگ کااہتمام بھی کیا گیا۔اسی اثناء آئی آر ایس
بعض مالی اور انتظامی مشکلات کے باعث غیر فعال ہونے کے بعد اب اپنے دفتر کی نئی عمارت کی تعمیر کے بعد ایک بار پھر نہ صرف فعالیت کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے بلکہ اس نے نئے مینڈیٹ اوروژن کے ساتھ اپنے نئے(تیسرے)دور کا آغاز بھی کردیا ہے۔واضح رہے کہ آئی آر ایس کا نیا دفتر خیبر کلے ہائوسنگ اسکیم رنگ روڈ پشاور میں تعمیر کیا گیا ہے جوابتدائی طورپر زیر زمین قاضی حسین احمد آڈیٹوریم اور گرائونڈ فلور کے دفاتر اور لائبریری پر مشتمل ہے، جب کہ یہاں بالائی منزل پر کانفرنس روم کے علاوہ مہمانوں کے لیے رہائش گاہیں تعمیر کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔یاد رہے کہ شروع میں دفتر کی تعمیر کے لیے 45لاکھ روپے کے عوض ایک کنال پلاٹ خریدا گیا تھا جس میں سے پانچ مرلے فروخت کرکے باقی ماندہ پندرہ مرلے کے پلاٹ پر تقریباً80لاکھ روپے کے اخراجات سے موجودہ عمارت تعمیر کی گئی ہے۔اخراجات ِجاریہ کے لیے چونکہ اس وقت آئی آر ایس کے پاس وسائل نہیں ہیں تو افتتاح کے موقع پر عمومی اخراجات کے لیے ابتدائی تخمینے کے مطابق کم از کم 25لاکھ روپے سالانہ کی فنڈ ریزنگ کااعلان کیاگیا، جس کے سلسلے میں تمام صاحبِ ثروت افراد اور اداروں سے مالی تعاون کی اپیل کی گئی ہے۔