میاں طفیل محمد ؒجماعت اسلامی کے اکابرین میں ایک نمایاں حیثیت کے مالک تھے۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان جیسی شخصیت اور مزاج کے حامل لوگ اب خال خال دیکھنے کو ملیں گے۔ الفاظ کا ذخیرہ زیادہ دیر تک اور دور تک ساتھ نہیں دیتا وگرنہ درویش صفت کہنا، فقیر منش کا عنوان دینا، سادگی کا ان پر ختم ہوجانا اور للہیت کا پیکر ہونا، مزید یہ کہ بے غرضی اور بے نفسی کا سراپا ہونا ایسی صفات ہیں جو گفتگو اور تحریر میں باربار گنوائی گئی ہیں، فی الحقیقت میاں صاحب مرحوم ان تمام صفات اور خصوصیات کا مرقع تھے۔ میاں صاحب پر اللہ کا کرم ہوا کہ ان کا تعارف سید مودودی ؒ سے ہوگیا اور مولاناؒ کو ایک بے ریا، محنتی، فرض شناس اور حقیقی معنوں میں متقی کارکن میاں صاحبؒ کی شکل میں انعامِ خداوندی کے طور پر مل گیا۔ دنیوی لحاظ سے تو یہ سراسر گھاٹے کا سودا تھا کہ شاندار تعلیمی کیریئر، اپنی ریاست میں پہلا مسلمان وکیل جس کے سامنے بے شمار مواقع و امکانات ہاتھ باندھ کر کھڑے تھے، اور ریاست کا راجا مُصر تھا کہ ہائی کورٹ کی ججی دلوا دے گا، مگر وہ میاں طفیل محمد ہی کیا جو ان چیزوں میں الجھ جاتے! یہ ساری باتیں فی الحقیقت ان کی نظر میں فروعات کی حیثیت رکھتی تھیں، اصل بات فریضہ اقامتِ دین تھا۔ یہی ان کی بابرکت زندگی کا نصب العین اور جلی عنوان بنا۔ اس نصب العین کی معرفت انھیں سید مودودیؒ سے حاصل ہوئی۔ اس لیے وہ ساری عمر کے لیے سید علیہ الرحمہ کے احسان مند بھی ہوئے اور نیازمند بھی۔ میاں صاحب ؒ بلاشبہ اُن لوگوں میں سے ہیں جن کے سامنے دنیااپنی ساری رعنائیوںکے ساتھ لبھانے کے لیے کھڑی تھی، مگر اس مردِ درویش نے اس پر ایک نگہ غلط اندازبھی ڈالنا گوارا نہ کیا۔سچ بھی یہی ہے کہ جو آدمی یکسو ہوجائے اور اپنے مقصد ِحیات کی معرفت حاصل کرلے اُس کے سامنے دنیا کی حیثیت مُردار سے زیادہ نہیں ہوتی۔ علامہ اقبالؒ نے میاں صاحب جیسے لوگوں کے لیے کہا تھا:
نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے؟
بظاہر میاں صاحبؒ نے عسرت اور تنگ دستی سے زندگی گزاری، مگر عشقِ الٰہی سے سرشار لوگوں کا نشہ کوئی ترشی اتار نہیں سکتی۔ سید مودودی ؒ سے ان کی محبت اور عقیدت کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ میرے محسن ہیں اور مجھے ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے آئے ہیں۔ جس شخص کے ذریعے انھوں نے زندگی کے نصب العین کو سمجھا اور زندگی کے مقاصد کو پہچانا، اور جس شخص کے ذریعے ان میں دنیاداری سے بہت دور اپنے آپ کو بسانے اور دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کا جذبہ بیدار ہوا، اس کی قدر و منزلت، دل و دماغ کی دنیا میں اس کا مقام، اور اس سے تعلقِ خاطر، بلاشبہ یہ احسان شناسی ہے اور ساری عمر ”مرہونِ منت“ رہنے کا عنوان بھی۔ یہ میاں طفیل محمدؒ کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو ہے جو انسانی قدروں اور اخلاقیات کے ہر تقاضے کو پورا کرتا دکھائی دیتا ہے۔
میاں طفیل محمدؒ اپنی سوچ اور فکر کے اعتبار سے پختہ رائے کے حامل کہے جا سکتے ہیں۔ رائے قائم کرنے میں جس بصیرت و بصارت اور فراست کی ضرورت ہوتی ہے، میاں صاحب ان تمام حوالوں سے آراستہ و پیراستہ تھے، اور کبھی کبھی سخت گیری کی حد تک بھی اپنی رائے پر عمل درآمد کے لیے کوشاں نظر آتے تھے۔ تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ اپنی رائے کو پیش کرنے اور کسی مجلس سے اس کی ہمنوائی حاصل کرنے میں جس ملکہ اور جن خصوصیات کی ضرورت پڑتی ہے، بظاہر میاں صاحبؒ کی شخصیت میں ان کی کمی محسوس ہوتی تھی، اور وجہ یہ ہے کہ معروف معنوں میں وہ زبان آور یا چرب زبان نہیں تھے، اکل کھرے آدمی تھے۔ کم لوگ اس بات کو پوری طرح جانتے ہوں گے کہ میاں صاحب کی تحریر میں جو جامعیت اور شستگی تھی، ان کی زبان و بیان ہرگز اس کا پاسنگ نہ تھے۔ ان کی تحریر میں بلاغت، سلاست اور جامعیت، سبھی کچھ پایا جاتا ہے۔ تقریر یا گفتگو میں ان کا لہجہ کچھ اور تھا۔ ان کی تحریر میں بعض دفعہ تو سید مودودیؒ کا رنگ جھلکتا نظر آتا تھا۔ جن لوگوں نے میاں صاحب کی املا دیکھی ہے، وہ گواہی دیں گے کہ اس میں بھی سید مودودیؒ کے ساتھ مشابہت موجود تھی۔ اگر میاں صاحب لکھنا شروع کردیتے تو بلاشبہ آسانی سے مصنفین کی صف میں شامل ہوسکتے تھے، مگر پھر جماعتی ذمہ داریاں کیسے پوری ہوتیں! اس معاملے میں میاں صاحب کی شخصیت اپنے مقصدِ زندگی کے سوا باقی معاملات سے بے نیاز نظر آتی ہے۔ ابتدا ہی سے جماعت اسلامی کی تنظیمی ذمہ داریوں، رپورٹوں، ان پر تبصروں اور معاملات و تنازعات کو نمٹانے میں اس حد تک ڈوب کر اپنے آپ کو پانے کا عمل جاری رہا کہ سرکھجانے کی فرصت میسر نہ آتی تھی، اس پر مستزاد تنظیمی دوروں، کارکنوں کی خبرگیری، ان کے دکھ درد سے آشنا ہونے اور ان کی سیرت و کردار کے ہر جھول کو دور کرنے میں میاں صاحب ؒاس قدر مصروف رہے کہ قلم و قرطاس کے ذریعے اپنی تحریر کا ذوق لوگوں میں پیدا نہ کرسکے۔ جماعت اسلامی کی رودادوں میں اور بعض دیگر مقامات اور عنوانات کے حوالے سے ان کی بعض تحریریں یا تقریریں دیکھنے کو ملتی ہیں جو ان کے ذہنِ رسا کی گواہی دیتی ہیں۔’دعوتِ اسلامی اور اس کے مطالبات‘ میں ان کا مضمون اس کے باوجود کہ وہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور مولاناامین احسن اصلاحیؒ کے مضامین کے ساتھ طبع ہواہے،اپنی انفرادیت منواتا ہے اور ہر پڑھنے والے سے داد وصول کرتا ہے۔
مجھے ان کی زندگی کی کتاب کے ان گنت اوراق اپنے سامنے کھلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی پوری زندگی مربوط کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جیسے میاں صاحب ؒ نے نماز کو اپنی زندگی کا امام قرار دیا ہوا تھا۔ انھیں نماز پڑھتا دیکھ کر پتا چلتا تھا کہ خاصانِ خدا کی نماز کیسی ہوتی ہے۔ ان کی کتابِ زندگی کی ورق گردانی کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ان کی زندگی کا محور نماز ہے، اور نماز کے پرتو سے ان کی زندگی جگمگا اٹھی ہے۔ جس اہتمام و تیاری سے اور جس درجہ ڈوب کر انھیں ہمیشہ نماز پڑھتے دیکھا گیا اور نماز کو باجماعت پڑھنے کی حرص کو ہمیشہ بیدار پایا گیا، وہ دیکھنے والے کو حیرت کا مجسمہ بنادیتا تھا۔ میاں صاحب اول و آخر جماعت تھے۔ نماز میں بھی باجماعت نماز کے حریص تھے، اور خشوع و خضوع ایسا کہ اِدھر میاں صاحب نے اٹھ کر نیت باندھی اور اُدھر ان کا رابطہ دنیا سے منقطع ہوگیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی دوسری ہی دنیا میں پہنچے ہوئے ہیں۔ اس قدر ڈوب کر نماز پڑھتے تھے کہ خشوع وخضوع گویا ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ میاں صاحب کو اس عالم میں دیکھ کر کارکنوں کی نمازوں میں بھی نکھار پیدا ہوتا تھا۔ اس طرح کی نماز بندے کا اپنے رب سے براہِ راست رابطہ قائم کروا دیتی ہے۔ یہ چیز حاصل ہوگئی تو دونوں جہانوں کی دولت نصیب ہوگئی۔ اپنی عمر کے آخری حصے میں بینائی سے محرومی کی وجہ سے خود مسجد میں نہیں آسکتے تھے۔ ان کے بیٹے اور بعض اوقات پوتے ان کو مسجد لاتے تھے۔ یہ لوگ بتاتے ہیں کہ میاں صاحبؒ ان کی اس خدمت پر اتنا شکریہ ادا کرتے تھے کہ یہ لوگ شرمندہ ہوجاتے۔ میاں صاحبؒ اس حوالے سے انفرادیت کے حامل تھے کہ جب نماز کے لیے آتے تو جہاں جگہ ملتی، وہیں نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ کبھی کبھی پچھلی صف میں کھڑے ہوئے، کسی کی نظر پڑ گئی تو اس نے پہلی صف میں جگہ پیش کی تو بڑی مشکل سے اس طرح کی پیشکش قبول فرماتے۔ میاں صاحب ؒ کی خوش قسمتی کا کیا ٹھکانہ کہ انھوں نے اپنی زندگی کی آخری نماز بھی باجماعت ادا کی اور اس روز سب ملنے والوں سے بڑی بشاشت سے ملے اور سب کو دعائیں دیں۔ اسی طرح انھوں نے اپنی زندگی کے آخری رمضان کی تراویح مسجد میں آکر پڑھی اور پورا قرآن کھڑے ہوکر سنا۔ ان کی زندگی سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ نماز سے اس میں نکھار پیدا کیا جائے اور پھر نکھری سنوری زندگی سے نماز کو ’کل سے بہتر آج، اور آج سے بہتر ہوکل‘ کا عنوان دیا جائے۔
میاں طفیل محمدؒ نے ایک لمبی عمر پائی اور لمبی عمر کی جتنی آزمائشیں ہوتی ہیں، ان سب سے وہ دوچار رہے۔ بینائی کا ختم ہوجانا، سماعت کا حد درجہ متاثر ہونا، جسم وجان کی توانائیوں کا ڈھلان پر چل پڑنا وغیرہ وغیرہ… لیکن ان حوالوں میں سے کوئی حوالہ ان کے لب ولہجے میں تندی و ترشی پیدا نہ کرسکا، اور گلے شکوے کا کوئی پیرایہ ڈھونڈے سے بھی نہ مل سکا۔ میاں صاحبؒ ہمیشہ راضی برضا نظر آئے، صبر وتحمل کا کوہِ گراں دیکھے گئے، اور کسی سطح پر بھی احتجاج اور آزار کا پہلو دیکھنے میں نہ آیا۔ کم و بیش چھیانوے سال عمر پانے والا ایک شخص زندگی کے آخری لمحے تک صبر و رضا کا پیکر رہے تو اسے کیا نام دیا جائے اور شخصیت کے اس دریا کو کس کوزے میں بند کیا جائے! انسانی سطح پر یہ کردار اللہ تبارک وتعالیٰ کی صفات پر گہرا ایمان رکھنے، اس کے ہر فیصلے پر راضی رہنے اور اسی سے خیر و صلے کی بھرپور توقع رکھنے والے کا ہی ہوسکتا ہے۔
جماعت اسلامی کی امارت سے فراغت کے بعد بھی تقریباً بائیس سال تک میاں صاحب ؒ جماعت میں رکنیت کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔مجھے یاد ہے کہ جب 1993ءمیں پالیسی مسائل پر اختلافات ابھرے تو کئی اہم اور پرانے ذمہ دار حضرات الگ جماعت بنانے کے لیے کوشاں نظر آئے اور سب کو یہ بات واضح طور پر معلوم تھی کہ اس خلفشار میں میاں صاحبؒ کی شخصیت فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔ اختلافِ رائے اور اظہارِ رائے میں وہ پیش پیش بھی تھے، لیکن ایک ایسی مجلس میں جس میں بالآخر نئی جماعت بنانے کا فیصلہ ہوناتھا، میاں صاحب محترم نے یہ کہہ کربہت سوںکو ورطہ حیرت اور بعض کو سکتے میں ڈال دیاکہ ” ہم الگ جماعت کیوں بنائیں، ہماری جماعت تو جماعت اسلامی ہے، اگر اس میں خرابیاں ہیں تو ہم انھیں دور کریں گے، اگر یہ اپنی منزل سے ہٹ رہی ہے تو اصلاح کریں گے“۔ مزیدارشاد فرمایا”اب سے پہلے جو لوگ جماعت سے الگ ہوئے اور ان میں سے بعض نے نئی جماعت بنانے کی کوشش کی، ان سب کی کارکردگی اور انجام کس سے مخفی ہے! لہٰذا ہم اندھیرے میں تیر چلانے کے بجائے جو کچھ نظروں کے سامنے ہے،اس کی کمزوری کو رفع کریں گے اور پوری جماعت کو صحیح رخ پر استوار کریں گے“۔میاں صاحب کے اس عزم نے اَن گنت لوگوں کو اپنی رائے پرنظرثانی کرنے پر مجبور کیا۔اس کے بعد 16 سال تک میاں صاحبؒ جماعت میں رہے، خود بھی یکسوئی اور انشراحِ صدر کا پیکر بنے رہے اور جماعت کے ذمہ داران کو بھی تمام امور میں مشورہ دیتے رہے اور ان کے کیے کی تحسین کرتے رہے۔شفقت اور سرپرستی کا مظاہرہ بھی جاری رہا اور کہنے سننے کے دروبست بھی کھلے رہے۔غرض میاں طفیل محمدؒ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، اپنی سوچ اور فکر میںتحریک اور انقلاب تھے، اور اپنے عمل اور جستجو میں بامقصد اور باعمل تھے۔ ایک پورا دفتر اُن کی زندگی کے مختلف گوشوں کو بیان کرنے کے لیے کھولا جاسکتاہے۔ انفرادی سطح پرخوشہ چینی اور اُن سے سیکھنے کے اَن گنت حوالے موجود ہیں۔ اور یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ:
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا