مکالماتِ فراقی

کتاب
:
مکالماتِ فراقی
(ممتاز دانش ور ڈاکٹر تحسین فراقی کے اہم اور منتخب انٹرویو)
مرتب
:
ڈاکٹرطاہر مسعود
صفحات
:
294 قیمت:800 روپے
ناشر
:
دارالنوادر۔ الحمد مارکیٹ سیکنڈ فلور اردو بازار لاہور-فون 0300-8898639

فضلی بک سپر مارکیٹ اردو بازار کراچی
021-32629724
021-32212991

ڈاکٹر طاہر مسعود نے یہ گراں قدر کتاب مرتب کرکے جہاں اپنی مرتبہ کتابوں کی فہرست میں نہایت عمدہ اضافہ کیا ہے، وہیں ڈاکٹر تحسین فراقی کے بکھرے ہوئے انٹرویوز کو اکٹھا کرکے محفوظ کردیا ہے، اور سب کی دسترس میں دے دیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر مسعود لکھتے ہیں:
’’جناب تحسین فراقی کا شمار اردو ادب کی ممتاز شخصیات میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی فکر و دانش سے اردو زبان و ادب اور شاعری کو وہ کچھ دیا ہے جس کی توقع انھی سے کی جاسکتی تھی۔ زیر نظر کتاب سے ان کی بصیرت اور خرد افروزی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کا جو وصف ہمارے دلوں میں احترام پیدا کرتا ہے وہ سچائی، علمی دیانت اور شعر و ادب سے ان کی اٹوٹ وابستگی ہے، جس پر وہ کبھی سمجھوتا نہیں کرتے۔ بہ حیثیت نقاد اور دانش ور وہ عدل و انصاف کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے۔ دوسرے لفظوں میں وہ عصبیت جو ہمارے دانش وروں کو سچائی اور معروضیت کی راہ سے بھٹکا دیتی ہے، ڈاکٹر تحسین فراقی کی سلامتی فکر انھیں اس عیب سے دور رکھتی ہے‘‘۔
وہ مزید تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ کتاب ڈاکٹر تحسین فراقی کے مصاحبوں (انٹرویوز) کا مجموعہ ہے جو مختلف اوقات میں ان سے کیے گئے اور پھر ذرائع ابلاغ کی زینت بنے۔ یہ مصاحبے تعداد میں بہت زیادہ تھے لیکن کتاب کے لیے ایسے ہی انٹرویو انتخاب کیے گئے جو خیال افروز تھے۔
انٹرویو صحافت کی نسبتاً جدید صنف ہے جس میں کسی اہم شخصیت کی حیات اور اس کے خیالات خود اس کی زبانی جاننے کی جستجو کی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے انٹرویو کے بامعنی ہونے کی ذمہ داری خود انٹرویو لینے والے کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ سوالات جتنے عمدہ اور بامعنی ہوں گے، جوابات کی سطح اسی لحاظ سے بلند اور قابلِ فہم ہوگی۔ گویا انٹرویو میں اصل امتحان خود انٹرویو لینے والے کا ہوتا ہے کہ وہ کس زاویۂ نگاہ اور کتنی گہرائی سے ایسے اچھے اور پُرتجسس سوالات پوچھے کہ جواب دینے والی شخصیت وہ سب کچھ بتادے جو وہ بتانا نہ بھی چاہتی ہو مگر بتادینے پر مجبور ہو۔ اگلا مرحلہ انٹرویو میں حاصل شدہ جوابات کو قلم بند کرنے کا ہوتا ہے کہ انٹرویور اسے کتنی صحت کے ساتھ کاغذ پر نقل کرتا ہے۔ بدقسمتی سے صحافیوں کی تربیت میں کمی اور انٹرویو کرنے کی استعداد میں بڑی حد تک فقدان کی وجہ سے ہمارے ہاں اچھے اور لائقِ مطالعہ انٹرویو مشکل ہی سے کیے جاتے ہیں۔ اکثر مصاحبوں میں رسمی سوالات اور ادنیٰ درجے کی تفتیش کی جاتی ہے، اور انٹرویو کرنے والے سے جرح کرنے کی لیاقت و صلاحیت تو بالکل ہی ناپید ہے۔
ڈاکٹر تحسین فراقی کا شمار اُن نابغۂ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی فکر و دانش سے اردو زبان و ادب اور اردو شاعری کو وہ کچھ دیا ہے جس کی توقع ان ہی سے کی جاسکتی تھی، اور اس ’’وہ کچھ‘‘ کی تفصیل اس کتاب میں آپ کو مل جائے گی۔ ان کی ذاتی زندگی کے حالات بھی اور ان کے گراں قدر خیالات کا بھی اس کتاب سے باآسانی اندازہ ہوجائے گا۔ بہ حیثیت معلم انہوں نے اپنی تدریسی خدمات سے کیسی روشن مثال قائم کی ہے، اور یہ بھی کہ وہ ایک دانش ور کے طور پر کتنے حقیقت پسند، کتنے معتدل مزاج اور ذہنی طور پر کتنے دیانت دار ہیں۔
اس کتاب سے ان کے مطالعے کی وسعت کے ساتھ ساتھ اس بصیرت اور خرد افروزی کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے جن کے ذریعے وہ الجھے ہوئے ادبی و تہذیبی مسائل کا نہایت آسانی سے تجزیہ کرلیتے ہیں، اور اظہارِ حقیقت میں کوئی لاگ لپیٹ نہیں رکھتے۔ تہذیب و شائستگی کے علاوہ علمی گہرائی اور نکتہ سنجیاں بھی ان کے مزاج کا حصہ ہیں۔ جو وصف اُن کا ہمارے دلوں میں احترام پیدا کرتا ہے وہ سچائی، علمی دیانت اور شعر و ادب سے ان کی اٹوٹ وابستگی ہے جس پر وہ کبھی سمجھوتا نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ ذاتی تعلقات و مراسم کو بھی ادب سے اپنی کمٹمنٹ پر اثرانداز نہیں ہونے دیتے۔ دانش ور ہوکر بھی انہوں نے کبھی دانش وری کی دکان نہیں سجائی، اور نہ سستے اور مہنگے داموں اسے بیچ کر دنیا کمانے کی ذرّہ بھر بھی کوشش کی ہے، جس کی مثالیں… افسوس ناک مثالیں موجود ہیں۔
ڈاکٹر تحسین فراقی ایک سیلف میڈ انسان ہیں، معاشرے اور شعر و ادب کی دنیا میں ان کا جو بھی مقام ہے، وہ خداوند تعالیٰ کی توفیق سے ان کی اپنی محنت، منصوبہ بندی اور اعصاب شکن جدوجہد اور لگن کا نتیجہ ہے۔ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھ کر انہیں زندگی سے کچھ حاصل کرنے اور اپنی شخصیت کو بننے بنانے میں جو کچھ پاپڑ بیلنے پڑے، ان کی روداد اس کتاب میں ان ہی کی زبانی مل جائے گی۔ ایک ایسے ملک میں جہاں آگے بڑھنے کے لیے قدم قدم پر سفارش، اثر رسوخ اور تعلقات و مراسم کی ضرورت پڑتی ہے، ڈاکٹر تحسین فراقی کی زندگی کی کامیابیاں بتاتی ہیں کہ اس درماندہ حال ملک میں آج بھی صرف اور صرف ’’میرٹ‘‘ پر کوئی بھی جتنا آگے جانا چاہے جاسکتا ہے، جتنی ترقی کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ یہ جاننا اور جتلانا بھی زیر نظر کتاب کی اشاعت کا ایک مقصد ہے۔
ایک اور پہلو جس کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا، وہ ہے ڈاکٹر تحسین فراقی کے خیالات اور نقاطِ نظر کا اعتدال و توازن، جس کا فقدان نہیں تو بہت کمی ہمارے دانش وروں اور اسکالروں میں پائی جاتی ہے۔ فکری اعتدال و توازن ہی وہ حقیقت ہے جو ڈاکٹر تحسین فراقی کو کسی بڑی سے بڑی ادبی شخصیت کی عقیدت میں اندھا ہونے سے روک دیتی ہے۔ بحیثیت نقاد اور دانش ور، وہ عدل و انصاف کے دامن کو کبھی نہیں چھوڑتے اور اسی لیے جس کا جو مقام ہے، اُسے وہی مقام دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ ’’عصبیت‘‘ جو ہمارے دانش وروں کو سچائی اور معروضیت کی راہ سے بھٹکا دیتی ہے، ڈاکٹر تحسین فراقی کی سلامتی فکر انہیں اس عیب سے دور رکھتی ہے اور اس وصف کے سبب وہ ہمارے لیے معتبر ٹھیرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ادب، اپنے معاشرے اور اپنے مذہب سے بھی ان کی وابستگی انہیں اپنی ذات کے گنبدِ بے در میں محبوس نہیں کرتی، انہیں غیر ضروری انفرادیت پسندی، انانیت اور نرگسیت (کہ یہ سب ایک ہی خاندان کے انڈے بچے ہیں) سے بچاتی اور اپنی تہذیب و معاشرت، اپنی تاریخی روایات اور اس سے بڑھ کر ادب کی عالمی اور آفاقی اقدار سے جوڑ دیتی ہے۔ بہ ایں سبب ہم اپنی اس دانش ور اور دانش مند شخصیت کو معاصر مغرب کی کسی بھی بڑی سے بڑی ادبی شخصیت کے مقابلے میں پیش کرسکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو ہم دو چار ناموں کو چھوڑ کر شاید ہی اردو کی کسی اور ادبی و علمی شخصیت کے بارے میں کہہ سکتے ہیں۔
مجھے اُمید ہے یہ کتاب ادبی و علمی حلقوں میں پسند کی جائے گی۔ مجھے نہیں یاد کہ اس سے قبل اردو کے کسی نقاد، محقق، شاعر یا کسی مصنف کے (مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو چھوڑ کر) ڈھیر سارے انٹرویوز پر مشتمل کوئی مکمل کتاب مرتب کی گئی ہو۔ اگر ایسا نہیں ہوسکا ہے تو اس کی وجہ غالباً یہ ہو کہ شاید ہی کسی ادیب و نقاد کے اتنے انٹرویو کیے گئے ہوں۔ اور جو انٹرویو کیے گئے ہوں اور مرتب نہیں کیے گئے تو اب انہیں مرتب کرنے کی فکر ہونی چاہیے۔ اس لیے بھی کہ انٹرویو یا مصاحبہ نگاری سے شخصیت کے حالات ہی نہیں ایسے خیالات بھی منظر عام پر آجاتے ہیں جو اس نے کسی اور طریقے سے ظاہر نہ کیے ہوں‘‘۔
کتاب میں جن اصحاب کے کیے ہوئے انٹرویوز شامل ہیں وہ درج ذیل ہیں۔ ان کی تعداد بائیس ہے:
-1 ابتدائی زندگی، احبابِ ادب، بزرگ معاصرین، علمی اسفار، عالمی و ملی صورتِ حال… خالد ہمایوں/ احمد عطا
-2 آفاقی، اسلامی اور اشتراکی ادب کی بحث…عمران نقوی
-3 کچھ اردو شعر و ادب کے بارے میں …طارق ہاشمی
-4 مغربی ادب، فلسفے اور سائنس کا مخمصہ… حسن رضوی
-5 اقبال اور اقبالیات…خالد ہمایوں
-6 کچھ میری کچھ دوسروں کی تصنیفات… تسلیم احمد تصور
-7 شاعری زندہ رہے گی… عمران نقوی
-8 ایک ادبی تنازع… اجمل شاہ دین
-9 اردو زبان و ادب کے امکانات اور رکاوٹیں… فرحانہ خان/ اقبال دانش/ صلاح الدین
-10 ایران کے تجربات و مشاہدات …لیلیٰ کاظمی تبار
-11 ادب کا عالمی نقطہ نظر… عابد گوندل
-12 زبان اردو کی اہمیت و وسعت… عمران نقوی
-13 سیاست، معاشرت، ادب اور عہدِ زوال… عمران نقوی
-14 ڈاکٹر تحسین فراقی: حالات و خیالات… محمود الحسن
-15 علامہ اقبال کے دفاع میں… عمران نقوی
-16 تعلیم و تہذیب کے انحطاط کا المیہ… محمد ارسلان حجازی
-17 ادبی تربیت، زوالِ تحقیق، نوبیل انعام… عارفہ صبح خانہ
-18 احوال دہلی کے سیمینار کا… خالد ہمایوں
-19 بڑے ادیب روز روز پیدا نہیں ہوتے… رئوف ظفر
-20 ہمارا ثقافتی کم مائیگی کا شکار میڈیا… راجا نیر
-21 لکھنا بچوں کے لیے
-22 تعامل فرہنگ و ادبیاتِ ایران و پاکستان… طیبہ وزیری
آخر میں بطور تبرک فراقی صاحب کی پرانی غزل کے دو شعر قارئین کی خدمت میں پیش ہیں جو ان کے بھی حسب حال ہیں:
حوادث اور میں بچپن سے گو، لڑ بھڑ رہے تھے
حوادث کا یہ گہرا وار پہلے کب ہوا تھا
میں جن گلیوں میں پیہم برسرِگردش رہا ہوں
میں اُن گلیوں میں اتنا خوار پہلے کب ہوا تھا
کتاب نہایت ہی خوبصورت طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے، حسین و جمیل سرورق سے آراستہ ہے۔