رزق

بارش کے ساتھ رزق کا اتنا گہرا تعلق ہے کہ بارش کو ہی رزق کہہ دیا جاتا ہے۔ بارش کے ہونے سے ہی رزق کے چشمے بلکہ سرچشمے جاری ہوجاتے ہیں۔ پہاڑوں اور جنگلوں میں اُگنے والے ایک معمولی درخت کو دیکھیں، رزق سے بھرپور ہے۔ اس کی شاخیں پرندوں کا رین بسیرا ہیں۔ اس کا سایہ جان داروں کی پناہ گاہ ہے۔ لکڑی، طویل سلسلہ ہے رزق کا۔ جلانے والی ہو تب بھی لکڑی رزق ہے۔ عمارتی لکڑی تو سبحان اللہ رزق ہی رزق ہے۔ فرنشنگ ہائوس، شوروم، فرنیچر، گاڑیاں رزق کمانے والوں اور رزق کھانے والوں کے لیے نعمت ہیں۔ درخت کی لکڑی نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔ درخت بارش کی عطا ہے۔ بارش خالق کا عمل ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ رزق آسمان سے نازل ہوتا ہے۔ دلیل یہ کہ بارش میں صفتِ رزاقی ہے۔زمین سے اُگنے والے اناج کا بارش سے جو تعلق ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں۔ جان دار زمین سے اُگنے والی اجناس پر پلتے ہیں۔ مویشیوں ہی کو لیجیے۔ تازہ دودھ کی نہریں ہیں۔ تازہ گوشت کا نہ ختم ہونے والا اسٹور۔ صحت مند گوشت، جس پر انسانی صحت کا دارومدار ہے۔ مویشیوں کی کھالیں کیا کیا رزق مہیا کرتی ہیں، کسی ٹینری سے معلوم کریں۔ مویشیوں سے لباس، جوتے، بار برداری اور نہ جانے کیا کیا کچھ حاصل ہوتا ہے۔ ان کی رزاقانہ افادیت پر مکمل تبصرہ خارج ازامکان ہے۔
جانور، جانوروں کا رزق ہیں، انسانوں کا رزق ہیں، یہاں تک کہ مرا ہوا جانور بھی گدھ کا رزق ہے۔ گدھ مُردار پر پلتا ہے، شاہین زندہ شکار سے اپنی زندگی برقرار رکھتا ہے۔ پروردگار کے کام ہیں۔ شاہین اور شیر کی خوراک کو زندگی دے کر محفوظ کردیا گیا ہے۔
اگر آسمانوں سے مینہ نہ برسے، تو رزق کی داستان ختم سی ہوکر رہ جائے۔ سائنس کی ترقی کے باوجود رزق کا نظام، معیشت و معاشیات، تقسیم دولت کا سارا نظام بارش کے ختم ہونے سے ختم ہوجائے گا۔ بارش کے دم سے سوتی اور اونی کپڑے کی ملیں چل رہی ہیں۔ بارش نہ ہو تو نہ اون نہ کپاس، نہ خوراک نہ لباس۔
بارش کی کمی سے بجلی کا نظام بحران کا شکار ہوتے دیکھا گیا ہے۔ رزق کی تقسیم و ترسیل کا نظام آسمان سے برسنے والے پانی پر ہے۔ پانی کی کمی سے قحط سالی اپنے ظالم جبڑوں میں انسان کو دبوچ لیتی ہے۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ بارش منشائے الٰہی ہے اور یہ عطائے رحمانی بغیر کسی معاوضے کے ہے۔انسانی آنکھ کو قدرت نے بینائی کا رزق عطا کیا اور اس بینا آنکھ کے لیے نظاروں کے ترانے موجود ہیں۔ کائنات کے منور مناظر انسان کی ضیافتِ نگاہ کا سامان ہیں۔ کہساروں سے ریگ زاروں تک نظر کا رزق نظاروں کے حسن میں پھیلا دیا گیا ہے۔ یہ سب بغیر معاوضے کے ہے۔
ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مشرق سے طلوع ہونے والا سورج رزق کے خزانے بکھیرتا ہوا مغرب میں غروب ہوتا ہے، اور پھر رات ایک الگ قسم کا رزق راحتِ جاں کے لیے تقسیم کرتی ہے۔ پُرسکون نیند ایک عظیم دولت ہے، مفت ملتی ہے، اس پر کروڑوں روپے نثار۔ سورج پھلوں کو رس عطا کرتا ہے، چاند مٹھاس بخشتا ہے، ستارے صاحبانِ فکر کو دولتِ افکار سے مالامال کرتے ہیں۔ غرضیکہ اس کائنات کا ہر موسم اور ہر لمحہ کسی نہ کسی انداز سے رزق تقسیم کرتا ہی رہتا ہے۔انسان کا رزق اس کے اپنے وجود کے کسی حصے میں پنہاں ہوتا ہے۔ اس صلاحیت کو دریافت کرنا ہی انسان کا فرض ہے۔ اس کے بعد حصولِ رزق کا مسئلہ ختم ہوجاتا ہے۔
کچھ لوگوں کا رزق ان کے ذہن میں ہوتا ہے۔ ان کی ذہنی صلاحیت رزق بنتی ہی چلی جاتی ہے۔ یہ صاحبانِ فکر و فراست اپنی اور دوسروں کی معیشت کو استوار کرتے ہیں۔ دنیا کو علم و ادب سے نوازتے ہیں، اور رزق ان کے ذہن کو سلام کرنے کے لیے حاضر رہتا ہے۔
کچھ انسانوں کا رزق ان کے گلے میں ہوتا ہے۔ سریلا، رسیلا نغمہ یوں بھی رزق ہے، اور یوں گلوکار کا گلا سونے کی کان سے کیا کم ہوگا! اس نغمگی سے کتنے اداروں اور کتنے افراد کا رزق وابستہ ہے۔ صاحبِ آواز کے ساتھ صاحبِ ساز کو بھی نواز دیا جاتا ہے۔
مزدوروں اور ورکروں کا رزق ان کے بازوئوں میں ہے۔ جسمانی طاقت، جو قدرت کی عطا ہے، ذریعۂ رزق بھی ہے۔ ہاتھ چلتے ہیں اور پیٹ پلتے ہیں۔ کاسب کا رزق کسب میں ہے۔ کاسب امیر ہو یا غریب، وہ اللہ کا دوست ہے۔
کچھ ممالک میں جنسیات بھی معاشیات کا ایک حصہ ہے۔ گمراہی ہے، لیکن رزق سے وابستہ ہے۔ گناہ تو ہے لیکن رزق کا ذریعہ ہے۔
اس مقام پر مذہب انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ مذہب بتاتا ہے کہ حلال کیا ہے، حرام کیا ہے۔ جائز کیا ہے، ناجائز کیا ہے۔ ثواب کیا ہے، عذاب کیا ہے۔ کرم کیا ہے، ستم کیا ہے۔ مذہب غور کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ آخر رزق کی ضرورت کیا ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے رزق چاہیے۔
ماں کی گود سے قبر تک کا سفر ہے۔ کتنا زادِ راہ چاہیے؟
ہم مال بڑھاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی کم ہوتی جارہی ہے۔ سانس کی آری ہستی کا شجر کاٹ رہی ہے۔ زندگی برف کی سل کی طرح پگھلتی ہی چلی جارہی ہے۔ یہ پونجی گھٹتی جارہی ہے۔ دولت موت سے نہیں بچاسکتی۔سانس بند ہوجائے تو رزق کی تمام افادیت ہمارے لیے ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتی ہے۔ جائز ضروریات کو ناجائز کمائی سے پورا کرنا حماقت بھی ہے اور گناہ بھی۔ رشوت کے مال پر پلنے والی اولاد لازمی طور پر باغی ہوگی، بے ادب ہوگی، گستاخ ہوگی۔ دہرا عذاب ہے۔ عاقبت بھی برباد اور اولاد بھی برباد۔
( واصف علی واصف ’’دل دریا سمندر‘‘)

جگر سے تیر پھر وہی پار کر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر

علامہ امتِ مسلمہ کو کل کی طرح آج بھی یہ درس دے رہے ہیں کہ اپنے دلوں میں وہی ایمانی جذبے اور ایمانی حرارت و تڑپ پیدا کریں اور اپنے مقام کو پہچانتے ہوئے اپنے آپ کو ذلتوں سے نکال کر امامت و قیادت کے لیے تیار کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایمان و عمل کے جذبوں سے اپنے جگر چھلنی کریں اور سینوں میں ازسرِنو زندہ تمنائیں پیدا کریں۔