ہمارانصابِ تعلیم اور گلوبل ویلیج کے چودھری

مملکت خداداد پاکستان کو اپنی مخصوص تہذیبی شناخت اور جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے روزِ اوّل سے دشمن کے ہمہ جہت حملوں کا سامنا ہے۔ گو کہ اسلام کے نام پر بنے اس ملک میں اسلامی نظام نافذ ہوسکا، نہ اسلامی نظام تعلیم… لیکن پاکستان کا دستور اور پاکستانی عوام کی اپنے دین اور تہذیب و ثقافت سے محبت دشمن قوتوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہماری نصابی کتب سے اللہ، رسول اور قرآن کا نام تک نکال باہر کرنے کے درپے ہیں، اور مختلف حیلے بہانوں سے ہمارے کلچر پر حملہ آور ہیں۔
پچھلے سال نیشنل کریکولم کونسل اسلام آباد نے پاکستان بھر کے اسکولوں کے لیے سنگل نیشنل کریکولم کا ڈول ڈالا، پھر اس کے تحت درسی کتب تیار کروائیں۔ کتابیں چھپنے سے پہلے اقلیتی کمیشن نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ ’’لازمی مضامین، یعنی اُردو، انگریزی اور سوشل اسٹڈیز کی کتب سے حمد، نعت، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین، اسلامی تاریخ کی نامور شخصیات یعنی مسلم ہیروز کے متعلق اسباق ختم کیےجائیں، کیونکہ لازمی مضامین میں اسلامی مذہبی مواد کا شامل کیا جانا اقلیتی طلبہ کو اسلامی تعلیمات حاصل کرنے پر مجبور کرنے کے مترادف ہے‘‘۔
کمیشن نے تجویز دی کہ اسلام، قرآن اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اسباق کو اسلامیات کی کتاب میں شامل کردیا جائے تاکہ غیر مسلم اسلامی تعلیمات سے ”محفوظ“ رہیں۔
وزارتِ تعلیم کے کرتا دھرتائوں اور اہل کاروں کا کہنا ہے کہ ہم نے سنگل نیشنل کریکولم تشکیل دے کر امیروں غریبوں کے درمیان خلیج کو پاٹ دیا، اور یوں قوم کا بڑا مسئلہ حل کردیا ہے۔ اب امیر اور غریب کے بچے ایک کتاب پڑھیں گے۔
ان بے چارے ملازمین پر سیکولر کا دباؤ آتا ہے تو ان سے کہتے ہیں کہ ”آپ تھوڑا سا گزارا کرلیں، ہم نے آپ کی بہت سی باتیں شاملِ نصاب کی ہیں۔ اب اسلامسٹوں کا دباو ہے، اس لیے نرمی کیجیے۔‘‘
اسلامسٹ دباؤ بڑھاتے ہیں تو یہ حضرات کہتے ہیں کہ ”ہم تو حقیقت میں اسلامسٹ ہیں، ہم نے اسلامیات میں اسلامی تعلیمات کو پہلے سے زیادہ بھر دیا ہے، اس کو بچانے کے لیے آپ اردو، انگریزی اور مطالعہ پاکستان جیسے مضامین میں اللہ، قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لانے پر اصرار نہ کریں۔ اگر آپ اس معاملے میں ہمارے ساتھ تعاون نہیں کریں گے تو ہم اسلامیات کو بھی نہ بچا پائیں گے، بیرونی دبائو ہے، ہم ان کے سامنے نہیں ٹِک سکتے۔‘‘(اس بات میں بڑی حد تک حقیقت ہے۔)
امرِ واقع یہ ہے کہ تعلیم کا مسئلہ اقلیتوں کا نہیں ہے۔ اقلیت سے تعلق رکھنے والے طلبہ، ان کے والدین یا اساتذہ کو ہمارے نصاب یا نصابی کتب سے ایسا کوئی گلہ نہیں۔ اقلیتوں کو لازمی مضامین میں شامل اسلامی لوازمہ پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔ یہ ہدایات ہر کتاب میں دی ہوئی ہیں، اور ان کی مذہبی تعلیم کے اہتمام کے لیے الگ کتابیں بھی تیار ہوئی ہیں۔
اصل مسئلہ اُن قوتوں کا ہے جو پوری دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھتی ہیں۔ انھوں نے دنیا کو گلوبل ویلیج قرار دیا ہے۔ گلوبل ویلیج کے ان چودھریوں کی خواہش ہے کہ ساری دنیا کے لوگ ان کے باج گزار بنیں اور کوئی ان کو چیلنج نہ کرے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ سارے لوگ وہ پڑھیں جو یہ چودھری پڑھانا چاہتے ہیں، زبان ان کی ہو، کلچر اِن چودھریوں کا ہو۔ ساری دنیا ان کے رنگ میں رنگ جائے۔
وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ مزاحمت کرنے والوں کو ہمہ وقت بندوق کے زور پر رام کرنا ممکن نہیں ہوتا، بالخصوص مسلمانوں کو ان کی مضبوط دینی اور تہذیبی روایات کی وجہ سے مستقل طور پر غلام بنانا آسان نہیں۔ چنانچہ چودھریوں اور ان کے ایجنٹوں نے مسلمانوں میں خُوئے غلامی پیدا کرنے کے لیے ان کی تہذیب، ثقافت، زبان اور نظامِ تعلیم کو تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ چودھری اور ان کے آلہ کار دینی تعلیمات پر نت نئے سوالات اٹھاتے رہتے ہیں۔ مثلاً مذہب دورِ رفتہ کی یادگار ہے، آج کے دور میں چودہ سو سال پہلے کا نظام نہیں چل سکتا، مذہب جدید تمدنی ترقی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان کا دہرا معیار ملاحظہ ہو کہ خود ان چودھریوں (امریکہ اور یورپ) کے ہاں ایلیمنٹری اور جونیئر و سینئر ہائی اسکول میں ان کی تاریخ کے اہم واقعات اور ان کے ہیروز کے بارے میں بہت کچھ پڑھایا جاتا ہے۔ اسکولوں کے لازمی مضامین میں بائبل کو بطورِ تاریخ، کلچر، لٹریچر اور ’اخلاقیات‘ پڑھایا جاتا ہے۔
ہماری سول و ملٹری بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ کی ساری تعلیم و تربیت بھی چونکہ مغربی اداروں میں ہوتی ہے، اس لیے ان کی اکثریت مغربی تہذیب کی حامی ہے، اور انھی میں ان کے آلہ کار بھی بن جاتے ہیں۔
پاکستانی سیاست میں بھی صرف وہی لوگ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ سکتے ہیں جو ان چودھریوں کے وفادار ہوں۔ ان مغرب زدہ حکمرانوں نے بے شمار این جی اوز کو یہاں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ ان میں تعلیم سے متعلق این جی اوز بھی ہیں اور میڈیا اور خواتین کی آزادی پر کام کرنے والی تنظیمیں بھی۔ ایس ڈی پی آئی مغربی ایجنڈے کی حامل ایسی ہی ایک نام نہاد سیکولر این جی او ہے جس نے 2004ء میں پاکستانی نصابِ تعلیم پر 138 صفحات کی ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ ان این جی اوز کی نمائندہ اور اُس وقت پرویزمشرف کی حکومت میں تعلیم کی وزیر زبیدہ جلال اس کی پشت پر تھیں۔
اس رپورٹ میں دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ پاکستان کی نصابی کتابوں میں اسلام کو واحد صحیح مذہب قرار دے دیا گیا ہے جس سے غیر مسلموں کی دل آزاری ہورہی ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کو اسلامی ریاست کہنے پر تنقید کی گئی۔ ملک کے دفاع کو شہریوں کا اوّلین فرض قرار دینے پر بھی اعتراض کیا گیا تھا۔ اسی طرح کہا گیا تھا کہ محمد بن قاسم، میجر عزیز بھٹی، راشد منہاس، لانس نائیک محفوظ شہید جیسے مسلمان ہیروز کو نصاب میں شامل کرکے ہندوؤں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت پیدا کی جارہی ہے۔ اس سے غیر مسلم پاکستانی عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں جہاد کے بارے میں آیات اور احادیث سے بچوں میں لڑنے کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جس سے دہشت گردی کو بڑھاوا ملتا ہے۔ یہ اعتراض بھی اس رپورٹ میں شامل تھا کہ اسلامیات لازمی کے علاوہ دیگر درسی کتب میں قرآن مجید کی آیات کیوں شامل کی گئیں؟ نیز اس رپورٹ میں تجویز دی گئی کہ چونکہ ایک ترقی پسند، اعتدال پسند اور جمہوری پاکستان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ نصابی کتب ہیں، اس لیے ٹیکسٹ بک بورڈ اور وزارتِ تعلیم کے نصابی ونگ کو ختم کردینا چاہیے۔ واضح رہے کہ مذکورہ این جی او کی سفارش پر کریکولم ونگ کو ختم کردیا گیا تھا۔ 2006ء کا کریکولم انھی کی سفارشات کی روشنی میں تیار ہوا۔
آج بھی نصاب کو سیکولر بنانے کے لیے جو شور کیا جارہا ہے یہ دراصل ایس ڈی پی آئی کی اسی رپورٹ کی بازگشت ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو اصلاحات کی جو 27 نکاتی فہرست تھمائی تھی، اُس میں نکتہ نمبر 25 یہی ہے کہ مدارس کو مین اسٹریم تعلیمی اداروں میں شامل کیا جائے۔ سنگل نیشنل کریکولم بھی دراصل ایف اے ٹی ایف کا پراجیکٹ اور اسی نکتے کا شاخسانہ ہے۔
بین الاقوامی اداروں کو ہمارے ملک کے تعلیمی نصاب کی فکر بلاوجہ نہیں ہے۔ ورلڈ بینک اور یو ایس ایڈ پاکستان میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ تعلیم کے میدان میں بھی بے شمار منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ کررہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ یہاں کا تعلیمی نظام مکمل طور پر ان کی نگرانی میں چلایا جائے۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) کی رپورٹوں میں بھی پاکستان کا نصابِ تعلیم نمایاں ہوتا ہے، اور اس سلسلے میں ہماری مقامی این جی اوز بھی ہراول دستے کا کردار ادا کرتی ہیں۔
اقلیتی کمیشن کی 2016ء کی رپورٹ اور سفارشات میں کہا گیا کہ ’’پاکستان کی نصابی کتب میں محمد بن قاسم کی فتح سندھ، سلطان محمود غزنوی کا 17مرتبہ سندھ پر حملہ فخریہ انداز سے کیوں شامل ہے؟ تہذیب و ثقافت کے اظہار کے لیے ناچ گانا اور شادی بیاہ کی رسومات دکھانے کے بجائے جنگوں کو کیوں پیش کیا جارہا ہے؟
پاکستان میں فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے زمانے سے امریکہ اور یورپ کے دبائو پر تعلیمی نصاب میں تبدیلیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اور جس کے تحت قرآنی آیات کو نصاب سے نکالا گیا تھا وہ ابھی رُکا نہیں بلکہ خطرناک حد تک آگے بڑھ چکا ہے۔ حکومت پیپلز پارٹی کی ہو، مسلم لیگ کی ہو یا تحریکِ انصاف کی… یہ سلسلہ باقاعدگی کے ساتھ جاری ہے اور مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔
اسلام کو اسلامیات تک محدود کرنے کا مقصد مسلمان عوام کو دھوکا دینے کی کوشش ہے کہ دیکھیں ہم اسلام سے کوئی دشمنی نہیں رکھتے، نہ اسلامی تعلیمات پر کوئی پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ درحقیقت ان کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان بچے نماز روزے کے بارے میں بے شک جان لیں، لیکن وہ اسلام کو طرزِ زندگی اور مکمل نظام، حیات کے طور پر سمجھنے سے قاصر رہیں تاکہ مغربی نظام کے لیے کوئی چیلنج نہ رہے۔
اسلامیات کے ذریعے سے اسلامی تعلیم کے معنی یہ سمجھے جاتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو ہفتے کے 48 گھنٹوں میں سے 42،43 پیریڈز میں انگریزی، اردو، سوشل اسٹڈیز، سائنس، معاشرتی علوم اور ریاضی وغیرہ اس طرز پر پڑھائیں کہ کہیں بھی اللہ، رسول اور قرآن کا نام نہ آئے، اور 3،4 پیریڈز میں بچوں کو یہ بھی بتادیا جائے کہ تمھیں جاننا چاہیے کہ ایک ہستی کا نام اللہ بھی ہے، اور ایک ہستی کو اللہ نے رسول بھی بناکر بھیجا تھا۔ لیکن اس اللہ اور اس رسول کا کوئی عمل دخل ان کو باقی پیریڈز میں نظر نہ آئے۔ بلکہ اس کے برعکس تمام علوم و فنون اس طرز پر پڑھائے جارہے ہیں جس طرز پر اہلِ مغرب نے انھیں مرتب کیا ہے۔ اس طرح کی کتابیں پڑھنے والے بچے اپنی تاریخ و تہذیب سے بےبہرہ اور اپنی شناخت سے محروم ہوں گے۔ اس تعلیم سے کامیاب ماڈل اور ٹک ٹاکرز تو شاید بن سکتے ہیں، لیکن اس سے آپ بالکل توقع نہ رکھیں کہ آپ کے ہاں وہ نسل کبھی پروان چڑھ سکے گی جس کی شناخت اور انفرادیت اسلام ہو۔ تعلیم کا یہ انتظام دراصل ہماری شناخت اور انفرادیت کو ختم کرنے کا پروگرام ہے۔
دوسری طرف ان قوتوں کی ہمارے کلچر پر یلغار ہے۔ یہ قوتیں نسوانی اور انسانی حقوق کی آڑ میں سڑکوں اور چوراہوں پر کبھی میراتھن ریس اور کبھی عورت مارچ کے نام پر ہنگامہ برپا رکھتی ہیں۔ میڈیا کی آزادی کے فوراً بعد2007ء میں ان این جی اوز نے حدود آرڈیننس کے خلاف مہم چلائی، اسلامی سزائوں کو غیر انسانی قرار دیا، اور خواتین کے حقوق کے نام پر ایسی قانون سازی کروائی جو مادر پدر آزادی کے لیے راستہ ہموار کررہی ہے۔
روز بروز ہماری انفرادیت فنا ہوتی چلی جارہی ہے، اور ہماری حکومت، ہمارے برسرِ اقتدار طبقے اور ہمارے بااثر طبقے اہلِ مغرب کے سامنے یہ نقشہ پیش کررہے ہیں کہ ہم میں اور تم میں کسی لحاظ سے بھی کوئی فرق نہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو فنڈز چاہئیں تاکہ ان کے اللے تللے جاری رہیں۔ اہلِ سیاست کی اکثریت ذاتی اور گروہی مفادات کی اسیر ہے۔ وطنِ عزیز کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی فکر صرف جماعت اسلامی کی تاریخ رہی ہے۔ لیکن اس وقت وہ ایک آدھ احتجاج کرلیتی ہے تو یہ قوتیں پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔ اسلامی تحریک کی قیادت خوش ہوجاتی ہے کہ ہم نے ان کو پسپا کردیا۔ حالانکہ یہ پسپائی ان کی حکمت عملی کا حصہ ہوتی ہے۔ یہ قوتیں باقاعدہ پرو ایکٹو پروگرام کے تحت پیچھے ہٹتی ہیں، پھر مناسب موقع دیکھ کر آگے بڑھ جاتی ہیں۔ ان کی پیش قدمی اور پس قدمی دونوں ایک طے شدہ پروگرام کے تحت ہوتی ہے۔
حالات اگر اسی طرح رہے تو کچھ عرصے بعد دن دہاڑے سرِبازار بے حیائی کے وہ مناظر دیکھنے کو ملیں گے جو یورپ کی پہچان ہیں۔ ائیربلیو میں سب مسافروں کے سامنے ایک جوڑے کے بوس و کنار کا تازہ واقعہ اور اس کی وکالت کرنے والے اینکرز اس کی محض ایک جھلک ہے۔
آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے۔