ڈاکٹر عزیز احسن اور تقدیسی ادب کافکری تناظر

کتاب
:
ڈاکٹر عزیز احسن اور
تقدیسی ادب کافکری تناظر
(نگارشات ڈاکٹر عزیز احسن)
مرتبہ
:
ڈاکٹر دائود عثمانی
صفحات
:
288 قیمت:800 روپے
ناشر
:
نعت ریسرچ سینٹر بلاک14 گلستان جوہر کراچی
فون
:
0333-5567941

ہمارے شہر کراچی کی اہم ادبی، دینی اور علمی شخصیت اور نعتیہ ادب کے حوالے سے معتبر نام ہمارے ڈاکٹر عزیز احسن کا ہے، ان کی بے شمار تحریروں کا ایک تجزیہ ڈاکٹر دائود عثمان نے اپنے پراثر اسلوب میں عمدگی سے کیا ہے۔ تحریر فرماتے ہیں:
’’ڈاکٹر عزیز احسن کی تحریروں پر کچھ لکھنا ہمارے لئے بیک وقت آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ آسان اس لئے کہ وہ اپنے خیالات اور نظریات کے لحاظ سے خاصے راست فکر اور صاف گو ہیں۔ وہ محض دل جوئی کے نام پر بڑے بڑے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ انہیں حق بات کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی ہے۔ کیونکہ انہیں نعتیہ ادب میں تنقید کے فقدان اور اس سے ہونے والے خسارے کا بخوبی احساس ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ نعتیہ ادب میں ایک غلط رسوخ پاگیا تھا کہ اس صنف سخن کو انتقادی کسوٹی پر پرکھنا اس کی توہین ہے۔ اسی لئے اس کی تخلیقی سرگرمیاں تو جاری رہیں لیکن ادبی و شرعی معیارات کی طرف عدم توجہی نے اس مقدس صنف کا وقار بڑا مجروح کیا۔ لیکن حساس ناقدین اور محققین نے آخر کار اس طرف توجہ کی۔ ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق کے تحقیقی مقالے (1955ء) اور پروفیسر محمد حسن عسکری کے محسن کاکوری پر مضمون (1959ء) نے اس صنف سخن کے لئے تنقیدی بصیرت کے دروا کئے۔ 1995ء میں، نعت رنگ کے اجرا سے نقد نعت کی باقاعدہ ایک تحریک شروع ہوگئی جسے کئی اہل علم حضرات نے آگے بڑھایا۔ ڈاکٹر عزیز احسن، اس تحریک میں شامل، وہ خوش نصیب نقاد ہیں جن کی تحریروں نے بہت سے اہل دانش کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ان کی تنقیدی بصیرت کو سراہنے والوں میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر اسلم فرخی، حفیظ تائب، داکٹر ریاض مجید، سحر انصاری، مبین مرزا، پروفیسر شفقت رضوی، ڈاکٹر ظفر اقبال، پروفیسر ڈاکٹر سید وحید اشرف کچھوچھوی (بھارت)، ندیم صدیقی (بھارت)، پروفیسر انوار احمد زئی، احمد صغیر صدیقی، پروفیسر محمد اکرم رضا، کاشف عرفان اور ڈاکٹر عبدالکریم وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
صبیح رحمانی نے اپنی مرتبہ کتاب ’’ڈاکٹرعزیز احسن اور مطالعات حمد و نعت‘‘ میں ڈاکٹر عزیز احسن کی تنقیدی بصیرت پر بیشتر اہل علم کی تحسینی آرا نقل کرنے کے بعد بڑی پتے کی بات کہی تھی۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اصناف حمد و نعت کے حوالے سے تنقیدی ادب ابھی تشکیلی دور سے گزر رہا ہے، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس باب میں جو حرف بھی تنقید بصیرت کے ساتھ لکھا گیا ہے اسے کتابی صورت میں محفوظ جانا چاہیے، تاکہ ان اصناف پر بڑھتے ہوئے ذوق تنقید و تحقیق، تجزیہ و تبصرہ اور مطالعے ومشاہدے کے زیادہ سے زیادہ رجحانات و امکانات سامنے آسکیں۔ مجھے یقین ہے کہ سنجیدگی سے لکھی گئی ایسی تحریریں آئندہ آنے والوں کی فکری راہوں کو منور کرنے میں معاون ثابت ہوں گی‘‘۔
راقم الحروف نے بھی، صبیح رحمانی کی تقلید میں ڈاکٹر عزیز احسن کی کچھ نگارشات اس کتاب میں محفوظ کرنے کا بیڑا اٹھایا اور الحمدللہ! اج اس کام کی تکمیل پر میں یہ چند سطور لکھ رہا ہوں۔ یقینا ایک ایسے معتبر محقق، نقاد اور قلم کار کی تحریریں ہر حال میں محفوظ ہوجانی چاہئیں، جنہوں نے ایک عمر نعتیہ ادب کی شناخت کے لئے اپنے تنقیدی شعور کی روشنی میں تخلیقی اور تحقیقی سرمائے کو پرکھا اور افکاری روشنی سے ایوان نعت کو جگمگانے کی اپنی سی کوشش کی۔ ڈاکٹر عزیز احسن، تقدیسی ادب کی اصناف، حمد، نعت اور منقبت کے ہر پہلو پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس کتاب میں تقدیسی ادب کی متذکرہ تینوں اصناف پر گفتگو کی گئی ہے۔ حمد پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے قران کریم اور بائبل کے ایسے متون کی نشاندہی کی ہے جن میں ’’الہ واحد‘‘ کا واضح تصور ابھرتا ہے۔ انہوں نے نعتیہ ادب کی تحسین اور تنقیدی معیارات سے مملو تخلیقی دانش کے نقوش کو فراخ دلی سے سراہا ہے اور مناقب کے ضمن میں، شرعی و ادبی پرکھ کے معیارات متعین کرنے والی تحریریں پیش کی ہیں۔ علاوہ ازیں مختلف کانفرنسوں کے لئے تحقیقی و تنقیدی مقالوں اور مدیران جرائد کو لکھے گئے خطوط میں ان کے تنقیدی شعور کی چھب دکھائی دیتی ہے۔ اس کا اسلوب، عالمانہ لیکن شگفتہ ہے جو ان کی تحریروں کو بوجھل نہیں ہونے دیتا۔ استاد محترم ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی نے اپنی خواہش کا اس طرح اظہار فرمایا تھا:
’’میری تمنا ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ حضورؐ کے سیرت نگاروں اور مداحوں میں میرا شمار بھی ہو‘‘۔
یہ عاجز مرتب بھی استاد محترم کی تمنا میں ان کا شریک ہے۔ ایک اور مداح رسولؐ عزیز احسن کے مضامین جمع کرنے کی غرض و غایت بھی یہی ہے۔ حرف آخر کے طور پر ہم یہاں ڈاکٹر عزیز احسن کی نعت فہمی کے بارے میں کشفی صاحب ہی کی ایک تحریر سے استشہاد کرتے ہیں:
’’عزیز احسن اس قافلے (قافلہ نعت شناسی) کی اولین راہیوں میں سے ایک ہیں، جن کو ان کی محنت، مطالعے اور ذوق نے اس قافلے کے سالاروں میں شامل کردیا ہے۔ عزیز احسن صاحب کے مضامین میں نعت کے فنی تقاضوں، اسلوب کے مسئلوں، موضوع کے مطالبوں، اور دوسرے تخلیقی پہلوئوں کا جائزہ بڑی وضاحت کے ساتھ ملتا ہے۔ وہ خالص ادبی نقطہ نظر سے نعت کا مطالعہ کرتے ہیں اور فقہی خارزاروں میں الجھ کر اپنے دامن وک تار تار نہیں ہونے دیتے‘‘۔
اللہ کریم اپنے حبیبؐ کے طفیل ڈاکٹر عزیز احسن کی نگارشات کو قبولیت کی روشنی اور مقبولیت کی فضا عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلینؐ۔
ڈاکٹر عزیز احسن کے مقالات درج ذیل ہیں۔
(1) قرآن اور بائبل میں حمد، دعا اور مناجات کے متون، (2) حالی اور حسن عسکری، (3) اردو نعت اور جدید اسالیب، (4) برصغیر میں اردو نعت کا سفر اور ارتقا، (5) جدید اردو نعت: موضوعات و مسائل، (6) ’’نعت اور ہماری شعری روایت‘‘، (7) نعت نگاری میں تنقیدی رجحانات!، (8) ریحانہ تبسم فاضلی کا شعری وجدان! ، (9) موج سلبیل… احوال تب و تاب تمنا… حفیظ الرحمن احسن، (10) ریاض مجید کا ریاض نعت، (11) انجم نیازی کی نعتیہ شعری کائنات!، (12) ریاض حسین چودھری کا ارژنگ فن!، (13) صبیح رحمانی کی نعت کا ادبی سفر!، (14) ’’یا رحمتہ اللعالمین‘‘ کی شعری تاب و تب!، (15) ’’ثنا کی نکہتیں‘‘، (16) ’’القا‘‘ کی القائی تقدیسی جہت!، (17) کلام رضا میں مناقب صحابہ کرام اور امہات المومنین، (18) مناقب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ… ثانی اثنین، (19) مراد مصطفی مناقب فاروقی کا لائق تحسین مجموعہ، (20) منطر عارفی خلفائے راشدینؓ۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر عزیز احسن کے تحریر کئے اختصاریے، فلیپ اور مختلف اصحاب کے نام خطوط بھی شامل کتاب ہیں۔
کتاب سفید کاغذ پر خوب صورت اور سلیقے سے طبع کی گئی ہے۔ مجلا ہے اور سادہ لیکن رنگین سرورق سے مزین ہے۔