مقبوضہ کشمیر کے سیاست دانوں کو مودی کا بلاوا

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس 24 جون کو نئی دہلی میں طلب کی ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک یہ کانفرنس منعقد ہوچکی ہوگی۔ دی ہندو اخبار کی رپورٹ کے مطابق اِس وقت تک 14 جماعتوں کو ملاقات کی دعوت دی گئی ہے جن میں وادی کی وہ 6 جماعتیں بھی شامل ہیں جو ایک اتحاد پیپلزالائنس فار گپکار ڈیکلریشن میں شامل ہیں۔ ان میں نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، پیپلز کانفرنس وغیرہ شامل ہیں۔ جموں سے جن شخصیات کو مدعو کیا گیا ہے اُن میں غلام نبی آزاد اور پروفیسر بھیم سنگھ شامل ہیں۔ اس طرح دعوتِ ملاقات پانے والوں میں چار سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، غلام نبی آزاد اور محبوبہ مفتی شامل ہیں۔ تاحال یہ جماعتیں کل جماعتی کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے مشاورت کررہی ہیں۔ گمان غالب ہے کہ یہ جماعتیں کانفرنس میں شریک ہوں گی۔
بھارت میں کشمیری قیادت سے مشاورت کا یہ عمل پانچ اگست کو دوسال پورے ہونے کے موقع پر کیا گیا۔ یہ وہ عرصہ ہے جس میں بھارت کو کشمیر کی سرزمین پر کسی عملی چیلنج کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا، مگر بھارت کو کچھ ہوجانے کا خوف بدستور دامن گیر رہا۔ بھارت نے زور، زبردستی اور فوجی جمائو کے ذریعے کشمیر میں امن تو قائم کیا، مگر اس امن کی حیثیت پانیوں پر نقش کی سی رہی۔ پانچ اگست کے فیصلے سے بھارت نے اپنے طویل المیعاد نوآبادیاتی مقاصد کی طرف ایک اہم چھلانگ تو لگائی، مگر اس سے بھارت کے لیے بیرونی مسائل کا ایک پنڈورا باکس کھل گیا۔ اس فیصلے سے بھارت اپنے دو قریب ترین ہمسایوں میں مزید تنہا اور گھر کر رہ گیا۔ چین کے ساتھ مخاصمت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ گلوان وادی، پنگانگ جھیل اور ہماچل پردیش میں بھارت کو فوجی ہزیمت اُٹھانا پڑی، جبکہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو اس فیصلے کی واپسی سے مشروط کرکے خطے کی صورتِ حال کو مزید پیچیدہ بنادیا۔ اس طرح جنوبی ایشیا میں تین ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہیں۔
چین اور پاکستان نے اس نئی صورتِ حال کے مقابلے کے لیے ایک نئی حکمت عملی پر کام تیز کیا، جس کے مقابلے کے لیے بھارت اب دو محاذوں کی جنگی اسٹریٹجی اپنانے پر مجبور ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی بھارت پر کشمیر میں سیاسی عمل کی بحالی کے لیے دبائو موجود ہے۔ حالات کی اس بند گلی سے نکلنے کے لیے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی اُن جماعتوں اور شخصیات سے بھیک مانگنے کا فیصلہ کیا ہے جن کو وہ پانچ اگست کے فیصلے میں اپنا ہدف قرار دے چکا ہے۔ بھارت نے یہ مؤقف اپنایا تھا کہ پانچ اگست کا فیصلہ ان اجارہ دار سیاسی خاندانوں کے خلاف ہے جنہوں نے ترقی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے نہیں دیے۔ ان گھرانوں پر بدعنوانی کے الزامات بھی عائد کیے گئے تھے۔ جن عناصر کے خلاف انقلاب برپا کرنے کا دعویٰ کیا گیا، اب انہی سے اس انقلاب کو تقویت دینے کے لیے مدد مانگی جارہی ہے۔ اب بھارت نواز کشمیری قیادت کا امتحان ہے کہ وہ مودی کے دربار میں اپنا سب کچھ قربان اور نچھاور کرکے آتے ہیں، یا ریاست کی وحدت اور کشمیری تشخص کا مقدمہ لڑتے ہیں۔ قدرت نے انہیں تاریخ کی درست سمت میں کھڑا ہونے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے۔ حریت پسند کیمپ نے اس مشق کو کلی طور پر مسترد کیا ہے، اور اسے اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیا ہے۔