سید منور حسن ؒ۔۔چند یادیں۔۔چند یادیں

سید منور حسن صاحب انتہائی ملنسار، شفیق اور بذلہ سنج تھے۔ ادب سے ان کو گہرا شغف تھا۔ صحافت کے بڑے زبردست طالب علم بھی تھے اور نقاد بھی۔ دیانت داری، دین داری، تصنع سے پاک درویشی، عبادت میں شغف اور پھر ایک مضبوط، واضح اور دوٹوک مؤقف۔۔۔ سید منور حسن کی شناخت اور یہی ان کا طرۂ امتیاز تھا۔
سید صاحب فکری طور پر بہت مضبوط اور عالمگیر سوچ کے مالک تھے۔ اسلامی تحریک کو کسی علاقے، کسی بستی اور کسی شہر اور کسی ملک کے اندر کسی محدود جگہ پر بند نہیں سمجھتے تھے۔ للّٰہیت اور تعلق مع اللہ میں بہت زیادہ مضبوط تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی سوچ بھی آفاقی تھی۔ آپ عالمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے لائحہ عمل اورحکمت عملی وضع کیا کرتے تھے، جس کی صاف وجہ یہ تھی کہ وہ جماعت اسلامی کو محض ایک سیاسی جماعت یا تنظیم نہیں بلکہ ایک اسلامی تحریک سمجھتے تھے۔ اسے کوئی مذہبی گروہ یا مسلکی بنیاد پر قائم جماعت نہیں سمجھتے تھے۔ وہ اسلام کو ایک تحریک، ایک عالمگیر انقلابی دین اور ایک نظام سمجھتے تھے، اسی لیے ہمیشہ نظاموں اور تہذیبوں کی کشمکش کی بات کرتے تھے۔ وہ کبھی بھی اس بات پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں تھے کہ کشمیریوں کی یا افغانیوں کی بات نہ کی جائے، یا عالمی طاغوت امریکہ کی نفی نہ کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ’’گو امریکہ گو‘‘ تحریک چلائی اور وہ چاہتے تھے کہ یہ تحریک آگے بڑھے اور ایک نظریہ و فکر بن جائے۔ لیکن اس کے ساتھ وہ مقامی سیاست، لوگوں کے مسائل اور مشکلات کا پوری طرح سے ادراک بھی رکھتے تھے اور اس کے حل کی کوشش بھی کرتے تھے۔
منور صاحب کی شخصیت ایسی نہیں ہے کہ اسے چند جملوں میں بیان کیا جاسکے۔ یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ کسی فرد کو نظریہ اقامتِ دین پر قلبی اطمینان حاصل ہوجائے،پھروہ اسے اپنی زندگی کا حصہ اور زندگی کی ایسی ترجیح بنالے کہ اُس کی پوری زندگی اسی کے گرد گردش کرتی رہے۔وہ ایک وقت تک بائیں بازو کے نظریات کے حامی تھے، جو اُس وقت کے حاضر اور موجود میں تھا،پھر جب ان کو سید مودودی ؒ کا لٹریچر ملا تو ان کی آنکھیں کھل گئیں جس کا تذکرہ انہوں نے نجی محافل اور اپنی تقاریر میں بارہا کیا بھی ہے کہ ’’میں نے ان کا لٹریچر پڑھا اور وہ میرے دل و دماغ میں اترتا چلا گیا‘‘۔
سید منور حسن صاحب اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ بھی رہے۔ اُس وقت کی ضروریات کے اعتبار سے بائیں بازو کے نظریات اپنے عروج پر تھے، پروگریسیو ہونا، ترقی پسند ہونا ایک فیشن اور کلچر بن گیا تھا، اور پاکستان بننے کے باوجود پاکستان کے پورے نظام میں جس طرح مغربیت اور لادینیت رچی بسی تھی اُس وقت ایک چھوٹی سی اجتماعیت کو بڑی اجتماعیت کے اندر تبدیل کردینا، چھوٹی سی تنظیم کو ایک بڑے ہجوم کے ساتھ منسلک کردینا، اور جگہ جگہ یونینوں میں کامیابیاں حاصل کرتے چلے جانا۔۔۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی، اس میں سید منور حسن صاحب کا بھی بڑا عمل دخل تھا۔
وہ محبت کرنے والے آدمی تھے اورمحبتوں کا تبادلہ کرتے تھے، اور پھر ہمیشہ کے لیے اس تعلق کو قائم رکھتے تھے۔ پھر جب وہ جماعت اسلامی میں آئے تو بڑے صبر کے ساتھ ہر طرح کے حالات میں اپنے حصے کا کام بڑی استقامت سے کیا۔ کراچی جماعت اسلامی میں وہ تقریباً سولہ سترہ سال نائب امیر اور قیم کی مختلف ذمہ داریوں پر رہے، ان کی امارت کراچی تقریباً پونے تین سال کی تھی، پھر قاضی حسین احمد صاحب انہیں منصورہ لے گئے اور وہاں پہلے وہ نائب قیم اور پھر سولہ سال قاضی صاحب کے ساتھ قیم جماعت رہے، پانچ سال ان کی امارت کا دور ہے۔ انہوں نے بائیس سال جو منصورہ کے ایک کمرے میں گزار دیئے۔ یہ سننے اور کہنے میں بہت آسان ہے لیکن عملی طور پر اگر کوئی سوچے توایک ہی کمرے کو اپنا سب کچھ بنانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔
منور صاحب لٹریچر کے مطالعے پر زور دیتے، کہتے کہ لٹریچر کا کوئی بدل نہیں ہے، اس کا بدل بھی لٹریچر ہی ہے۔ بار بار یہ بات دہرایا کرتے تھے اور مولانا مودودیؒ کی کتابوں کے بارے میں تو کہتے تھے کہ جس نے پڑھ لی ہیں وہ دوبارہ پڑھے، جس نے دوبار پڑھ لی ہیں وہ سہ بارہ پڑھے اور پڑھتا چلا جائے۔ خود اپنے بارے میں بتاتے تھے کہ میں نے ایک ایک کتابچہ کو پینتیس پینتیس بار پڑھا ہے۔ ظاہر ہے جب آدمی اس طرح لٹریچر کو پڑھے گا اور قرآن و سنت کی تمام چیزیں اور ان کے انقلابی پہلو جذب کرلے گا تو وہ پھر منور حسن صاحب کی طرح ہی طرزعمل اختیار کرے گا۔ منور صاحب کی ایک خاص بات تھی، اکثر کہا کرتے تھے کہ تحریک کو کیریئر بنائو۔ وہ اکثر مثال دیا کرتے تھے قبر پر لے جانے والے ناظم کی، جو زیادہ گفتگو نہیں کرتے تھے، صرف قبر کو دکھا کر کہتے تھے کہ دیکھو یہ ہے تمہارا کیریئر۔ تو اصل کیریئر تو آخرت ہے، اور آخرت کو سنوارنے کا جو طریقہ ہے وہ اقامتِ دین کی تحریک ہے۔ ان کے پورے خاندان کو اگر دیکھیں تو سب بڑے بڑے عہدوں پر فائز لوگ ملیں گے، لیکن انہوں نے اسلام، تحریک اور اقامتِ دین کو اپنی ترجیح بنایا۔
نمازوں کے ساتھ انہوں نے اپنے دفتر کے اوقات سیٹ کیے تھے۔ نفاست پسند تھے، آپ ان کے کپڑے میں داغ نہیں دیکھیں گے، کوشش کرتے تھے استری نہ ٹوٹے، ٹوٹ جائے تو تبدیل کرلیں۔ کپڑے زیادہ نہیں ہوتے تھے لیکن صفائی ستھرائی کا بہت لحاظ رکھتے تھے۔ کبھی تقویٰ کا تاثر بنانے کی کوشش نہیں کی انہوں نے۔ ان کو دیکھ کر کوئی سمجھتا ہوگا کہ ماشاء اللہ بہت ہی خوش حال قسم کے آدمی ہیں، اندر کا حال تو ان کو پتا تھا، لیکن یہ بھی اسلام کی تعلیم ہے اور یہ بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے کہ اپنے آپ کو ایسا کم تر بناکر معاشرے میں پیش نہ کرو، کہ ہر وقت یہ نظر آرہا ہو کہ آپ گرے پڑے ہیں، ایک پائنچا اونچا ہے ایک نیچے ہے، موزا پہنا ہوا ہے نہیں پہنا ہوا ہے، جوتے پہن کر چل دیئے، وہ یہ نہیں کرتے تھے۔ صاف ستھرے رہے۔ کچھ لوگوں کو تو ڈانٹتے تھے کہ کیا تم اپنے دفتر میں بھی اسی طرح رہتے ہو جس طرح جماعت کے دفتر میں آتے ہو؟ ان کی عادت تھی کہ ہاتھ میں ٹشو لے کر چلتے تھے اور منہ کو صاف کرتے رہتے تھے۔ آخر وقت تک جب تک وہ ہوش میں رہے، ہسپتال کے وارڈ میں بھی ان کا ہاتھ جب پورا اٹھتا بھی نہیں تھا تب بھی ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ہاتھ میں ٹشو لے کر منہ کے قریب لاتے تھے کہ اس سے صاف کرلیں۔ ان کی طبیعت میں جو نفاست تھی یہ بہت اہم بات ہوتی ہے۔ مسکرا کر دیکھتے تھے تو ہم تو وہیں ختم ہوجاتے تھے۔ سبھی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا سب سے ہی قلبی تعلق تھا۔
منور حسن صاحب کراچی میں ایم کیو ایم کی فسطائیت کے خلاف بھرپور مزاحمت کی علامت تھے۔ اور اس پر انہوں نے بہت سخت اور دوٹوک موقف رکھا۔ جب ایم کیو ایم بنی تھی اس کے ساتھ عوام تھے، لوگوں کی اس سے وابستگی گہری تھی۔ اس وقت تو منور حسن صاحب ایم کیو ایم سے رابطہ رکھتے تھے، اس سے اختلاف تب بھی تھا، اور پھر جماعت ہی نے اس کا مقابلہ بھی کیا۔ مجھے یاد ہے انہوں نے واقعہ سنایا تھا کہ جب ایم کیو ایم نے جمعیت کے لڑکوں کو ٹارگٹ کرنا شروع کیا اور کالجوں میں باہر کے لوگوں کے ساتھ حملے شروع کیے، نوجوانوں کو شہید کیا، گلیوں، محلوں میں جماعت کے لوگوں پر حملے کیے، دفاتر پر فائرنگ روزانہ کی بنیاد پر کرتے تھے، تو ایک دن منور صاحب ایسے ہی نائن زیرو چلے گئے۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب ایم کیو ایم کے ساتھ عوام کا ایک زبردست ریلا تھا۔ لوگ اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کے ساتھ نعرے لگاتے ہوئے جارہے ہوتے تھے، اپنا کلچر بھول گئے، اپنی تہذیب بھول گئے، شرافت بھول گئے، لوگوں پر ایک طرح کا خمار تھا۔ تو اُس وقت منور حسن صاحب اس کے دفتر پہنچ گئے اور کہا کہ میں الطاف حسین سے ملنا چاہتا ہوں۔ ان کو خاصی دیر بٹھایا گیا۔ بہرحال وہ آگئے۔ جی منور بھائی! تب منورصاحب نے کہا کہ اب آپ جیت گئے ہیں اور ہم ہار گئے ہیں، اور آپ کے پاس مینڈیٹ آگیا ہے، آپ بھی کام کریں اور ہمیں بھی کام کرنے دیں۔ اب یہ کیا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر جھگڑے ہوں، روزانہ کی بنیاد پر آپ لوگوں کو قتل کریں، شہید کریں، زخمی کریں اور روز ہمارے پاس یہ خبریں آئیں، تو یہ سلسلہ ختم کریں۔ آپ جیتے، ہم آپ کو مبارکباد دیتے ہیں۔ آپ کراچی کے لوگوں کے لیے کام کریں، ہم آپ کی جیت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن کم از کم شہر کا کلچر تو سیاسی رہنے دیں، ورنہ کیا بچے گا اس میں؟ تو الطاف حسین نے تالیاں بجائیں جو ان کا اسٹائل تھا، ایک رجسٹر منگوایا، دوسرا رجسٹر منگوایا۔ کھولو بھئی! نارتھ ناظم آباد کے فلاں بلاک کے اندر خواتین کا ایک درس ہوتا ہے، آپ اس کو بند کردیں۔ فلاں جگہ پر یہ ہوتا ہے اس کو آپ بند کردیں۔ یہ ساری باتیں انہیں بتائیں اور منور حسن صاحب سنتے رہے۔ یہ سب بند کرو، کراچی سے بوریا بستر سمیٹو، ہم جیت گئے اب آپ جائیے! پھر اس پر منور حسن صاحب نے کہا کہ جماعت کا کام تو ختم نہیں ہوگا، آپ کو جو کرنا ہے کرلیجیے، ہم اپنا کام تو نہیں چھوڑیں گے، دیکھتے ہیں اللہ مالک ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ مجھے پتا نہیں تھا کہ میں واپس پہنچوں گا یا نہیں پہنچوں گا۔ دنیا کی کسی بھی طاقت کے ہاتھ میں زندگی اور موت کا فیصلہ نہیں ہوتا چاہے وہ کتنا ہی قتل عام کرادے۔ مشیتِ الٰہی سے ہی بندہ مرتا ہے۔ اور یہ وہ بات تھی جو کہ منور حسن صاحب جانتے تھے۔منور صاحب نے اس کے بعد بھی رابطہ نہیں چھوڑا۔
اور پھر ہم نے دیکھا 1992ء میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن ہوا۔ آپریشن کے خلاف سب سے زیادہ اگر کسی نے آواز بلند کی تو وہ پروفیسر غفور احمد اور سید منور حسن صاحب تھے۔ ان کا موقف تھا کہ یہ ناجائز اور غلط ہے، اس طرح سے آپریشن کرکے آپ کراچی کے لوگوں کو تباہ نہیں کرسکتے۔ بعد میں نصیر اللہ بابر کی منور صاحب سے بڑی طویل ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں نصیر اللہ بابر نے کہا کہ سب سے زیادہ تنگ آپ لوگوں نے کیا ہے، جس دن ہم کوئی کارروائی کرتے تھے تو پروفیسر غفور احمد صاحب اس کی مخالفت کرتے تھے کہ فلاں آبادی کے اندر رینجرز کیوں داخل ہوگئی؟ یہ جماعت اسلامی کا اپنے مخالفوں سے رویہ تھا۔ یعنی حق اور سچ کی بنیاد پر ہم ایم کیو ایم کے مخالف اور ساتھ کھڑے رہے۔
منور حسن صاحب کو شاعری سے بھی خاصا شغف رہا۔ ان کی محفلیں جن میں وہ اشعار پڑھا کرتے تھے، اور پرانے احباب بتاتے ہیں کہ وہ ترنم میں پڑھا کرتے تھے، نظمیں بھی پڑھا کرتے تھے جس سے ہم محروم رہے۔ زمانہ طالب علمی میں بہت اچھے مقرر تھے، انگریزی اور اردو دونوں مقابلوں میں حصہ لیا کرتے تھے۔ ان کے صاحب زادے طلحہ حسن نے جب ان کی ڈائریاں دکھائیں تو معلوم ہوا کئی کئی صفحات اچھے اشعار، نظموں اور غزلوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
ہمارے سامنے ان کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح تھی۔ ہم نے تو ان کی پوری زندگی میں یہی دیکھا کہ وہ اس بات کا حد درجہ لحاظ رکھتے تھے کہ اگر جماعت کی کوئی چیز اپنے کام کے لیے استعمال کررہے ہوتے تھے تو اس کو کسی بھی قیمت پر ری فنڈ کرتے تھے۔ اب یہ بات بڑی نزاکت والی ہے۔ یہ فتویٰ کی بات نہیں ہے بلکہ تقویٰ کی بات ہے۔ مثلاً یہ کہ جماعت نے اگر گاڑی انہیں دی، اب اس کے سوا آپ کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے کہ آپ کسی اور چیز میں سفر کریں، اس لیے کہ آپ کا وقت بھی بہت قیمتی ہے۔ تو گاڑی کا استعمال تو وہ کرتے تھے لیکن ایک اندازہ لگاکر کہ کتنا میرا ذاتی استعمال ہے اور کتنا جماعتی استعمال ہے۔ اس کے لیے باقاعدہ رقم جمع کراتے۔ اور یہی طرزِعمل جماعت کے دیگر بزرگوں کا بھی رہا ہے۔ مولانا کے زمانے سے یہ رواج ہے اور آج بھی الحمدللہ میں دیکھتا ہوں کہ یہ برقرار ہے، اور انہی لوگوں کی سکھائی ہوئی چیزیں ہیں۔ لیکن جتنی احتیاط وہ کیا کرتے تھے وہ کمال کا عروج ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جس دور میںمیں لاہور میں تھا، میری جمعیت کی ذمہ داری تھی، تو ان سے ملاقات ہوتی تھی۔ وہ کچھ پرچیاں اور کچھ کاغذ لفافے میں بند کرکے اسٹیپل کرکے شمیم صاحب (ادارہ نور حق) کو بھجوایا کرتے تھے کہ یہ انہیں دے دینا، اور پھر اس کے بارے میں معلوم کرتے تھے، پھر شمیم صاحب سے پوچھتے تھے۔ کبھی ان کا فون آتا تھا۔ مطلب یہ کہ چند گھنٹوں میں وہ انہیں دینا ہی پڑتا تھا۔ اور پھر جب میں نے شمیم صاحب سے یہ بات پوچھی، جو منور صاحب کے بہت ہی قریبی ساتھی تھے کہ یہ کیا چیزیں بھجواتے رہتے ہیں آپ کو؟ تو کہتے کہ یار کبھی ان کے کپڑوں کی دھلائی کے پیسے ہوتے ہیں، وہ بھجوا رہے ہوتے ہیں، کبھی اپنے گیس و دیگر اخراجات کے پیسے بھجوا رہے ہوتے ہیں، کبھی پیٹرول کی قیمت کے پیسے بھجوا رہے ہوتے ہیں۔ کراچی میں اگر استعمال کرتے تھے تو کراچی جماعت کے بیت المال میں جمع کراتے تھے، اور اگر مرکز میں ہوتے تھے تو وہاں جمع کراتے۔ جب ان کے انتقال کے بعد میرا منصورہ جانا ہوا تو اٹھارہ سال جس ساتھی نے ان کی خدمت کی وہ بہت ہی کم گو نوجوان ہے، لیکن اس کی آنکھیں بتا رہی تھیں اور جس طرح اس نے کہا کہ حافظ صاحب! شاہ صاحب چلے گئے، تو دل کٹ کر رہ گیا۔ اور جب انہوں نے بتایا کہ میری ان کے ساتھ ایسی رفاقت تھی اور وہ ہر مہینے کے اختتام پر ایک تفصیلی پرچہ بناکر میرے ہاتھ میں تھما دیتے تھے اور اس کے حساب سے ادائیگیاں کرتے تھے۔ ایک ایک چیز اس میں لکھی ہوتی تھی… چائے کیا، پانی کیا اور فلاں کیا۔ اب یہ احتیاط کون کرسکتا ہے! جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ کہ اس کا پروپیگنڈا نہیں تھا، اس میں کوئی تصنع نہیں تھا، یہ ان کی زندگی کا ایک حصہ تھا اور یہی سب سے اہم بات ہے کہ جو کام بھی کرو اللہ کے لیے کرو۔ دکھاوا اور بناوٹ بے کار ہے۔
وہ تقریر کرتے تھے تو دلوں کے تار چھیڑ دیتے۔ عوامی اجتماع ہوتا تو انداز جدا، اور تربیت و تزکیہ کی گفتگو ہوتی تو بالکل علیحدہ انداز… ان کے بارے میں لوگ بتاتے ہیں کہ ستّر کی دہائی میں جو تحریکیں چلتی تھیں اور قومی اتحاد کی جو تحریک تھی تو جہاں منور حسن صاحب ہوتے تھے مجمع وہاں کھنچا چلا جاتا تھا، رات رات بھر جلسے چلتے تھے۔ تو منور صاحب کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی طور پر متنوع قسم کی صلاحیتوں سے نوازا تھا اور یہی ان کا خاصہ تھا۔
منور صاحب کے اندر یہ اضطراب نہیں دیکھا کہ کچھ نہیں ہورہا، کام نہیں ہورہا، کیا بنے گا، کب انقلاب آئے گا، اب انقلاب آجانا چاہیے۔ یہ سب باتیں وہ نہیں کرتے تھے۔ ان کا مسئلہ انقلاب تھا بھی نہیں۔ ان کا مسئلہ انقلابی جدوجہد تھا۔ ان کا نظریہ یہ تھا کی انقلابی جدوجہد ہونی چاہیے، نظاموں کی کشمکش میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان کے اندر پریشانی کوئی نہیں تھی کہ کیوں نہیں آیا انقلاب۔ ہاں یہ پریشانی تھی کہ لوگ انقلابی کیوں نہیں ہوتے، لوگ نظام میں جذب کیسے ہوجاتے ہیں؟ لوگ اس کا حصہ کیسے بن جاتے ہیں؟ ایک نظریہ اور نظریاتی اقامتِ دین کی تحریک کامیاب ہو یا ناکام ہو… اس کے گرد اپنی پوری زندگی گزارنا، اس کے جو تقاضے ہیں اللہ تعالیٰ سے تعلق کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ اس حوالے سے ان کی زندگی مشعلِ راہ ہے۔