پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ زدہ شخصی و خاندانی جمہوریت کا شرمناک تماشا

پوت کے پائوں پالنے میں اور پاکستان کے منتخب نمائندوں کے پائوں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں صاف نظر آتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو چند روز پیشتر قومی اسمبلی میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ زدہ، شخصی و خاندانی جمہوریت نے ایک شرمناک تماشا پیش کیا۔ نواز لیگ اور تحریک انصاف کے اراکینِ اسمبلی نے ایک دوسرے کو غلیظ گالیاں دیں، ایک دوسرے کی طرف فحش اشارے کیے، ایک دوسرے پر بجٹ دستاویزات دے ماریں۔ نواز لیگ کے اراکین عمران خان کو ’’ڈونکی راجا‘‘ کہہ رہے تھے۔ اس پر فواد چودھری نے نواز لیگ کے منتخب نمائندوں کو بتایا کہ عمران خان ان کے نعرے سے ناراض ہورہے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ نواز لیگ کے اراکین میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی، اور وہ گھنٹوں تک ’’ڈونکی راجا کی سرکار نہیں چلے گی‘‘ کا نعرہ لگاتے رہے۔ پاکستان کے ٹیلی وژن چینلز خود خاصا فحش مواد نشر کرتے ہیں، مگر نوازلیگ، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے اراکین کی گفتگو اتنی فحش تھی کہ تمام چینلز نے اس گفتگو کو ایڈٹ کردیا، یا افراد کی خاموش فوٹیجز کو نشر کیا۔
ایک زمانہ تھا کہ کوٹھوں کی بھی ایک تہذیب ہوا کرتی تھی۔ ایک وقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی بھی کوئی تہذیب نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ شور اور ہنگامہ جمہوریت کا حسن ہے، مگر گالم گلوچ اور جوتم پیزار بہرحال جمہوریت کی بدصورتی کے سوا کچھ نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق قومی اسمبلی کے ایک اجلاس پر ریاست پانچ کروڑ روپے صرف کرتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو قومی اسمبلی کے اراکین کی گالیاں قوم کو بہت مہنگی پڑتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہماری اسٹیبلشمنٹ زدہ، شخصی و خاندانی جمہوریت جیسی ہے ویسی کیوں ہے؟ آخر ہمارے سیاسی رہنمائوں اور منتخب نمائندوں کا شخصی اور اجتماعی کلچر اتنا پست کیوں ہے؟ آخر وہ قوم کی نمائندگی کا حق کیوں ادا نہیں کرپاتے؟
اصول ہے ’بڑا سوچو، بڑے بن جائو‘۔ مگر بڑی فکر ہمیشہ بڑے مثالیے یا بڑے Ideal سے آتی ہے۔ اقبال نے اپنی معرکہ آرا نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں خدا کی زبان سے ایک عجیب بات کہلوائی ہے۔ اقبال نے خدا سے کہلوایا ہے:
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا انسان سے اُس کی خواہشات، آرزوئوں اور تمنائوں کے مطابق معاملہ کرتا ہے۔ جو لوگ نئی دنیا کی تلاش کی آرزو رکھتے ہیں اور نئی دنیا کی تخلیق کے تقاضے پورے کرتے ہیں خدا انہیں نئی دنیا ضرور عطا کرتا ہے۔ دنیا میں انسانوں کی عظمت کی بلند ترین سطح انبیاء و مرسلین ہیں، اور بہت سے انبیاء نے تاریخ کے دھارے کا رخ بدلا ہے۔ ہر نبی اپنی اصل میں صاحبِ انقلاب ہوتا ہے، اور وہ ہدایتِ ربانی کی روشنی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔ مگر انبیاء و مرسلین کی سطح سے بہت نیچے بھی اللہ تعالیٰ انسانوں کی آرزوئوں، تمنائوں اور ان کی کوششوں کو دیکھتا ہے۔ لینن اور مائو خدا اور مذہب کے منکر تھے مگر اُن کی آنکھوں میں سوشلسٹ انقلاب کا خواب تھا۔ اُن کے نزدیک سوشلسٹ معاشرہ مثالی معاشرہ اور سوشلسٹ ریاست مثالی ریاست تھی۔ چنانچہ لینن اور مائو انقلاب برپا کرکے رہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے بھی خود کو ایک انقلاب سے وابستہ کرلیا تھا۔ پاکستان کا منصوبہ اپنی اصل میں ایک انقلابی منصوبہ تھا۔ قائداعظم کا خواب بھی بڑا تھا اور عمل بھی۔ چنانچہ دو بڑائیوں کی یکجائی نے ناممکن کو ممکن کردیا۔ پاکستان جدید دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست بن کر سامنے آگیا۔ اقبال نے کہا ہے:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
مگر بڑا ’’عمل‘‘ بھی ’’بڑی فکر‘‘ سے پیدا ہوتا ہے۔ چھوٹی فکر کا عمل بھی چھوٹا ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب کوئی تاریخی شخصیت نہیں تھے، ان کا نام قائداعظم کے ساتھ نہیں لینا چاہیے، مگر بہرحال اُن کی اَنا بڑی تھی۔ وہ خود کو قائدِ ایشیا سمجھتے تھے۔ چنانچہ اُن کی فکر نے اُن سے ایٹمی پروگرام شروع کرادیا۔ اُن کی اس فکر نے اُن سے 1973ء کا آئین بنوادیا۔ اُن کی اس فکر نے عرب و عجم کو ایک کرنے کی کوشش کی۔ بھٹو صاحب کا خیال تھا کہ عربوں کا پیسہ اور پاکستان کا ایٹم بم اگر ایک ہوجائیں تو امتِ مسلمہ ایک بڑی چیز بن سکتی ہے۔ بدقسمتی سے میاں نوازشریف، آصف علی زرداری اور عمران خان کے پاس نہ بڑی سوچ ہے، نہ بڑا عمل ہے۔ میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کرپشن کی علامت ہیں، صوبائی تعصبات کی علامت ہیں۔ عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ فضا میں اچھالا تھا، مگر اُن کی تبدیلی سے اب تک ایک بھی شیر برآمد نہیں ہوا۔ اُن کی تبدیلی سے اب تک صرف چوہے نکلے چلے جارہے ہیں۔
بڑے لوگوں کی سیاست ہمیشہ ’’اقدار‘‘ کی سیاست ہوتی ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے سیاست دانوں کی سیاست صرف ’’اقتدار‘‘ کی سیاست ہے۔ ان کا پہلا اور آخری خواب کسی بھی طرح اقتدار میں آجانا اور اقتدار سے چمٹے رہنا ہے۔ یہ تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن کی بیوی ایڈوینا کا پنڈت جواہر لعل نہرو کے ساتھ معاشقہ تھا۔ ایڈوینا نے نہرو کو کچھ عاشقانہ خطوط بھی لکھے تھے۔ یہ خطوط لیاقت علی خان کو کہیں سے مل گئے۔ لیاقت علی خان ان خطوط کو لے کر قائداعظم کے پاس آئے اور کہاکہ ان خطوط کو سامنے لاکر لارڈ مائونٹ بیٹن اور نہرو کو دبائو میں لایا جاسکتا ہے۔ مگر قائداعظم نے ایڈوینا کے خطوط پر سیاست کرنے سے انکار کردیا۔ قائداعظم کے اس عمل سے ثابت ہوا کہ وہ اقتدار کی نہیں، اقدار کی سیاست کررہے تھے۔ شاہ فیصل بادشاہ تھے، اور بادشاہوں کو جان اور اقتدار دونوں عزیز ہوتے ہیں، مگر شاہ فیصل نے امریکہ کیا، پوری مغربی دنیا کو چیلنج کردیا۔ انہوں نے امریکہ کے سفیر کو دوپہر کے کھانے پر بلالیا۔ انہوں نے دعوت کا اہتمام ایک صحرا میں لگائے گئے خیمے میں کیا تھا۔ امریکی سفیر آیا تو شاہ فیصل نے اُسے کھجوریں اور قہوہ پیش کیا۔ شاہ فیصل نے امریکی سفیر سے کہاکہ ہم کھجوروں اور قہوے پر گزارا کرنے والے لوگ ہیں، چنانچہ تم نے ہم پر پابندیاں لگا بھی دیں تو ہم کھجوریں کھا کر اور قہوہ پی کر زندہ رہ لیں گے، لیکن سوچو اگر ہم نے تمہارا تیل بند کردیا تو تمہارا کیا ہوگا! شاہ فیصل نے دھمکی ہی نہیں دی، انہوں نے عملاً مغربی دنیا کا تیل بند کردیا۔ شاہ فیصل کے اس اقدام سے مغربی دنیا لرز کر رہ گئی۔ بلاشبہ شاہ فیصل کو امریکہ نے شہید کروادیا، مگر شاہ فیصل نے اپنی فکر اور عمل سے ثابت کیا کہ وہ بادشاہ ہونے کے باوجود اقتدار کے بجائے اقدار کی سیاست کرتے تھے، اور کسی بھی طرح امریکی ایجنٹ بننے کے لیے تیار نہ تھے۔ بدقسمتی سے میاں نوازشریف ہوں یا آصف علی زرداری یا عمران خان… سب کے سب اقدار کے بجائے اقتدار کی سیاست کررہے ہیں۔ قائداعظم کا یہ حال تھا کہ انہوں نے ایڈوینا کے خطوط پر سیاست کرنے سے انکار کردیا، مگر میاں نوازشریف نے بے نظیر بھٹو کی خودساختہ ننگی تصاویر بنوائیں اور انہیں ہیلی کاپٹر سے زمین پر گروایا، تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکیں۔ میاں صاحب نے سیاست کے لیے پنجاب میں ’’جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ‘‘ کا نعرہ لگوایا۔ چودھری شجاعت حسین نے اپنی خودنوشت ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں لکھا ہے کہ شریفوں کے ساتھ ہم نے شراکتِ اقتدار کا معاہدہ کیا تو شہبازشریف قرآن اٹھا لائے اور کہنے لگے کہ یہ قرآن ہمارے اور آپ کے معاہدے کا ضامن ہے، ہم آپ سے کیا گیا ایک ایک وعدہ پورا کریں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ بدترین سے بدترین مسلمان بھی قرآن کو ضامن بنائے تو اپنا وعدہ پورا کرتا ہے، مگر چودھری شجاعت نے لکھا ہے کہ شریفوں نے قرآن کو ضامن بنانے کے باوجود ہم سے کیا گیا کوئی وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میاں نوازشریف اور شہبازشریف قرآن تک پر جھوٹ بول سکتے ہیں اور قرآن تک کو کھیل بنا سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی سیاست اقدار کی سیاست ہے ہی نہیں۔ ان کی سیاست صرف اقتدار کی سیاست ہے۔ عمران خان کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ کبھی وہ کہا کرتے تھے کہ میں سرمائے اور Electables کی سیاست نہیں کروں گا، مگر گزشتہ انتخابات سے ذرا پہلے انہوں نے ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف کہاکہ میرا مقصد اقتدار میں آنا ہے، اس لیے میں سرمائے کی سیاست بھی کروں گا اور Electables کی سیاست بھی کروں گا۔ چنانچہ قومی اسمبلی میں نواز لیگ اور تحریک انصاف کے اراکین میں گالیوں کا مقابلہ نہ ہو تو اور کیا ہو!
بدقسمتی سے پاکستان کی جمہوریت ہی نہیں… سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادتیں اور منتخب ایوان بھی اسٹیبلشمنٹ زدہ ہیں۔ اس بات کے معنی یہ ہیںکہ ہماری سیاست کی جو سیاسی اور اخلاقی سطح ہے، اسٹیبلشمنٹ کو وہی سطح درکار ہے۔ سیاست دان اگر متقی و پرہیزگار اور اقدار کے علَم بردار، اصولوں کے پاس دار اور ایمان دار بن گئے تو اسٹیبلشمنٹ کا تو پورا سیاسی کاروبار ہی تباہ ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو میاں نوازشریف، الطاف حسین اور عمران خان کی تخلیق سوٹ کرتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کی بدعنوانی بھی سوٹ کرتی ہے۔ اگر یہ لوگ بدعنوان نہ ہوں تو انہیں کس الزام کے تحت اقتدار سے باہر کیا جائے گا؟ بلاشبہ اسٹیبلشمنٹ نے میاں نوازشریف اور آصف زرداری کو بدعنوان نہیں بنایا، مگر اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں کو اتنا ’’پاک صاف‘‘ نہیں دیکھنا چاہتی کہ ان کی عوامی ساکھ پیدا ہوجائے اور ان پر ہاتھ ڈالنا ناممکن ہوجائے۔ عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے عمران خان کے خلاف جو کتاب لکھی ہے وہ عمران خان کے امیج کو تباہ کرنے کے لیے ہی کسی نے لکھوائی ہے تاکہ عمران خان قابو میں رہیں۔
جب تک سیاست مثالیے اور اقدار کی ترجمان رہتی ہے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ’’اختلاف‘‘ نظریاتی ہوتا ہے، ’’سیاسی‘‘ ہوتا ہے، ’’علمی‘‘ ہوتا ہے… مگر جب سیاست شخصی اور خاندانی بن جاتی ہے تو پھر سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں میں اختلاف ’’ذاتی‘‘ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے نواز لیگ اور پیپلزپارٹی دو خاندانوں کی میراث ہیں۔ شریف خاندان کے بغیر نوازلیگ، اور بھٹو خاندان کے بغیر پیپلز پارٹی کا کوئی وجود نہ ہوگا۔ عمران خان تبدیلی کی علامت بن کر ابھرے تھے اور تبدیلی ایک فکر تھی، ایک فلسفہ تھا۔ مگر اب عملی حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف عمران خان کی شخصی ملکیت ہے۔ عمران خان کے بغیر تحریک انصاف کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ نواز لیگ اور تحریک انصاف قومی اسمبلی میں ایک دوسرے کو گالیاں دیتی نظر آرہی ہیں۔