نظام حکومت کی ناکامی! اسباب کیا ہیں؟

پاکستان میں حکمرانی کا نظام اپنی افادیت کھوچکا ہے۔ عام آدمی سمیت معاشرے کے خواص بھی حکمرانی کے نظام کو چیلنج کرتے ہیں۔ ان کے بقول یہ نظام اصلاحات کے تناظر میں ایک بڑی تبدیلی چاہتا ہے، کیونکہ جس روایتی، فرسودہ اور پرانے خیالات کی بنیاد پر ہم حکمرانی کا نظام چلارہے ہیں وہ نہ تو بہتر نتائج دے سکتا ہے اور نہ ہی یہ نظام عوام میں اپنی سیاسی ساکھ قائم کرسکے گا۔
اگرچہ ہمیں اپنے حکمرانی کے نظام کی شفافیت کے لیے ایک بڑے سیاسی ایجنڈے یا اصلاحات پر مبنی اقدامات کی ضرورت ہے، لیکن اس کے لیے بڑا مسئلہ ریاستی وحکومتی سطح پر مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کا نہ ہونا بھی ہے۔ اگرچہ مسائل کی نوعیت خاصی سنگین ہے اور مسائل بھی بہت زیادہ ہیں، لیکن اگر ہم پانچ بڑی ترجیحات کا تعین کریں جہاں ہمیں اصلاحات کے تناظر میں بڑے اقدامات کی ضرورت ہے تو اس کی درجہ بندی کچھ یوں کی جاسکتی ہے:
٭عدالت، پولیس، تفتیش کے تناظر میں شفاف انصاف کا مؤثر نظام۔
٭بیوروکریسی کی سطح پر تبدیلیاں اور ان کو عوامی مفاد کے ساتھ جوڑنا۔
٭حکمرانی کے نظام میں شفافیت پیدا کرنے کے لیے ایک مضبوط اور مربوط مقامی حکومتوں کا نظام، جس میں اختیارات کی تقسیم کا عمل شفاف ہو۔
٭تعلیم اور صحت میں بڑی سرمایہ کاری اورایمرجنسی کا اعلان۔
٭افراد کے مقابلے میں اداروں کی مضبوطی، اور لوگوں کو قانون کی حکمرانی کے تابع کرنا۔
وزیراعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے ان ہی اصلاحات پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی بات کرتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ جب بھی اقتدار کی سیاست کا حصہ بنے، روایتی سیاست کے مقابلے میں اصلاحات کو بنیاد بنا کر ایک بڑی تبدیلی کی طرف پیش رفت کریں گے۔ لیکن اگر ان حکومت کے پہلے تین برسوں کو دیکھیں تو وہ اپنی خواہش کے باوجود کوئی بڑی تبدیلی پیدا نہیں کرسکے، حالانکہ وہ پولیس اور مقامی حکومتوں کو اپنی بڑی ترجیح کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ اصلاحاتی ایجنڈے کو طاقت نہ ملنے کی چار بڑی وجوہات ہوسکتی ہیں:
(1) حکمران طبقے کی ترجیحات میں جب طاقت کا کھیل اہم ہوجاتا ہے تو حکومتی ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں۔
(2) اصلاحات کے لیے دو تہائی اکثریت حکومت کو درکار ہے، اس کی عدم موجودگی اور خاص طور پر اتحادیوں کی بنیاد پر قائم کمزور حکومت بڑی تبدیلی میں مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔
(3) حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان جاری سیاسی محاذ آرائی، بداعتمادی اور الزام تراشی کی سیاست، پارلیمنٹ کا غیر مؤثر ہونا، باہمی تعاون کے امکانات کا نہ ہونا، اور عدم مشاورت جیسے معاملات۔
(4) حکومت کے مقابلے میں وہ عناصر جو تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، یا ایک بڑے مافیا کی شکل اختیار کرگئے ہیں، ان سے نمٹنا مشکل بن گیا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ ہم سیاست میں جمہوریت، قانون کی حکمرانی، اداروں کی بالادستی پر زور تو بہت دیتے ہیں لیکن عملی طور پر جو کچھ اس تناظر میں کرنا چاہیے اس کی ہر سطح پر نفی کرتے ہیں! اگر حکومت اصلاحاتی ایجنڈے کو بنیاد بناکر کچھ نہ کرے اور اس کے لیے محض جواز در جواز پیش کرتی رہے تو اِس سے اُس کی اپنی اہمیت اور ساکھ بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان مسائل تو خوب شدت سے اجاگر کرتے ہیں مگر مسائل کے حل میں جو رکاوٹیں ہیں انہیں دور کرنے، یا وہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اُس کے لیے ایجنڈا کیا ہونا چاہیے، اس کی نفی نظر آتی ہے۔ ریاست اور حکومت کا جو بھی نظام ہے وہ محض ردعمل کی سیاست کے طور پر نہیں چلایا جاسکتا۔ ہمیں جز وقتی، وسط مدتی، طویل مدتی بنیادوں پر ایک سیاسی روڈمیپ کی ضرورت ہے۔ یہ روڈمیپ یقینی طور پر ایک بڑی قومی مشاورت کی بنیاد پر سامنے آسکتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ اپنی افادیت کھوچکی ہے۔ پارلیمنٹ کو ہم نے غیر ضروری کاموں یا محاذ آرائی کے کھیل کا حصہ بنا کر غیر اہم بنادیا ہے۔
ملک میں پڑھے لکھے علمی و فکری افراد یا اداروں نے علمی سطح پر مختلف شعبوں میں شفاف اور مؤثر اصلاحات کے تناظر میں اہم کام بھی کیے ہیں اور ان کی ٹھوس تجاویز بھی موجود ہیں۔ لیکن سوال یہی ہے کہ ’’بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟‘‘ ہر ادارہ دوسرے ادارے کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتا ہے لیکن اپنے ادارے کا جائزہ لینے یا خود احتسابی کا نظام قائم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ آپ عام آدمی سے اُس کی مشکلات کا پوچھیں تو وہ اپنے بنیادی حقوق کی عدم فراہمی پر نالاں نظر آتا ہے۔ بدقسمتی سے یہاں حکومت اور حزبِ اختلاف کا کردار ایک دوسرے کو نیچے گرانا، عدم تعاون، سیاسی وجود کو تسلیم نہ کرنا، غیر ضروری مباحث یا شخصیتوں کے ٹکرائو میں الجھ کر رہ گیا ہے۔حکومت یا ریاستی نظام پر دبائو بڑھانے کے لیے عمومی طور پر سول سوسائٹی،میڈیا اور سیاسی جماعتیں ایک بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ لیکن یہ تینوں ادارے بہت کمزور پوزیشن پر کھڑے ہیں اور ان کی توجہ کا مرکز اصلاحات سے زیادہ طاقت کے مراکز میں اپنی سیاسی طاقت کو تسلیم کروانا اورکچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر اپنے معاملات طے کرنا رہ گیا ہے۔
یہ بات سمجھنا ہوگی کہ محض قانون یا پالیسی بنانا اہم نہیں ہوتا، بلکہ اس پر عمل درآمد کے ادارہ جاتی نظام یا میکنزم کی تشکیل، نگرانی کا نظام اور اس نظام میں جواب دہی پیدا کرنا اہم ہوتا ہے۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں پالیسیوں اور قانون سازی کی بہتات ہے اور ہم پہلے سے موجود قوانین کی موجودگی میں قوانین در قوانین بنا لیتے ہیں۔ ایک کوشش یہ ہوتی ہے کہ عالمی سطح پر کچھ اصلاحات کی مدد سے اپنی تصویر کو بہتر بناکر پیش کریں۔ جبکہ عملی طور پر ہماری قومی تصویر میں کئی نمایاں دھبے ہوتے ہیں، جن کو دور کرنے کے بجائے ہم معاملات کو مزید خراب کرنے کا کھیل کھیلتے ہیں۔ اس لیے محض اداروں پر تنقید، یا ان کی تضحیک کرنا اہم نہیں ہوتا، بلکہ ان اداروں یا سیاست سے جڑی ان اصلاحات پر عمل اہم ہوتا ہے۔ ہمیں اجتماعی طور پر مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے، نہ کہ ہم مسئلے کے بگاڑمیں حصہ دار بن جائیں اور یہ سوچ آگے بڑھے کہ ہم مسئلے کا حل نہیں چاہتے۔ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو بحران ہے وہ کیوں ہے، اورکیسے اس بحران سے اجتماعی طور پر نمٹا جاسکتا ہے۔
اصولی طور پر وزیراعظم کی طاقت پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے وزیراعظم پارلیمنٹ میں آنے کے بجائے باہر کے معاملات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ وہ اپنے اصلاحاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے پارلیمنٹ کا فورم استعمال کریں، اورجو بھی تبدیلی لانا چاہتے ہیں، یا اس میں جو بھی رکاوٹیں یا چیلنج ہیں ان کو سب کے سامنے پیش کریں۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارا سیاسی، انتظامی، قانونی اورمالیاتی نظام نہ صرف روایتی جکڑ بندی کا شکار ہے بلکہ اپنی اہمیت کھورہا ہے۔ اگر ہم کو واقعی آگے بڑھنا ہے تو ہمیں اپنے غیر معمولی حالات میں کچھ غیر معمولی اقدامات کی طرف توجہ دینا ہوگی، اورہر شعبے کی قیادت کو باہمی مشاورت سے اعتماد میں لینا ہوگا۔ بڑی اصلاحات کا عمل ہمیشہ بہت سے لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ اس روایتی نظام سے ان کے مفادات جڑے ہوتے ہیں،لیکن ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ سے ان فریقین کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے جو تبدیلی میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔