پاکستان کے عوام بالخصوص غریب طبقہ آنے والے بجٹ میں ریلیف کا منتظر تھا،کیونکہ گزشتہ دو تین برسوں میں پے درپے ہونے والی مہنگائی سے عوام اتنے بدحال اور مفلس ہوچکے ہیں کہ اپنے خاندان کو مرضی کا کھانا بھی نہیں کھلا سکتے۔ آٹا، سبزی، گھی اور چینی خریدنے کے بعد جیب خالی ہوجاتی ہے۔ حیرت ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزرا ملک کی معیشت کو کس حوالے سے مضبوط اور بہتر قرار دے رہے ہیں!، پارلیمنٹ کے اندر اسپیکر بھی ایوان چلانے کے لیے آزاد فیصلے نہیں کر پارہے۔ حالیہ بجٹ سیشن میں علی وزیر، خورشید شاہ اور خواجہ آصف کو اجلاس میں شریک کرانے کے لیے کوئی کوشش نہ کرکے معزز اسپیکر نے اپنے منصب کی بے توقیری کی، یہاں تک کہ وہ تین روز تک اسمبلی کو غنڈہ گردی کی نذر ہوتے بے بسی سے دیکھتے رہے۔ اب وہ ایوان کی عظمت اور اس کے گارڈین کی قسم کیسے کھا سکتے ہیں؟ پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف کو اقتدار کی منتظر حکومت سمجھا جاتا ہے، مگر بجٹ پر قائدِ حزبِ اختلاف سمیت حزبِ مخالف کی صفوں سے کوئی حقیقی تنقید نہیں ہوئی۔ ایک طویل عرصے سے یہ مشق جاری ہے کہ ملک کا وزیر خزانہ عوام کا منتخب رکن نہیں ہوتا۔ اگر کوئی منتخب رکن وزیر خزانہ بنایا بھی گیا تو اُسے کرسی پر بیٹھ کر تین سانس میں پانی پینے کی مہلت بھی نہیں ملی۔ بجٹ اب بھی آئی ایم ایف کی دی ہوئی گائیڈ لائن کے مطابق تیار ہوا ہے، اس کے باوجود ملک کو آئی ایم ایف کی جانب سے مسائل کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کے لیے 6 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈز سہولت چند ماہ کے لیے ملتوی کرچکا ہے، وہ قرض کی شرائط کے نفاذ سے مطمئن نہیں ہے۔ یہ فیصلہ ملکی معیشت کے لیے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ آئی ایم ایف قرض کے حوالے سے نچلی سطح کے معاہدے کا چھٹا جائزہ لیا جارہا تھا لیکن باہمی اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہوسکا۔ اب معاملہ ستمبر تک ملتوی کردیا گیا ہے۔ پاکستان میں آئی ایم ایف کے اہم ذرائع بھی کہہ چکے ہیں کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت بجٹ میں کیے جانے والے اعلانات پر کس قدر عمل درآمد کرتی ہے۔ آئی ایم ایف کا حالیہ رویہ افغانستان کی صورت حال سے اگرچہ براہِ راست تعلق نہیں رکھتا، تاہم اس فیصلے کے پیچھے سوچ یہی ہے کہ پاکستان پر دبائو بڑھایا جائے۔ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک بھی نئی سوچ اپنا چکے ہیں۔ معاشی امور میں اسٹرے ٹیجک معاملات شامل کرنے سے ہم پہلے ہی بڑے مسائل کا شکار ہیں اور اب مزید ہوجائیں گے۔ وزارتِ خزانہ کے خیال میں آئی ایم ایف اگست میں پاکستان سے بات چیت کرے گا۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(FATF) کا 5 روزہ اجلاس بھی شروع ہوچکا ہے جس میں 23 جون کو پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ پاکستان نے تمام 27 نکات میں پیش رفت سے متعلق رپورٹ جمع کرادی ہے۔ جو رپورٹ جمع کرائی گئی ہے اُس کے مطابق پاکستان نے انسدادِ منی لانڈرنگ کے لیے سخت قوانین بنائے ہیں، پاکستان نے 22 ہزار پراپرٹی ڈیلرز کی رجسٹریشن مکمل کی، یہ 22 ہزار پراپرٹی ڈیلرز مشکوک سرمایہ کار کی نشان دہی کریں گے، اور کالعدم تنظیموں کے اثاثے منجمد کیے گئے ہیں، ان تنظیموں تک سونے، زیورات اور پراپرٹی کی منتقلی روک دی گئی ہے، ملک بھر کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس مشکوک ترسیلات رپورٹ کریں گے، قومی بچتوں میں اصلاحات اور بڑی مالیت کے بے نامی بانڈ ختم کیے گئے۔
بجٹ کے اس پس منظر میں حزبِ اختلاف نے بھی لب نہیں کھولے۔ پارلیمنٹ میں بجٹ پر حالیہ بحث کے دوران بھی یہی کچھ ہوا۔ بجٹ پر بحث کے چار روز ہنگامے میں ضائع کردیے گئے، اور اپوزیشن نے ایوان میں اپنی عدم موجودگی میں حکومت کو انتخابی اصلاحات سمیت متعدد بل پاس کرنے کا موقع دیا۔ اب معاہدہ ہوا ہے کہ ان بلوں پر سینیٹ میں اپوزیشن اپنی ترامیم لائے۔ قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث یوں ہی آگے بڑھتی رہے گی، لہٰذا اب کٹوتی کی تحریکیں پیش کی جائیں گی جو حسبِ روایت یکسر مسترد ہوجائیں گی، اس کے بعد ضمنی گرانٹس پیش کی جائیں گی، اور بعد میں عوام کے منتخب نمائندوں کا ایوان آئی ایم ایف کی زیر نگرانی تیار ہونے والا بجٹ منظور کرلے گا، اور پھر عوام بجلی، تیل، گیس کے بلوں کی ادائیگی کے کولہو کے بیل بن جائیں گے۔
حزبِ اختلاف کو یہ خبر ہونی چاہیے تھی کہ حکومت نے یہ بجٹ اگلے انتخابات کی تیاری کے لیے دیا ہے۔ وفاق، پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے بجٹ میں 2002ارب روپے کے ریکارڈ سالانہ ترقیاتی پروگرام رکھے گئے ہیں۔ اب تحریک انصاف کے رہنما سال بھر ترقی کے منصوبوں کی تختیاں لگاتے نظر آئیں گے۔ اس بجٹ میں ترقیاتی پروگراموں کا اتنا بڑا حصہ رکھا گیا ہے کہ اگلی حکومت 2018ء سے بھی زیادہ مالی خسارہ ورثے میں پائے گی۔ حکومت کی آخری نصف مدت میں اب سب کے لیے این آر او ہوگا۔ آٹا، چینی چوری، پیٹرول، گیس، ادویہ، بی آر ٹی، مالم جبہ، بلین ٹری اور راولپنڈی رنگ روڈ جیسے کیس نہیں کھل پائیں گے، اور فیصل واوڈا کی نااہلی کا معاملہ بھی الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی ریٹائرمنٹ کے باعث تعطل کا شکار ہوجائے گا۔ یہ این آر او حکومت کی کچھ آئینی مجبوریوں کے باعث ہے کہ آنے والے چند ماہ میں حکومت کو الیکشن کمیشن میں دو ارکان کی تعیناتی سمیت نیب کے نئے چیئرمین کی تقرری کے لیے قائد حزبِ اختلاف کے ساتھ باضابطہ مشاورت کا عمل کرنا ہوگا، اس کے علاوہ حکومت انتخابی اصلاحات پر بھی حزب اختلاف کے ساتھ مشاورت کے لیے ایک میز پر بیٹھے گی، اور اگے سال پھر ملک میں نئے انتخابات کے لیے نگران حکومت کے قیام کی باتیں شروع ہوجائیں گی۔ یوں عملاً اس حکومت کے پاس اب صرف ایک سال رہ گیا ہے۔ قومی اسمبلی سے استعفوں کی دھمکی، تحریک عدم اعتماد… یہ سب حکومت پر دبائو بڑھانے کے حربے تھے۔ تحریک انصاف کی شروع دن سے یہ سیاسی حکمت عملی رہی ہے کہ مسلم لیگ(ن) میں وہ نوازشریف اور مریم نواز کو زندہ رکھے، کیونکہ ان دونوں کے بیانیے کی وجہ سے تحریک انصاف اپنے خالقوں کے لیے پسندیدہ اور قابلِ قبول رہ سکتی ہے۔ تحریک انصاف نے اپنی اس حکمتِ عملی کے ساتھ پہلی نصف مدت مکمل کرلی ہے، اور اب اسے آخری نصف مدت میں متعدد اہم آئینی امور طے کرنے ہیں، لہٰذا وہ خود بھی مفاہمت کی جانب بڑھ رہی ہے۔ تحریک انصاف کی لیڈرشپ یہ سمجھتی ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) حکومت کی برطرفی کے بعد جو ردعمل آیا ہے، اس سے فائدہ اٹھایا جائے، تاکہ اگر کسی کو اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنی بھی ہے تو وہ اپنی سوچ بدل لے کہ مسلم لیگ(ن) کی برطرفی کا ردعمل اور تحریک انصاف کے خلاف کارروائی کا ردعمل کہیں ایک ٹرک پر سوار نہ ہوجائے۔
جہاں تک انتخابی اصلاحات اور الیکٹرانک مشین کے ذریعے ووٹنگ کا معاملہ ہے، یہ کوئی سادہ سی بات نہیں ہے۔ یہ کم و بیش چھ کھرب کا معاملہ ہے، یہ چھ کھرب کس کی جیب سے کس کی جیب میں جائیں گے؟، انتخابی اصلاحات کے لیے ایک نکتہ نظر الیکشن کمیشن نے بھی دیا ہے، جس نے انتخابی اصلاحات کے بارے میں قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے بل کی حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں سمیت متعدد شقوں میں ترامیم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے وزارتِ پارلیمانی امور کو ایک خط لکھا گیا ہے جس میں وزیراعظم کے مشیر پارلیمانی امور کی طرف سے پیش کیے جانے والے بل کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ ’’بل میں الیکشن ایکٹ2017 میں 57ترامیم تجویز کی گئیں، اس بل پر الیکشن کمیشن کا مؤقف لیا گیا تھا جو بروقت وزارت کو دے دیا گیا تھا، جبکہ مجلس قائمہ کے اجلاسوں میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی موجود تھی، تاہم مجلسِ قائمہ نے8 جون کو الیکشن کمیشن کے نمائندے کو کمیشن کا مؤقف دینے کا موقع دئیے بغیر بل کو منظور کرلیا، بل وفاقی حکومت کی جانب سے متعارف کرائی جانے والی انتخابی اصلاحات کا بڑا پیکیج ہے، الیکشن کمیشن نے 57اصلاحات میں سے 35 سیکشنز میں ترمیم کی حمایت کی جبکہ قانون کا مسودہ بہتر بنانے کے لیے مزید ’ان پٹ‘ بھی دیا، بل میں کچھ ترامیم کو الیکشن کمیشن آئین سے متصادم سمجھتا ہے، اور اس طرح کی ترامیم الیکشن کمیشن کے اختیارات کو محدود کرنے کے بھی مترادف ہیں، ان سے الیکشن کے انعقاد میں انتطامی ایشوز بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔‘‘
الیکشن کمیشن کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ بل کو سینیٹ میں پیش کرنے سے قبل معاملہ وزیراعظم عمران خان کے علم میںلایا جائے تاکہ سینیٹ سے اس بل کو متعارف کرائے جانے کے دوران اس کی درستی کے اقدامات ہوسکیں۔ الیکشن کمیشن نے سیکرٹ (خفیہ) ووٹنگ کے بجائے اوپن ووٹنگ کا لفظ شامل کرنے کی بھی مخالفت کی۔ الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ مجوزہ الیکشن ایکٹ کی 13 شقیں آئین سے متصادم ہیں، اوپن ووٹنگ کا لفظ شامل کرنا آئین کے آرٹیکل 226 کی خلاف ورزی ہے، سپریم کورٹ اس حوالے سے صدارتی ریفرنس سے متعلق کیس میں واضح رائے دے چکی ہے۔ خط میں کہا گیا کہ الیکشن ایکٹ سیکشن 24، 26، 28، 29، 30، 31، 32، 33، 34، 36 اور 44 آئین کے آرٹیکل 219A اور 222 کے ساتھ متصادم ہے۔ اسی طرح الیکشن ایکٹ 17 میں انتخابی حلقہ بندیوں کے حوالے سے ترمیم جو آبادی کے بجائے ووٹر لسٹوں کی بنیاد پر ہے، کے بارے میں بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ آئین کا آرٹیکل 51 قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کو آبادی کے لحاظ سے مقرر کرتا ہے۔ اسی طرح سینیٹ الیکشن کے حوالے سے سیکشن 122 میں خفیہ رائے شماری کی جگہ اوپن بیلٹ کا لفظ بھی آئین کے آرٹیکل 226 اور سپریم کورٹ کے صدارتی ریفرنس کے حوالے سے فیصلے سے متصادم ہے۔
انتخابی اصلاحات کا معاملہ ہمارے ملک کا ایک دیرینہ مسئلہ بن چکا ہے۔ ہر نئی حکومت انتخابی عمل کو سہل بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات لانے کا دعویٰ تو ضرور کرتی ہے لیکن یہ بیل آج تک منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ رواں برس اپریل کے مہینے میں وفاقی کابینہ نے الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترمیم کی منظوری دی تھی۔ اِن ترامیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے10جون 2021ء کو قومی اسمبلی سے الیکشنز ایکٹ ترمیمی بل 2020ء منظور بھی ہو گیا، لیکن الیکشن کمیشن نے رائے دی ہے کہ قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے مجوزہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2020ء کی 13شقیں آئین سے متصادم ہیں، جس میں سرِفہرست انتخابی فہرستوں کی تیاری اور اُن پر نظرثانی کے اختیارات ہیں۔ الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ مذکورہ شق آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 219کے تحت الیکشن کمیشن کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ اِسی طرح آئین کے آرٹیکل 222 کے تحت اِن اختیارات کو ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اِن میں کمی کی جا سکتی ہے۔ آبادی کے بجائے ووٹرز کی بنیاد پر حلقہ بندی آئین کے خلاف ہے اور آئین میں سینیٹ کے الیکشن کی اوپن ووٹنگ کا کہیں کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی اصلاحات پر اپنے تحفظات کے حوالے سے باضابطہ طور پر وفاقی حکومت کو خط لکھا ہے جس میں ترامیم کا معاملہ وزیراعظم کے نوٹس میں لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ انتخابی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہیں تاکہ ملک میں ہونے والے انتخابات پر دھاندلی کے الزامات کا سلسلہ تھم سکے، تاہم اِس حوالے سے کی جانے والی جلدبازی سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔ کسی بھی قسم کے شکوک و شبہات اور ہر طرح کی مداخلت سے پاک انتخابات قومی سلامتی کے لیے ناگزیر ہیں، لہٰذا حکومت، اپوزیشن اور الیکشن کمیشن کو مزید تاخیر کیے بغیر اِس سمت میں متحد ہوکر پیش رفت کرنا ہوگی۔
پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان نے بھی رائے دی ہے کہ پارلیمان اور آئینی ادارے کے درمیان عدم اعتماد پر تشویش ہے، الیکشن کمیشن نے 72 حکومتی ترامیم میں سے 45 پراعتراضات اٹھائے ہیں۔ الیکشن ایکٹ کی 13شقیں آئین سے متصادم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کرانے والے ادارے نے آپ کی ترامیم کوغیرآئینی اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔
انتخابی اصلاحات پر سیاسی جماعتوں کی مشاورت کے لیے مسلم لیگ(ن) نے کُل جماعتی کانفرنس طلب کی ہے، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اس کی حمایت کی ہے۔ اس کانفرنس کے لیے ملک کی تمام پارلیمانی جماعتوں، وکلا تنظیموں، میڈیا تنظیموں سمیت انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو مدعو کیا جائے گا۔یہ سیاسی پیش رفت بہت اہم ہے۔حکومت کوالیکشن کیشن اور اپوزیشن کے اعتراضات پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔