سیاسی اخلاقیات کا جنازہ

قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہبازشریف بجٹ 2021-22ء پر اپنی تقریر جس طرح چار دنوں میں مکمل کرپائے، اور اس کے بعد بلوچستان اسمبلی میں بجٹ پیش ہوتے ہوئے جو صورتِ حال دیکھنے میں آئی اُس نے ہماری سیاست، حکومت اور اپوزیشن کی اخلاقی حیثیت کے ساتھ ساتھ نظر آنے والے اداروں اور بظاہر نظر نہ آنے مگر ان تمام تماشوں کو بسا اوقات منظم اور ہمیشہ مانیٹر کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کی اخلاقی حیثیت کا جنازہ بیچ چوراہے میں لاکر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ ماضی میں بھی ہماری سیاسی جماعتوں کی اخلاقی حیثیت ہمیشہ مفادات اور مصلحتوں کے تابع رہی ہے، لیکن ہر روز جو نئے سیاسی تماشے ہورہے ہیں ان میں شدومد سے یہی کہا جارہا ہے کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ حالانکہ ہم اپنے ماضی کو کھنگالیں تو ماضی میں بھی ایسے واقعات یا اس طرح کے مقاصد کے حامل ایکشن باآسانی مل جائیں گے۔
یہ درست ہے کہ پہلی بار حکومتی ارکان نے لیڈر آف دی اپوزیشن کو بجٹ تقریر نہیں کرنے دی۔ چنانچہ اسپیکر کو بار بار اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔ اگرچہ اس ہنگامے کو خود اپوزیشن ارکان بھی بڑھاوا دے رہے تھے۔ اگر حکومتی ارکان شور شرابہ کررہے تھے تو اپوزیشن ارکان خاموشی سے اپنے لیڈر کی بات سن سکتے تھے۔ اس طرح شاید پہلی بار اپوزیشن لیڈر چار دن میں اپنی تقریر مکمل کرپائے، کہ حکومتی ارکان نے انہیں اتنی طویل تقریر کرنے کا بہانہ فراہم کردیا تھا، ورنہ اگر اُن کی بجٹ تقریر کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے اور تجزیہ کیا جائے تو اس میں بمشکل 15 سے 20 منٹ کی تقریر بجٹ پر ہے۔ باقی الزامات، دشنام طرازی اور اپنی سابقہ حکومت کے کارنامے گنوائے گئے ہیں۔ اس سے اپوزیشن لیڈر کی بجٹ سے دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ انہوں نے وزیر خزانہ کی تقریر دلچسپی سے سنی، نہ پڑھی، نہ ہی اس پر ساتھیوں اور ماہرین سے کسی مشاورت کی ضرورت محسوس کی۔ چنانچہ ان کی تقریر کسی منجھے ہوئے سیاست دان کی نہیں بلکہ ایک عام آدمی کی تقریر ہے۔ رہی سہی کسر حکومتی ارکان نے ہنگامہ کرکے پوری کردی کہ اگر اپوزیشن ہماری تقریریں نہیں سنتی تو ہم بھی لیڈر آف دی اپوزیشن کو تقریر نہیں کرنے دیں گے۔
اگر پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو کم از کم 1970ء کے بعد سے اب تک ہر اپوزیشن وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے دوران شور شرابا کرتی ہے، البتہ اپوزیشن لیڈر آرام سے تقریر کرجاتے تھے، لیکن نئی روایت کے تحت اب ایسا نہیں ہوگا۔ اس سے ہماری سیاسی اخلاقیات کا اندازہ لگائیے کہ اپوزیشن جماعتیں بجٹ سننے، اس پر غور کرکے اعداد و شمار کے ساتھ ان کے نقائص گنوانے کے بجائے صرف شور شرابہ کرنے بجٹ اجلاس میں آتی ہیں۔ یہی کام اب حکومت نے شروع کردیا ہے، اور کوئی فرد یا ادارہ حکومت اور اپوزیشن سے یہ نہیں پوچھ رہا کہ آپ کو عوام نے اپنے مسائل خصوصاً معاشی مسائل کے حل کے لیے ایوان میں بھیجا ہے، جہاں آپ کو تنخواہ، مراعات، ٹی اے ڈی کی شکل میں کروڑوں نہیں اربوں روپے کی ادائیگی بھی کی جاتی ہے، مگر آپ بجٹ جیسے سنجیدہ موضوع پر بھی اس قدر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں! کاش کوئی ادارہ اس کا نوٹس لے، یا کوئی بندۂ خدا یہ معاملہ عدالت میں لے کر جائے کہ اگر ارکان کو بجٹ یا دوسرے مواقع پر سنجیدہ اور ٹھوس کام کرنے کے بجائے ہنگامہ آرائی کرنی ہے تو ان دنوں کی اُن کی تنخواہیں اور مراعات روک لی جائیں۔ ہماری پارلیمانی اور سیاسی اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ 1970ء کی اسمبلی سے قائدِ حزبِ اختلاف مفتی محمود، پروفیسر غفور، شیرباز مزاری، خان عبدالولی خان اور دیگر اپوزیشن ارکان کو مارشل ایٹ آرمز کے ذریعے اس ایوان سے باقاعدہ اٹھا کر باہر پھنکوا دیا گیا تھا، جہاں انہیں عوام نے منتخب کرکے بھیجا تھا۔ 1954ء میں مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں ارکان نے ڈپٹی اسپیکر کو اس قدر مارا کہ وہ ایوان کے اندر ہی دم توڑ گئے۔ اب اس طرح کے واقعات میں نئے اضافے بھی ہورہے ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں بھی منفرد نوعیت کی ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی۔ جن ارکان کو عوام نے بجٹ بنانے اور اس میں عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے ایوان میں بھیجا تھا، انہوں نے بجٹ اجلاس کے موقع پر بلوچستان اسمبلی کے دروازوں پر ہی تالے ڈال دیے۔ چنانچہ حکومت نے بکتربند گاڑی کے ذریعے گیٹ توڑ کر تھوڑا بہت راستہ بنایا، لیکن ہنگامہ اس قدر تھا کہ اسپیکر کو باہر ہی سے واپس بھیج دیا گیا۔ میڈیا کے مطابق ایوان میدانِ جنگ بنا رہا، جس سے تین ارکان بھی زخمی ہوئے۔ وزیراعلیٰ سخت حفاظتی حصار میں پہنچے تو اُن پر جوتا اچھالا گیا، بوتل ماری گئی اور گملا پھینکا گیا۔ جوتا اور بوتل تو انہیں نہ لگ سکی، البتہ گملا پھینکنے والے کا نشانہ اچھا تھا جو اپنے ہدف تک پہنچ گیا۔
ہماری سیاسی اخلاقیات میں سیاست دانوں اور ارکان کو جوتا مارنے کی روایت بھی نئی نہیں ہے۔ سندھ اسمبلی میں ڈاکٹر ارباب غلام رحیم وزارتِ اعلیٰ سے سبکدوشی کے بعد اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے آئے تو ان کو باقاعدہ کئی جوتے مارے گئے۔ یہ کام ارکانِ اسمبلی کررہے تھے، ورنہ پبلک جلسے میں تو وزیراعظم نوازشریف کو بھی جوتا مار دیا گیا تھا، اور اب رہی سہی کسر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اسپیکر ڈائس کے سامنے پہنچ کر یہ اعلان کرکے پوری کردی کہ میں آپ کو جوتا ماروں گا۔ یعنی اسپیکر کو جوتا مارنے کی دھمکی دی، مگر نہ توان کی پارٹی نے اس پر اُن سے بازپرس کی، نہ انہوں نے کوئی معذرت کی، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ خود اسپیکر بھی ان کے خلاف اپنے اعلان کے باوجود کچھ نہیں کرسکے۔
اس ساری صورتِ حال سے جہاں ہماری سیاسی جماعتوں اور پارلیمان کی اخلاقی حیثیت کا پتا چلتا ہے، وہیں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ شاید ان میں سے بیشتر منفی اور قابلِ شرم اقدامات یا تو اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے ہوتے ہیں، یا پھر اسٹیبلشمنٹ بعد میں ان پر مٹی ڈال دیتی ہے، کیونکہ اتنے بڑے بڑے معاملات پر بھی کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی جو یقیناً اسٹیبلشمنٹ نہیں ہونے دیتی۔ اب بلوچستان اسمبلی کے معاملات ٹیسٹ کیس ہیں، لیکن کسی کے خلاف کسی کارروائی کا امکان نہیں۔ البتہ اس طرح ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم اپنی پارلیمانی اور سیاسی تاریخ میں اخلاقی پستی کی نئی نئی روایات شامل کرتے رہیں گے۔