وزیراعظم کے دربار میں تُوتی کی آواز

دفتر وزارتِ عظمیٰ سے 3 جون 2021ء کو ایک فرمان جاری ہوا ہے۔ اس فرمان کی رُو سے:
’’ وزیراعظم نے بخوشی حکم دیا ہے کہ آئندہ اہم مواقع پر اور ایسی تمام محافل و تقریبات میں جو وزیراعظم کے اعزاز میں منعقد کی جائیں گی، اجلاس کی کارروائی لازماً قومی زبان اُردو میںہوگی۔ وزیراعظم کے اس حکم پر باضابطہ عمل درآمد کے لیے تمام متعلقین دیگر ضروری اقدامات عمل میں لائیں گے‘‘۔
وزیراعظم کے اس فرمان کا فرماں برداروں نے کیا حشر کیا؟ نوکر شاہانہ ستم ظریفی دیکھیے کہ معتمد برائے وزیراعظم جناب محمد اعظم خان کے دستخطوں سے جاری ہونے والا یہ فرمان مکمل طور پر فرنگی زبان میں ہے۔ کیا ہی بھلا ہوتا اگر وزیراعظم اور محمد اعظم یہ حکم دیتے کہ حکم نامہ بھی قومی زبان اُردو ہی میں جاری کیا جائے، تاکہ اس حکم پر عمل درآمد کے معاملے میں وزیراعظم کی سنجیدگی کا احساس’تمام متعلقین‘ کو اچھی طرح ہوجائے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ انگریزی میں کوئی Jokeکیا گیا ہے۔ یہی فرمان اگر قومی زبان (اور آئین کی رُو سے سرکاری زبان) میں جاری ہوتا تو اس فرمان ہی کی نہیں خود وزیراعظم کی وقعت بھی قوم اور آئین کی نظر میں بڑھ جاتی۔ تمنا تھی کہ کسی طرح ہماری آواز قومی تمناؤں کی طرف سے کان بند کیے بیٹھے حکمت سازوں کے کانوں تک بھی پہنچ جاتی۔ لیکن پہنچ بھی جاتی تو بھلا وزیراعظم کے دربار میں تُوتی کی آواز کون سنتا؟ بہرحال وزیراعظم کا یہ حکم لائقِ تحسین ہے۔ خدا کرے اس پر عمل درآمد بھی ہوجائے تو مزید تحسین کی جائے۔
بھارت کی راج دھانی دہلی سے کالم نگار محترمہ نائلہ حبیب کا برق نامہ موصول ہوا ہے۔ فرماتی ہیں:
’’سلامِ مسنون۔ خیریت مطلوب۔ آپ کی بارگاہ میں ایک سوال۔ وہ یہ کہ ’’نقار خانے میں طوطی/ تُوتی کی آواز‘‘ میں درست لفظ طوطی (پرندہ) ہے یا تُوتی (آلۂ موسیقی) ہے؟‘‘
نائلہ صاحبہ نے اپنے برقی مراسلے کے ساتھ تُوتی کی تصویر بھی بھیجی ہے جو دراصل شہنائی کی تصویر ہے۔ تصویر تلے رقم طراز ہیں:
’’پنجاب و اطراف میں اسے طوطی/ تُوتی (بروزنِ جُوتی) کہا جاتا ہے۔ نقار خانے میں اس ساز کی آواز پر کان نہ دھرنا معقول بھی لگتا ہے۔ آپ سے اس پر مزید تحقیق کی درخواست ہے‘‘۔
نائلہ بی بی۔ وعلیکم سلامِ مسنون۔ خیریت خوب۔ سوال بہت خوب۔ مگر پاکستان میں ہم بھی پنجاب کے اطراف میں رہتے ہیں۔ یہاں تو کسی کو جُوتی لے کر اِس تُوتی کا وزن کرتے نہیں دیکھا۔ ہمارے زندہ دلانِ پنجاب اس آلۂ موسیقی کو شہنائی کہتے ہیں، اور باراتوں میں بجاتے رہتے ہیں۔ خاصی تیز آواز ہوتی ہے۔ خاص خاص مواقع پر، سنا ہے کہ، یہ ساز دلوں میں بھی بجنے لگتا ہے۔ اسے نفیری بھی کہتے ہیں۔ چنے چباتے ہوئے شہنائی نہیں بجائی جا سکتی۔ چناں چہ ہمارے پنجاب میں یہ محاورہ مشہور ہے کہ ’چنے چبالو یا شہنائی بجا لو‘۔ دونوں کام ساتھ نہیں ہوسکتے۔ ہمارے ملک کے خوب صورت خطے ہنزہ کی روایتی موسیقی میں شہنائی کو ایک لازمی ساز کی حیثیت حاصل ہے۔
معاف کیجیے، ہم نے تو عمر بھر (اور ابھی ہماری عمر ہی کیا ہے؟) شہنائی کو طوطی یا تُوتی کہتے کسی کو نہیں سنا۔ لغات بھی چھان مارے۔ اس نام کے کسی بھی ساز کو کسی بھی لغت میں بجتے نہیں پایا۔ لغت سے باہر کہیں بج رہا ہو تو بجا کرے۔ اب رہی محاورے کی بات، تو سچی بات یہ ہے کہ محاورے میں طوطی نہیں تُوتی ہے۔ ایک ننھی منی خوش آواز چڑیا، جس کی آواز بھی بہت مہین اور باریک ہوتی ہے، تُوت کے موسم میں تُوت کے درختوں پر چہچہاتی ہے اور تُوت بہت رغبت سے کھاتی ہے۔ اسلام آباد میں تُوتِ سیاہ کے درخت بکثرت پائے جاتے ہیں۔ توت پھلنے کے موسم میں یہ چڑیا بھی پھولی نہیں سماتی۔ خوب چہچہاتی ہے۔ توت ہی کی نسبت سے توتی کہی جاتی ہے۔ مگر موتی یا دھوتی یا کھوتی کے وزن پر نہیں، آپ نے درست فرمایا کہ، جُوتی کے وزن پر تُوتی کہی جاتی ہے۔ پَر ہے یہ چڑیا۔ ساز نہیں ہے۔ ہاں ’الغوزہ‘ نامی ایک آلۂ موسیقی کو (جو دراصل دو نلکیوں والی بانسری ہوتی ہے) البتہ طُوطک کہا جاتا ہے۔
نقار خانہ آپ کو معلوم ہی ہوگا۔ جب ذرائع ابلاغ نے اتنی ترقی نہیں کی تھی جتنی اب کر بیٹھے ہیں تو لوگوں کو اہم اطلاعات شاہی نقار خانوں سے دی جاتی تھیں۔ نقار خانے کو نوبت خانہ بھی کہتے تھے۔ دہلی میں لال قلعے کا نوبت خانہ تو آپ کے گھر سے قریب ہی ہوگا۔ شاہِ ذی جاہ کی آمد و رفت کی اطلاع دینا ہو، سحر و افطار کے وقت کا اعلان کرنا ہو، یا عید کا چاند نظر آنے کی خبر کو عام کرنا… ہر خبر کے لیے نقارے پر چوٹ ماری جاتی تھی اور اس کی آواز سے پورا شہر گونج اُٹھتا تھا۔ ایسے نقار خانے میں بھلا توتی کی آوازکون سنتا ہے؟ نقارہ بجانے والے کو اُس زمانے میں نقارچی کہا جاتا تھا، آج کل وزیر اطلاعات کہنے لگے ہیں۔ نقارہ بجا کر کوئی کام کرنے کا مطلب ہوتا ہے کھلم کھلا اور علی الاعلان کرنا۔ جیسا کہ نظیرؔ اکبر آبادی نے ’کھیپیوں‘ کو سمجھایا:
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لُوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
یہ مسئلہ تو حل ہوا کہ محاورے میں تُوتی کیوں ہے۔ چلیے اب یہ قضیہ بھی چُکاتے چلیں کہ طوطی کیوں نہیں ہے؟ عوام تو خیر طوطے کی مادہ کو بھی طوطی (بروزنِ کھوتی) کہہ دیتے ہیں، مگر طوطا درست ہے یا توتا؟ اس پر بھی ماہرینِ زبان و بیان میں خاصی بحثا بحثی ہوئی۔ اہلِ زبان اور اہلِ لغت تو یہ کہتے ہیں کہ ’توتا‘ ہی درست املا ہے۔ تاہم اس باب میں ہمیں یوسفیؔ صاحب کی رائے پسند آئی کہ طوطے کو اگر ’ط‘ سے لکھا جائے تو نہ صرف زیادہ ہرا محسوس ہوتا ہے بلکہ اگر غور سے دیکھیں تو اُس کی چونچ بھی نظر آنے لگتی ہے۔ فارسی میں طُوطی (بروزنِ جُوتی) پرندے کو کہا جاتا ہے۔ ’’طوطی ہا انواعِ گوناگونی دارند‘‘۔ یعنی پرندوں کی گوناگوں اقسام ہوتی ہیں۔ گوناگوں کا مطلب ہے رنگارنگ۔ اچھا قول کہنے والے شخص کو، اچھے مقرر کو، یا اچھے شاعر کو بھی پرندہ نہ ہونے کے باوجود ’طُوطیِ شیریں مقال‘ کہنا پسند کیا جاتا ہے۔ جس کو کہا جائے اُس کو بھی پسندآتا ہے۔ ’طُوطی بولنا‘ محاورہ ہے، جس کا مطلب ہے شہرت ہونا، اثر و رسوخ ہونا یا نام وَری۔ اُستاد ابراہیم ذوقؔ نے خبر دی:
ہے قفس سے شور اک، گلشن تلک، فریاد کا
خوب طُوطی بولتا ہے اِن دنوں صیاد کا
ت سے تُوتی بولتی ہے، مگر ط سے طُوطی بولتا ہے، گو کہ جہاں طوطی لکھنا چاہیے وہاں بھی ’تُوتی‘ لکھنے کی اجازت ہے۔ مگر ’بولتی ہے یا بولتا ہے‘ کے ضمن میں ایک دلچسپ قصہ سن لیجیے۔ مندرجہ بالا شعر سن کر ایک لکھنوی شاعر نے حضرتِ ذوقؔ پر اعتراض کیا:
’’آپ نے طوطی کو مذکر باندھ ڈالا، حالاں کہ اس میں یاے معروف (یعنی چھوٹی ی) بطور علامت ِ تانیث موجود ہے‘‘۔
ذوقؔ نے کہا:
’’ محاورے میں طوطی مذکر ہی ہے اور محاورے پر کسی کا اجارہ نہیں‘‘۔
یہ کہہ کر مہمان شاعر کو ساتھ لیے پرندوں کے بازار جا پہنچے، جو محترمہ نائلہ حبیب کے دہلی کی جامع مسجد کے قریب ہی لگتا تھا۔ ایک دہلوی صاحب طوطی کا پنجرہ لیے چلے آرہے تھے۔ اُن سے پوچھا:
’’بھیا! تمھاری طُوطی کیسے بولتی ہے؟‘‘
اُس دہلوی نے چمک کر جواب دیا:
’’میاں تمھاری طوطی بولتی ہوگی، یاروں کا طوطی توبولتا ہے اور خوب بولتا ہے‘‘۔
لکھنوی شاعر بہت خفیف ہوئے اور اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ معلوم نہیں، یہ ’اپنا سا منہ‘ کیسا منہ ہوتا ہے؟