چودھری ہارون الرشید ایک عظیم خادم خلق

چودھری ہارون الرشید ؒ میرے جگری یار تھے، اُن کی وفات پر میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے، قلم اور دماغ ساتھ نہیں دے رہے کہ اُن کی کون کون سی خدمات اور اوصاف کو ضبطِ تحریر میں لایا جائے! خیر، انسان فانی ہے اور یہ اطمینان ہے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی بامقصد، باشعور گزاری، اور جماعت اسلامی کی اقامتِ دین کی جدوجہد کے علاوہ غریبوں، مسکینوں، یتیموں، بیوگان اور معذوروں کی جس طرح خدمت کو اپنا نصب العین قرار دیا اُس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ میرا اُن سے تقریباً 55سال ناظم دفتر، قیم جماعت تحصیل رحیم یار خان اور دیگر ذمہ داریوں کے سبب سفر و حضر میں گہرا تعلق رہا ہے۔ اُن کی یاد میں چند سطریں لکھ رہا ہوں تاکہ رفقاء کو اُن کی شخصیت اور کردار سے آگاہی ہو، اور اُنہیں معلوم ہو کہ کس پائے کی ہستی ہم سے جدا ہوئی ہے۔ ہارون صاحب کی شخصیت اس شعر کے مصداق تھی:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
چودھری ہارون الرشید صاحب ضلع بھر میں خدمت ِخلق کے حوالے سے ایک معروف شخصیت رہے۔ امیر تحصیل اور امیر ضلع ہونے کے علاوہ وہ شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے انچارج بھی رہے، جماعت اسلامی کی صوبائی شوریٰ اور مرکزی شوریٰ کے رکن رہے۔ 1979ء کے بلدیاتی انتخابات میں جبکہ پی پی پی کا طوطی بولتا تھا، اُس کے چیئر مین کو اکثریت سے ہرا کر ممبر بلدیہ منتخب ہوئے، جبکہ 1983ء کے بلدیاتی انتخابات میں دوسر ی مرتبہ بلدیہ کے ممبر اور وائس چیئرمین بلدیہ بنے، اور کئی مرتبہ قائم مقام چیئرمین بلدیہ بھی رہے۔ اُنہوں نے بلدیہ کے اسکولوں اور اساتذہ کے لیے تربیتی کورس کروائے، شہر کے سیوریج سسٹم، صحتِ عامہ کے مسائل اور کچی آبادیوں کے مکینوں کو مالکانہ حقوق دلوانے کے لیے اُنہوں نے دن رات جدوجہد کی، اور اللہ کے فضل سے عوام کو اُن کے مالکانہ حقوق مل گئے۔ اس کے علاوہ وہ پرویزمشرف کے پہلے بلدیاتی دور میں کسان سیٹ پر ضلع اسمبلی کے ممبر بنے، اور بطور ڈسٹرکٹ ممبر بلاتفریق تمام مظلوم اور غریب لوگوں کی خدمت کی اور شہر کے مسائل حل کروانے کے لیے بھرپور کوشش کی، اور تادم ِمرگ دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے کوشاں رہے۔
یہ تو تھی اُن کی عوامی و سماجی خدمات۔ اب اُن کی ملک میں اسلامی نظام اور اقامتِ دین کی جدوجہد کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کی چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں:
1977ء میں بھٹو دور میں تحریکِ نظام مصطفیٰ چلی، جس کا مرکز جماعت اسلامی کا دفتر تھا۔ جلسے، جلوس اور مظاہروں کا زور تھا، ہر آدمی عشقِِ رسولؐ میں سرشار اپنی گرفتاری دینے میں پیش پیش تھا۔گرفتار ہونے والے افراد کی فہرستیں بھی راقم اور ہارون الرشید صاحب تیار کرکے ذمہ دار حضرات کو دے دے دیتے، تو وہ انہیں ہار پہنا کر ٹرک میں سوار کرا دیتے اور پولیس انہیں ضلع بھر کے مختلف تھانوں میں قید کردیتی تھی، اور اس طرح متعلقہ تھانوں کے قریبی کارکنوں کو مطلع کیا جاتا کہ گرفتار شدگان کے کھانے اور دیگر ضروریات کا خیال رکھا جائے۔
اس طرح ایک روز دفترِ جماعت میں چھاپہ مارکر ہارون صاحب سمیت دوسری جماعتوں کے قائدین کو گرفتار کرکے بہاولپور جیل بھیج دیا گیا۔
بھٹو دور میں آئے روز مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف مظاہرے ہوتے رہتے تھے۔ ایسے مظاہروں کی خود قیادت کرتے ہوئے وہ کارکنان کی حوصلہ افزائی کرتے۔ ایک جلوس کے دوران ہارون الرشید اور راقم سمیت 14 کارکنان کو پولیس نے گرفتار کرکے جیل بھیج دیا، اُن میں سے ایک رکنِ جماعت حافظ محمد اسماعیل مرحوم بھی تھے جن کی بینائی نہ ہونے کے برابر تھی، تو اخباروں میں یہ شہ سرخی چھپی کہ ایک نابینا حافظ کی قیادت میں جماعت اسلامی نے جلوس نکالا، جنہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا اور پھر ہفتہ دس دن بعد ضمانت پر رہائی ہوئی۔
1970ء میں ڈاکٹر بشیر احمد چودھری جماعت اسلامی کی طرف سے ایم این اے کے امیدوار تھے، اُن کی انتخابی مہم کے انچارج ہارون الرشید تھے، وفود کی ترتیب، طے شدہ مقامات اور دوسری ضروریات اور بااثر برادریوں کے لیے ملاقاتوں کا شیڈول بناکر دینا… یہ بہت بڑا کام تھا۔ انتخابی مہم پورے ایک سال چلتی رہی۔ راقم اور ہارون صاحب نے گھر کو چھوڑ کر دفتر جماعت کو اپنا ڈیرہ بنا لیا۔ اُس وقت اُن کے پاس اینٹوں کے پانچ کامیاب بھٹے تھے جن کا انتخابی مہم کے سبب عدم توجہی کی وجہ سے بھٹہ بیٹھ گیا اور انہیں لاکھوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
اس طرح 1973ء میں سیلاب کے موقع پر متاثرین کو طبی امداد اور کیمپوں میں خوراک وغیرہ پہنچانے کا انتظام جماعت اسلامی کے ذمے تھا، جماعتی رفقاء ٹیلوں پر جاکر متاثرین کی ضروریات کا جائزہ لے کر دفتر میں رپورٹ دیتے تو متاثرین کو مطلوبہ اشیاء مہیا کردی جاتیں۔ اس تمام مہم کے انچارج بھی راقم اور ہارون الرشید صاحب تھے۔ جماعت کے رفقاء نے سیلاب متاثرین کی جس طرح خدمت کی، اُس کی مخالفین بھی دل کھول کر تعریف کرتے تھے۔
ہارون الرشید صاحب ایک انتہائی ملنسار شخصیت کے حامل انسان تھے۔ ضلع کے تمام لوگوں کے ساتھ رابطہ رکھتے اور اُن کی خوشی و غمی میں شرکت کرتے۔ ضلع میں جہاں بھی اُنہیں کسی کے انتقال کی خبر ملتی وہ اُس کے جنازے میں شرکت کرتے، نماز جنازہ بھی پڑھاتے اور میت کی تدفین کے لیے قبرستان بھی ساتھ جایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اُن کے انتقال کی خبر ضلع بھر میں پھیلی تو دور دراز سے ہر طبقہ زندگی سے کثیر تعداد میں لوگ اُن کے جنازے میں شریک ہوئے۔ خصوصاً نائب قیم صوبہ سندھ مولانا حزب اللہ جکھرو، امیر ضلع سکھر اور امیر شہر سکھر محترم زبیر حفیظ صاحب بھی جنازے میں شریک ہوئے۔ جنازے میں شریک ہر شخص اس موقع پر سوگوار نظر آرہا تھا۔ محترم ڈاکٹر انوارالحق امیر جماعت اسلامی ضلع رحیم یار خان نے اُن کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور اس موقع پر مرحوم کی سماجی، دینی اور دیگر خدمات بیان کی گئیں۔
ہارون الرشید صاحب نے اپنے دورِ امارت میں عید کے موقع پر عید ملن پارٹیوں کا اہتمام شروع کرایا، جن میں شہر کے تمام طبقات کو بلایا جاتا اور اُن کے سامنے جماعت کی دعوت بھی پیش کی جاتی اور اُن کی تواضع بھی کی جاتی۔ اس کے علاوہ ہارون الرشید صاحب کی کوشش اور خواہش تھی کہ جماعت کوئی ایسا تعلیمی ادارہ بنائے جس میں طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن پاک باترجمہ کی تعلیم بھی دی جائے، اور خصوصاً اسلامیہ ماڈل ہائی اسکول جس کے وہ منتظم تھے، وہاں پر انہوں نے یہ سلسلہ شروع کیا جو کہ تاحال جاری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہاروں الرشید صاحب کو نیک سیرت اور تعلیم یافتہ گیارہ بیٹیوں اور تین بیٹوں سے نوازا۔ درمیانہ بیٹا امین الرشید عرف ٹیپو، ہارون صاحب کی وفات سے چند ماہ قبل انتقال کر گیا، جس کی وجہ سے آپ کو بہت صدمہ ہوا۔ چھوٹا بیٹا سعید الرشید رازی امریکہ میں رہتا ہے، اور بڑے صاحب زادے مامون الرشید خدمتِ خلق کے حوالے سے اپنے والدِ محترم کے جانشین ہیں، سکھر میں میڈیسن کا کاروبار کرتے ہیں اور الخدمت فائونڈیشن سکھر ضلع کے صدر ہیں۔ اس طرح اُن کی بچیاں بھی مختلف مقامات پر سرگرم ذمہ داران ہیں۔ اِن شاء اللہ اُن کی اولاد کی تحریک اور دین کے لیے جدوجہد اور خدمتِ خلق کی سرگرمیاں اُن کے لیے صدقۂ جاریہ ہوں گی۔
ہارون الرشید صاحب کی وفات کے دوسرے دن محترم سراج الحق صاحب امیر جماعت اسلامی پاکستان سندھ کے دورے سے واپسی پر اُن کے لواحقین سے تعزیت کے لیے رحیم یار خان اُن کی رہائش گاہ پر تشریف لائے۔ اس موقع پر خطاب میں انہوں نے کہا کہ ہارون صاحب اور اُن کی فیملی نے ساری زندگی اقامتِ دین کی جدوجہد اور خلق کی خدمت میں گزاری، رحیم یار خان کی جماعت میں اُ ن کا خون پسینہ شامل ہے، اور اُن کی جماعت کے لیے خدمات جماعت کے کارکنان اور وابستگان کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اُن کے صاحبزادے مامون الرشید بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں اور سکھر اور رحیم یار خان میں ہر جگہ غرباء و مساکین اور عوام الناس کی خدمت کے لیے ہمہ تن مصروف ہیں۔ اُنہوں دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، اور حسبِ سابق اقامت ِدین کی جدو جہد میں انہیں ثابت قدم رکھے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا