مقبوضہ کشمیر:غیر معمولی فوجی نقل و حرکت

ایک بار پھر ’’کچھ ‘‘ہوجانے کا خوف

مقبوضہ جموں وکشمیر آج ایک بار پھر 4 اگست2019ء میں کھڑا ہے جب ماحول پر ایک انجانے خوف اور عجیب سی مایوسی اور سکوت کی چادر تنی ہوئی تھی۔ فوج کی بڑی تعداد کارواں در کارواں مقبوضہ علاقے کا رخ کررہی تھی، اور یوں لگ رہا تھا کہ جنگ کا کوئی میدان سجنے والا ہے۔ عوام کی نقل و حرکت محدود کی جارہی تھی اور کسی بھی وقت کرفیو کا بگل بجنے کا امکان موجود تھا۔ ایک افراتفری کا عالم تھا اور غیر یقینی اور تذبذب کے ماحول میں لوگ راشن اور ایندھن ذخیرہ کررہے تھے۔ یہاں تک کہ بازاروں میں اشیائے خورونوش کی کمیابی ہوگئی تھی۔ چہار سُو ’’کچھ ہوجانے‘‘ کے خوف کے سائے لہرا رہے تھے، مگر کیا ہوگا؟اس کا کسی کو علم نہیں تھا۔ پھر پانچ اگست کی دوپہر بھارتی لوک سبھا میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک بل کا مسودہ ہوا میں لہرایا، اور آتشیں الفاظ اُن کی زبان سے انگاروں کی طرح باہر آرہے تھے۔ بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی شناخت کے حامل تمام فیصلے اور قول وقرار کالعدم قرار پاچکے تھے اور اس کی جگہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی ریاست کو دو ٹکڑوں میں بانٹ کر اس کی شناخت ختم کی جا چکی تھی۔ ریاست کو اس کے آئین، پرچم اور اسٹیٹ سبجیکٹ سے محروم کرکے بے شناخت کیا جا چکا تھا، اور یوں کشمیر کو نگلنے کی راہ کی تمام رکاوٹیں دور کی جا چکی تھیں۔ جب کشمیر میں کچھ ہوجانے کا خوف عیاں تھا تو بھارتی حکومت جھوٹ کا سہارا لے کر کچھ نہ ہونے کی یقین دہانیاں کرا رہی تھی۔ تجسس کے مارے فاروق عبداللہ نے دو دن پہلے نریندر مودی سے ملاقات کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ بھارت جموں و کشمیر میں کیا کرنے جا رہا ہے؟ نریندر مودی نے فاروق عبداللہ کو اپنے مذموم ارادوں کی ہوا تک نہ لگنے دی اور یہ کہہ کر مطمئن کرکے واپس بھیج دیا کہ کچھ بھی نہیں ہورہا۔ مگر تین دن کے بعد بہت کچھ ہوا۔
اب ایک بار پھر کشمیر میں بڑے پیمانے پر فوجی نقل وحرکت ہورہی ہے۔ انتظامیہ امن وامان کے قیام اورکرفیو کے نفاذ کی اسکیم بنارہی ہے۔کرفیو پاسز تیار اور جاری کیے جارہے ہیں۔ کنٹرول لائن کے قریب کنکریٹ کے لاتعداد بنکر تعمیر کیے جارہے ہیں، اور ان کی تعمیر کی تکمیل نہایت عجلت میں کی جارہی ہے۔ جنگ بندی کا فائدہ اُٹھا کر بھارتی فوج بنکروں کی تعمیر بے خوف ہوکر کررہی ہے۔ بھارتی حکام نے فوجی قافلوںکے وادی میں داخل ہونے کی خبروں پر کہا ہے کہ یہ فوجی بھارت کی مختلف ریاستوں میں انتخابات میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے بھیجے گئے تھے اور اب انہیں واپس اپنی اصل جائے تعیناتی پر لایا گیا ہے۔ یہ ایک بودی دلیل ہے، کیونکہ کشمیر سے نکلتے ہوئے تو ان فوجیوں کو کسی نے نہیں دیکھا، نہ ہی فوجی قافلوں کی کشمیر سے نکلنے کی کوئی خبر رپورٹ ہوئی، حالانکہ کشمیر سے اس طرح فوجی قافلوں کا ا نخلاء بھی اتنی ہی اہم خبر تھی جتنی کہ قافلوں کے داخلے کی خبر اہم ہے اور دنیا کی توجہ کا مرکز بنی ہے۔
ماضی میں یہی کھیل باڑھ کی تعمیر کے لیے بھی کھیلا گیا تھا۔ 2004ء کی جنگ بندی سے فائدہ اُٹھاکر بھارت نے کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر باڑھ کا کام مکمل کیا تھا۔ جب تک کنٹرول لائن پر گولہ باری اور فائرنگ جاری رہی، بھارت کو باڑھ لگانے میں خاصی مشکل پیش آتی رہی۔ بھارتی فوجی باڑھ کا کام چھوڑ کر پیچھے بھاگتے رہے۔ تعمیراتی سامان کھلے آسمان تلے خراب ہوتا رہا۔ باڑھ کی تعمیر کی رفتار حد درجہ سست روی کا شکار رہی۔ 2003ء کی جنگ بندی بھارتی فوجوں کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوئی اور انہوں نے ہر قسم کے خوف اور رکاوٹ سے آزاد ہوکر بہت پُرسکون انداز میں باڑھ کی تعمیر مکمل کی۔ اب ایک بار پھر اسی جنگ بندی کی تجدید کرکے پختہ بنکروں کی تعمیر مکمل کی جارہی ہے۔
جہاں بھارت بہت جلدی میں معلوم ہورہا ہے، وہیں کشمیری عوام شدید اضطراب کا شکار ہیں، اور کچھ اور ہوجانے کا خوف ہر چہرے سے عیاں ہے۔ مگر اِس بار خوف کا وہ عالم باقی نہیں رہا، کیونکہ بھارت نے پانچ اگست کو کشمیریوں سے سب کچھ چھین لیا تھا۔ اب سننے میں آرہا ہے کہ کشمیر کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا جارہا ہے۔ جموں کو الگ ریاست بناکر چناب ویلی کے کئی مسلمان علاقوں اور جنوبی کشمیر کے پہاڑی علاقوں کو جموں کے ساتھ ملایا جارہا ہے، جبکہ لداخ کو بدستور یونین ٹیریٹری رکھ کر باقی ماندہ وادی کشمیر کو اس کا حصہ بناکر یونین ٹیریٹری ہی رکھا جا ئے گا۔ اس طرح کشمیرکا نام اور جغرافیائی وجود مٹانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ بھارت کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ تنازع کشمیر کو محض وادیِ کشمیر کی مسلمان آبادی کا مسئلہ بنا کر پیش کیا جائے۔ اس سے مسئلے کی سنگینی اور شدت کم ہوجاتی ہے اور مغربی دنیا اسے مسلمانوں کی روایتی بے چین طبیعت کا شاخسانہ جان کر اس کی زبانی کلامی حمایت سے بھی دستکش ہوجائے گی۔ اسی لیے بھارت نے اس تحریک پر اسلامی شدت پسندی کا لیبل لگانے کی کوشش کی تھی۔ اب اُلٹی سیدھی تقسیم کرکے اسے وادی کے مسلمانوں کی ایک معمولی سی تعداد کا مسئلہ بنایا جانا مقصود ہے۔ یہ فلسطین ماڈل پر عمل درآمد کا نقطہ ٔ آغاز ہے، جس کے تحت فلسطین کے وسیع و عریض علاقے اور مسئلے کو سمیٹ کر غزہ کی پٹی میں بند کردیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں ترجمان دفتر خارجہ عبدالحفیظ چودھری اس صورتِ حال پر اپنا بیان دے چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ بھارت ایسا نہیں کرسکتا، ایسا کرنا اقوام متحدہ کی قراردادوں اور چارٹر کے خلاف ہے۔ مگر بھارت پہلے بھی وہ سب کچھ کرچکا ہے جو اُس نے کرنا چاہا، اور اب بھی وہ سب کچھ کر گزرے گا جس کا ارادہ ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں اور چارٹر اس کے پیروں کی زنجیر نہ پہلے بنے، نہ اب اس کا کوئی امکان ہے۔ دنیا کے سب بااثر وڈیرے بھارت کے ساتھ ہیں اور اس کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں۔ ایسے میں بھارت کو بین الاقوامی قانون اور اصولوں کی کیا پروا ہوسکتی ہے! پاکستان کو اس ساری صورت حال میں اب کم از کم اتنی سرگرمی دکھانا ہوگی جو غزہ کی حالیہ جنگ میں دکھائی گئی تھی۔ کشمیریوں کی حمایت پر کھلے انداز میں کمربستہ ترکی کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہوگا، اور کشمیر کو بھارتی مگرمچھ کے جبڑوں سے چھڑانے کا عملی بندوبست کرنا ہوگا۔ وگرنہ دنیا ایک اور اسپین، ایک اور فلسطین کو کشمیر کی شکل میں تحلیل ہوتا دیکھے گی۔ اس سے پہلے ظالم کا ہاتھ روکنا اور بازوئے قاتل کو مروڑنا ہوگا۔