عدالت عظمیٰ کا نسلہ ٹاور کو گرانے کا فیصلہ

امیر جماعت اسلامی کراچی کا متاثرین سے اظہار یکجہتی

کراچی تجاوزات سے بھرا شہر ہے۔ شہر کا انفرا اسٹرکچر تباہ حال ہے، اور یہ سب کچھ کئی دہائیوں سے ریاست کی سرپرستی میں ہورہا ہے۔ اب چند سال سے سپریم کورٹ تجاوزات کے خاتمے کے لیے بڑے بڑے فیصلے دے رہی ہے۔ گجر نالے اور اورنگی نالے سے متعلق بھی ایسے ہی فیصلے سامنے آئے ہیں۔ اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ نے کراچی میں گجر نالے اور اورنگی نالے کے اطراف میں قائم لیز مکانات مسمار کرنے سے انتظامیہ کو روکا تھا۔ اس وقت متاثرین نے نالوں پر آپریشن روکنے اور متبادل جگہ کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کررکھی ہے۔ اب سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے نالوں پر تجاوزات آپریشن جاری رکھنے کا حکم دے دیا ہے اور کہا ہے کہ غیر قانونی لیز کی بنیاد پر آپریشن نہیں روک سکتے۔ عدالت نے متاثرین کی درخواست مسترد کردی ہے۔ انھی فیصلوں میں سے ایک فیصلہ 15 منزلہ نسلہ ٹاور کو گرانے کا بھی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تمام متعلقہ ایجنسیوں اور محکموں کی جانب سے جمع کرائے گئے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ نسلہ ٹاور تجاوزات والی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ”یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ 1957ء میں مرکزی سڑک کی چوڑائی 280 فٹ تھی جس میں ردو بدل کیا گیا اور اس کے نتیجے میں اس کی چوڑائی 240 فٹ رہ گئی تھی، اور دسمبر 1957ء میں چیف کمشنر کے ایک مراسلے کے ذریعے 40 فٹ سے زیادہ کی جگہ سندھی مسلم کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی (ایس ایم سی ایچ ایس) کو الاٹ کردی گئی تھی۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ موجودہ مالک نے بالآخر اسے 2015ء میں کنویژن ڈیڈ کے ذریعے حاصل کیا، اور ابتدائی طور پر یہ جگہ رہائشی پلاٹ کے لیے تھی لیکن 2004ء میں اُس وقت کی شہری حکومت نے ایک قرارداد کے تحت شارع فیصل پر تمام رہائشی پلاٹوں کو کمرشل میں تبدیل کرنے کی اجازت دی تھی، اور اس طرح 2007ء میں یہ پلاٹ رہائشی سے کمرشل میں تبدیل کردیا گیا۔
دوسری طرف متاثرین سراپا احتجاج ہیں، پریس کانفرنسیں کررہے ہیں، احتجاج کررہے ہیں، جس میں معمر اور معذور مکینوں کے علاوہ خواتین اور معصوم بچوں کی بڑی تعداد شریک ہورہی ہے۔ جماعت اسلامی ہمیشہ کی طرح اصولوں کے ساتھ کھڑے ہوکر ان متاثرین کا مقدمہ لڑرہی ہے اور ان کے ساتھ کھڑی ہے، اور عملی طور پر اس نے نسلہ ٹاور کے سامنے متاثرین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اُن کا دکھ اور درد سنا بھی ہے۔ اس موقع پر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ نسلہ ٹاور کو گرانے کے حوالے سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں، جن لوگوں کے مکانات اور تعمیرات گرانے کا حکم دیا ہے اُن کی بھی بات سنیں، اور اُن تمام لوگوں کو بھی قانون کی گرفت میں لائیں جن کی سرپرستی میں یہ کام ہوا ہے۔ جماعت اسلامی نے چیف جسٹس سے اپیل کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ہم عدالت کی معاونت کرنے پر تیار ہیں، متاثرین کی بات بھی سنی جائے۔ نسلہ ٹاور کے تمام کاغذات حکومتی محکمے سے منظور شدہ ہیں، ہم کہتے ہیں کہ ان تمام اتھارٹیز کو طلب کریں جن کی سرپرستی اور اجازت سے یہ ٹاور بنا اور دیگر غیر قانونی تعمیرات ہوئیں، جب بنی گالہ کو ریگولرائز کیا جا سکتا ہے تو پھر کراچی میں یہ اقدام کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ حافظ نعیم الرحمٰن نے مطالبہ کیا ہے کہ نسلہ ٹاور کو گرانے سے قبل اس طرح کا ایک ٹاور پہلے قانونی جگہ پر تعمیر کرایا جائے، متاثرین کو جگہ دی جائے۔ ہم قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہتے، لیکن اپیل کرتے ہیں کہ اس فیصلے پر نظرثانی کریں اور بڑے اور طاقتور لوگوں کے خلاف بھی فیصلے دیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ رہائش عوام کا بنیادی حق ہے، بدقسمتی سے ہماری ریاست یہ حق اور سہولت فراہم نہیں کرتی۔ تعلیم، صحت، روزگار نہیں دیتی۔ یہ ریاست لوگوں کو جینے کا حق نہیں دے رہی۔ ایسی صورت حال میں اچانک ایک خیال آجائے کہ سب کچھ غیر قانونی ہے اور گرا دیا جائے تو یہ انصاف نہیں، اور اسے کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے! شہر میں جب چائنا کٹنگ ہورہی تھی، پارکوں پر قبضے ہورہے تھے اُس وقت جماعت اسلامی نے ہر سطح پر آواز اُٹھائی اور آگاہ کیا، لیکن کسی نے مسئلہ نہیں سنا اور اس عمل میں شریک لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ہماری درخواست ہے کہ ان سب کو بھی عدالت میں طلب کیا جائے اور تین کروڑ سے زائد لوگوں کے شہر میں عوام کو انصاف دلوایا جائے۔ کراچی کے عوام کے ساتھ وفاقی و صوبائی حکومتوں نے جو حق تلفی کی ہے، ظلم اور زیادتی کی ہے ان سب کا بھی ازالہ ہونا چاہیے۔ کراچی کے عوام کا کوٹہ سسٹم اور جعلی مردم شماری کے ذریعے حق مارا گیا ہے۔ کے الیکٹرک نے کراچی کے عوام پر ظلم ڈھایا ہے، اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ہم چیف جسٹس صاحب سے کہتے ہیں کہ اہلِ کراچی پر اس ظلم و ستم اور حق تلفی کے عمل کا بھی نوٹس لیں۔ جن لوگوں نے ناجائز تعمیرات کرائیں آپ کے فیصلے میں اُن کے حوالے سے کوئی حکم نہیں ہے۔ ہم الہ دین پارک سمیت تمام متاثرین کے ساتھ ہیں، شہر بھر میں تجاوزات کے خاتمے کے حوالے سے جو بھی متاثرین ہیں اُن کے جائز اور قانونی حق کے لیے ہر ممکن کوشش اور جدوجہد کریں گے۔
نسلہ ٹاور کے متاثرین نے کہا کہ جب بنی گالہ کو ریگولرائز کیا جا سکتا ہے تو کراچی میں ایسا کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ جب یہ عمارت بن رہی تھی تو سب کہاں تھے؟ 5سال ہوگئے رہائش اختیار کیے ہوئے، تو کہا جارہا ہے کہ اسے توڑ دو۔ خدارا ہم پر رحم کریں، ہمیں بے گھر نہ کریں۔ اصل بات اور سوال یہی ہے کہ یہ یا اس جیسا کوئی بھی پروجیکٹ کیسے غیر قانونی ہوسکتا ہے جبکہ اس میں بجلی، گیس، پانی کے بل ادا کیے جاتے ہیں اور پھر پراپرٹی ٹیکس بھی لیا جاتا ہے۔ اس صورت حال میں متاثرین کا کہنا ہے کہ ہم اپنے گھروں میں موجود رہیں گے، مسمار کرنے والوں کو پہلے ہمارے اوپر بلڈوزر چلانا ہوگا۔ یہ اور شہر کراچی میں جو بھی تجاوزات ہیں وہ غلط ہیں تو ٹھیک ہے گرنی چاہئیں، لیکن جہاں ریاست اور ریاست کے اداروں کی سرپرستی میں یہ سارا تماشا ہو اور انسانی المیہ جنم لینے کا خدشہ ہو تو یقیناً پہلے متاثرین کو اچھا متبادل ملنا چاہیے، اور پھر ساتھ ہی سپریم کورٹ کو یہ اور اس طرح کی جتنی تجاوزات پہلے بھی قائم ہوئی ہیں اُن کے ذمہ داروں کو ایک ایک کرکے سزا دینی چاہیے۔ جو زندہ ہیں ان کو جیلوں میں ڈالا جائے، اور جو اب اِس دنیا میں نہیں ہیں اُن کے نام اور اُن کے لیے فیصلے سامنے آنے چاہئیں، ورنہ اسی طرح نئی تجاوزات قائمؐ ہوتی رہیں گی، مافیا پیسے بناتا رہے گا، اور عام آدمی ذلیل و رسوا ہوتا رہے گا، اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔