ابراہیم رئیسی ایران کے نئے صدر

جمعیت علمائے مجاہدین یا CCAکے ابراہیم رئیسی ایران کے صدر منتخب ہوگئے۔ جمعہ 18 جون کے صدارتی انتخابات خمینی انقلاب کے بعد سے ایران میں ہونے والا تیرہواں چناو تھا۔ چار سال پہلے حزب اعتدال و ترقی (MDP) کے حسن روحانی نے ابراہیم رئیسی کو شکست دے دی تھی۔ آقائے روحانی دو صدارتی مدت پوری کرچکے ہیں، اس لیے آئین کی رو سے وہ دوبارہ انتخاب لڑنے کے اہل نہیں تھے۔ حالیہ انتخابات اس اعتبار سے کسی حد تک مایوس کن رہے کہ روحانی پیشوا حضرت آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانب سے بار بار اپیل کے باوجود ووٹ ڈالنے کا تناسب 48.78فیصد رہا۔ گزشتہ دو صدارتی انتخابات میں 72 فیصد سے زیادہ ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔ سرکاری ترجمان کا خیال ہے کہ کورونا کے خوف سے لوگ ووٹ ڈالنے نہیں آئے۔
ایران میں امیدواروں کی چھان بین کا معیار بہت سخت ہے، اور صرف اُن امیدواروں کو انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی جاتی ہے جن کی مملکت سے نظریاتی وابستگی تمام شکوک و شبہات سے بالاتر ہو۔
ساٹھ سالہ ابراہیم رئیسی مشہد کے مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین کو مشہد میں حضرت امام رضا کے مزار کی مجاوری کا اعزاز حاصل ہے۔ مارچ 2016ء سے رئیسی صاحب آستانِ قدس رضوی کے سربراہ ہیں جو امام رضا کے مزار کی نگرانی کرتا ہے۔ ابراہیم صاحب جامعہ مطہری سے فقہ اور شریعت میں پی ایچ ڈی ہیں اور بہت عرصے تک مستغیث (Prosecutor) رہے۔ انھیں 2019ء میں عدلیہ کا سربراہ منتخب کیا گیا۔
رئیسی کے مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ ایرانی انقلاب کے ابتدائی دنوں یعنی 1980ء کی دہائی میں جواں سال رئیسی نے سیاسی مخالفین کے قتل میں حصہ لیا، اور جعلی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے قیدیوں کو پھانسی دینے میں جلادوں کی معاونت کی۔ ان کے بطور صدر انتخاب پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انسانیت کے خلاف جرائم پر ابراہیم رئیسی کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
انتخابی مہم کے دوران ابراہیم رئیسی نے بدعنوانی کے خاتمے اور معاشی مسائل کے حل کے ساتھ ایران کے جوہری پروگرام کے دفاع کا وعدہ کیا ہے۔ سخت گیر خیالات کے باوجود نومنتخب صدر، روحانی پیشوا علی خامنہ ای کی طرح جوہری پروگرام کے عالمی معاہدے میں واپس آنا چاہتے ہیں۔ جوہری پروگرام کو محدود کردینے کے معاہدے یعنی JCPOAکے عوض 2015ء میں امریکہ اور یورپ نے ایران پر سے پابندیاں ہٹالی تھیں، لیکن 2018ء میں صدر ٹرمپ نے JCPOA کو خیرباد کہہ کر ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کردی تھیں جو اب تک نافذ ہیں۔
کامیابی کے بعد پہلی اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نومنتخب ایرانی صدر نے کہا کہ اگر ان کے ملک پر سے پابندیاں ہٹادی جائیں تو وہ JCPOAکی پاسداری کے لیے تیار ہیں، لیکن ایران نہ تو اپنے میزائل پروگرام پر کوئی سودے بازی کرے گا اور نہ فلسطین سمیت انصاف و آزادی کی تحریکوں کی حمایت ترک کی جائے گی۔ ساتھ ہی انھوں نے امریکی صدر سے براہِ راست ملاقات کے امکان کو یکسر رد کردیا۔
ایران سے جوہری معاہدہ صدر اوباما کے دور میں ہوا تھا جب جوبائیڈن نائب صدر تھے۔ موجودہ وزیر خارجہ، سی ائی اے کے ڈائریکٹر اور قومی سلامتی کے لیے صدر بائیڈن کے مشیر 2015ء کے مذاکرات میں شامل تھے اور امریکی صدر دوبارہ JCPOA کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ لیکن ایران کا اصرار ہے کہ جب تک ایران پر سے پابندیاں ہٹائی نہیں جاتیں اُس وقت تک نہ تو امریکہ سے براہِ راست مذاکرات ہوں گے اور نہ ہی جوہری سرگرمیوں کو محدود کیا جائے گا۔ ابراہیم رئیسی کے انتخاب کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے قومی سلامتی کے لیے صدر بائیڈن کے مشیر جیک سولیون نے کہا کہ جوہری ہتھیاروں کے لیے ایران کی امنگ دنیا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، لیکن اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں، اور مثبت و مربوط سفارت کاری کی مدد سے اس تنازعے سے نبٹنا ہوگا۔
دوسری طرف اسرائیل فضائی حملے کے ذریعے ایرانی جوہری تنصیبات کی تباہی کو مسئلے کا واحد حل سمجھتا ہے۔ جناب رئیسی کی کامیابی پر اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابراہیم رئیسی ایران کے اب تک کے سب سے زیادہ بنیاد پرست صدر ہیں جو اقتدار سنبھالتے ہی جوہری سرگرمیوں کو فروغ دیں گے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیفتالی بینیٹ نے اپنے اتحادیوں کو ”جاگ جانے“ کا مشورہ دیا۔ اپنے بیان میں جناب بینیٹ نے کہا کہ ”قاتلوں کی حکومت“ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے پُرعزم ہے اور اسے ہر قیمت پر روکنا عالمی امن کے لیے ضروری ہے۔ اسرائیل JCPOAکا پہلے دن سے مخالف ہے، اور اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے ہی صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکہ کو علیحدہ کیا تھا۔سیاسی مبصرین مستقبل قریب میں ایران و اسرائیل کے مابین کشیدگی میں اضافے کا خطرہ ظاہر کررہے ہیں۔ لبنان کی ایران نواز حزب اللہ اور فلسطینی تنظیم حماس نے ابراہیم رئیسی کی کامیابی کا خیرمقدم کرتے ہوئے امت دشمنوں کی سازشیں ناکام بنانے کے لیے مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
ابراہیم رئیسی ایران کی مذہبی قیادت کے بے حد قریب ہیں اور خیال کیا جارہا ہے کہ جلد ہی انھیں رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کا جانشین نامزد کیا جائے گا۔ ایران میں رہبر اعلیٰ کی بات ہر ریاستی معاملے میں حرفِ آخر سمجھی جاتی ہے۔