تبصرہ نگار: ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق
نام کتاب: تاریخ ِ آلِ عثمان سے چند اوراق
مرتب: ڈاکٹر فرزانہ جبین
صفحات: 292، قیمت: 400 روپے
رابطہ نمبر:03343055005
ناشر: شعبۂ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی، کراچی
عثمانی ترکوں کا تعلق مشہور ترکی قبیلے اوغوز (OGHUZ) سے تھا۔ اوغوز ترکوں نے دنیا میں عظیم الشان حکومتیں قائم کیں۔ سلجوقی، عثمانی، قراقویونلو، آق قویونلو، صفوی اور ہند کے قطب شاہی اور عادل شاہی خاندان اسی اوغوز قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ آزری ترک بھی انھی میں سے ہیں۔
ترک دنیا کے نقشے پر اسلام کی ایک پُرجوش، طاقتور، بہادر اور تازہ دم قوت کے طور پر ابھرے اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے ایک بڑے حصے پر اپنی فتح و کامرانی کے نشان ثبت کردیے۔ یہ ترک ہی تھے جو خلافتِ عباسیہ کے زوال (656ھ/1258ء) کے بعد اسلام کا بازوئے شمشیرزن بنے، اور منگولوں کے اٹھتے ہوئے طوفان کے لیے سدِّ راہ ثابت ہوئے۔
1299ء میں برُسا شہر میں ارتغرل غازی کے بیٹے عثمان غازی نے دولتِ عثمانیہ کی بنیاد رکھی۔ ڈیڑھ سو سال کی قلیل مدت میں عثمانی فرماں رواؤں نے نہ صرف ایشیا اور افریقہ بلکہ یورپ میں بھی دور دور تک اُس علاقے پر، جو کسی زمانے میں عیسائیت کا عظیم مرکز رہا تھا، اسلام کا پرچم لہرا دیا۔ قسطنطنیہ کی فتح عثمانیوں کا ایک بڑا کارنامہ اور تاریخِ اسلامی کا ایک عظیم الشان واقعہ ہے۔
سلطان سلیمان اعظم قانونی کے عہد میں عثمانیوں کی طاقت اور اقتدار کا سورج نصف النہار کو پہنچ گیا۔ عثمانیوں کی شوکت و عظمت کا یہ طویل دور تاریخِ اسلام کا ایک روشن باب ہے۔ بنوامیہ کے بعد یہ فخر مسلم اقوام میں صرف عثمانی ترکوں ہی کو حاصل ہوا کہ انھوں نے تین براعظموں اور سات سمندروں پر حکومت کی۔
سلطنتِ عثمانیہ قرونِ وسطیٰ سے بیسویں صدی کے اوائل (تقریباً ساڑھے چھے سو سال)تک ایک عالمی طاقت کی حیثیت رکھتی تھی۔ عثمانی ترکوں کو ایک امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ وہ عالمی سیاست پر مغرب کے تسلط کو ختم کرنے کے علَم بردار تھے، اور صلیبی جنونیوں سے خود یورپ میں نبرد آزما ہونا چاہتے تھے۔ اور یہ عثمانی ترک ہی تھے جنھوں نے خلافت کے ادارے کو صدیوں قائم رکھا، جس کے باعث ملتِ اسلامیہ کی آئینی مرکزیت برقرار رہی۔
پیش نظر کتاب ”تاریخ ِ آلِ عثمان سے چند اوراق“ اسی عظیم سلطنت کے چند گوشوں کو آشکار کرتی ہے۔ اس کتاب میں ترکی میں عیسائیوں کی حالت، ترکی ادبیات، ترکوں کی تعلیمی حالت، استنبول کے کتب خانے، ترکوں میں مذہبی احساسات کی بیداری، سلطان عبدالحمید کی معزولی کا حقیقی سبب، بہمنی۔عثمانی سفارتی تعلقات، مستشرقین اور تاریخ ترکی، انگورہ، اولیا چلیپی، بلغاریہ، بوسنیا ہرزیگووینا، شاہانِ مغلیہ اور سلاطین عثمانی کے عہد میں حج کے راستوں کی حفاظت کا مسئلہ، جیسے موضوعات پر مضامین شامل ہیں۔
”سلطان عبدالحمید کی معزولی کا حقیقی سبب (ایک جدید انکشاف)“ بالخصوص اہم مضمون ہے۔ سلطان عبدالحمید کے متعلق یہ عام شہرت ہے کہ وہ ظالم و جابر اور مطلق العنان حکمران تھے، اسی کے نتیجے میں نوجوان ترکوں کی تنظیم ”عثمانی انجمن اتحاد و ترقی“ وجود میں آئی تھی اور بقول خالدہ ادیب خانم: سلطان عبدالحمید کی تخت نشینی کا دن عثمانی خاندان کے لیے قومی یومِ ماتم کے طور پر منائے جانے کا مستحق ہے۔ لیکن اس مضمون سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سلطان کے خلاف یہ پروپیگنڈہ تھا اور سلطان کی معزولی محض اس بنا پر ہوئی تھی کہ سلطان نے فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کے مطالبے کو مسترد کردیا تھا۔ خلافتِ عثمانیہ کے خلاف تمام شورشیں اور انقلابی تحریکیں دراصل ایک صہیونی ریاست کے قیام کا دیباچہ تھیں۔ سلطان عبدالحمید کا تختِ حکومت صہیونیت کا شکار اور فلسطین کی راہ میں پہلی قربانی ثابت ہوا۔ سلطان عبدالحمید نے باوجود ترہیب و ترغیب کے عالمِ اسلام اور سلطنتِ عثمانیہ کو اس دائمی ننگ و عار سے آلودہ کرنا قبول نہیں کیا جو ارضِ فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام سے اسے لاحق ہوتا۔
جامعہ کراچی کے شعبۂ اسلامی تاریخ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں ایم۔ اے کی سطح پر آلِ عثمان کی تاریخ لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اور بی۔اے سالِ دوم کے اختیاری مضامین میں عربی اور فارسی کے ساتھ ترکی زبان بھی شامل رہی ہے۔ عثمانی ترکوں کی تاریخ پر ترکی زبان کے علاوہ عربی اور انگریزی زبان میں خاصا مواد موجود ہے، لیکن اردودان طبقے کے لیے چند ہی کتابیں دستیاب ہیں۔
پیش نظر کتاب میں شامل مضامین اوّلاً پاک و ہند کے دو مؤقر جرائد ماہنامہ ”معارف“ (اعظم گڑھ) اور ماہنامہ ”برہان“ (دہلی) میں شائع ہوئے تھے، اور اب کمیاب تھے۔ اردو زبان میں اس موضوع پر مواد کی کمی کے باعث اس بات کی ضرورت تھی کہ ان مضامین کی بارِ دگر اشاعت ہو۔ اس ضرورت کو ڈاکٹر فرزانہ جبین صاحبہ نے محسوس کیا اور تلاش و جستجو کے بعد ان مضامین کو پیش نظر کتاب کی صورت میں مرتب کردیا، جس کے لیے وہ لائقِ تحسین ہیں۔
فاضل مرتب ڈاکٹر فرزانہ جبین، شعبۂ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ عثمانی تاریخ و تہذیب آپ کی دل چسپی کا خاص موضوع ہے۔ بجا طور پر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ عثمانی تاریخ پر یہ مضامین دل چسپی سے پڑھے جائیں گے اور تاریخ کے طلبہ، بالخصوص شعبۂ اسلامی تاریخ کے طلبہ، اسے اپنے لیے مفید پائیں گے۔ کتاب مجلّد ہے اور قیمت بھی مناسب ہے۔