سینئر صحافی سید محمد فضل السلام بھی رخصت ہوگئے

گھر سے دفتر کے لیے نکل رہا تھا کہ دوست (تنویر السلام) کا فون آیا۔ خیریت دریافت کی، پھریہ خبر سنا کر دکھی کردیا کہ والد گرامی(سید محمد فضل السلام ولد سید عبدالسلام) اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ایس ایم فضل السلام 20 جنوری 1939ء کو پٹنہ(بہار) کے ایک علمی اور سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق سرعلی امام خاندان سے تھا۔ ابتدائی تعلیم والدِ گرامی سے حاصل کی۔ آپ کے والد کو انگریزی، ہندی، فارسی پر عبور حاصل تھا۔ آپ نے زبانوں کی تعلیم انہی سے لی۔ پٹنہ اسکول اور کالج سے ثانوی اور اعلیٰ ثانوی مدارج طے کیے۔ اسکول کے زمانے سے ہی کئی خداداد صلاحیتوں کے حامل تھے۔ لکھنے کا شوق بھی تھا۔ آپ کی تحریر مدلل، ٹھوس اور بے لاگ ہوتی۔ تقریر بھی خوب کرتے۔ اس دوران پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں داخلہ لیا۔ یہاں آپ کی ہم نصابی سرگرمیاں خوب نکھر کر سامنے آئیں۔ سعید الرحمان صاحب (جو بعد میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی کے صدر بنے) اور آپ کے درمیان زبان دانی میں مہارت پر خوب بحث ہوتی۔ سعید الرحمان صاحب کا کہنا تھا کہ شیکسپیئر کے ڈرامے میں pause کہاں آئے گا یہ وہی بتاسکتے ہیں۔ سلام صاحب کہتے تھے کہ شیکسپیئر کے ڈرامے میں Full Stop اور coma کب، کہاں اور کیوں آئے گا؟ وہ اس کی وجہ بتاسکتے ہیں۔ انہی مباحث کے دوران یونیورسٹی میں ڈرامیٹک سوسائٹی کا الیکشن ہوا اور فضل السلام صاحب، سعید الرحمان صاحب کو بھاری اکثریت سے شکست دے کر سوسائٹی کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ فضل السلام صاحب کے صحافتی کیریئر کی ابتدا ارادتاً نہیں اتفاقیہ تھی۔ پٹنہ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران آپ کی زبان دانی کی شہرت خاص و عام تھی۔ اس دوران امیرجماعتِ اسلامی ہند ابواللیث صدیقی صاحب اور سیکریٹری مسلم صاحب بہار کے دورے پر آئے۔ مقامی جماعت نے سلام صاحب سے کہا کہ وہ اس دورے کی ایک مفصل رپورٹ بنائیں جسے بعد میں ریڈینس دہلی میں شائع کیا جاسکے۔ بڑوں کی بات تھی۔ تہذیب و تربیت نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ انکار کریں۔ آپ نے پورے دورے کی ایک مفصل رپورٹ تیار کی۔ یہ رپورٹ مسلم صاحب کو بھیجی گئی، جسے انہوں نے ابواللیث صاحب کو پیش کیا۔ ان کی بنائی گئی رپورٹ سے دونوں اتنے متاثر ہوئے کہ آپ کو ریڈینس دہلی میں ملازمت کی پیشکش کی۔ ابواللیث صدیقی صاحب اور مسلم صاحب کے اصرار پر آپ نے بطور اداریہ نگار ریڈینس دہلی میں ملازمت اختیار کرلی۔ سلام صاحب کہتے تھے اُس وقت آپ کی مونچھیں بھی نہیں آئی تھیں۔ یوں آپ کے صحافتی کیریئر کا آغاز ہوا۔ تعلیم مکمل ہوئی تو آپ نے الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ کیا۔ آپ اردو، ہندی اور انگریزی کے بہترین مقرر تھے۔ چلتی ٹرین میں بیک وقت تینوں زبانوں میں تقریر کرتے تھے (یہ خوبی شاید آپ کے خاندان کا ورثہ تھی، کیونکہ سر علی امام بھی سیاسی طور پر ایک متحرک شخصیت تھے۔ وہی سر علی امام جنہوں نے برصغیر میں مسلمانوں کو بیدار کرنے، انہیں تعلیم کی جانب راغب اور متحد کرنے کے لیے کئی عملی اقدامات کیے۔ بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا مشورہ آپ نے ہی دیا تھا تاکہ مسلمان آزادانہ طور پر مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے خود کو بہتر طور پر تیار کرسکیں)۔ مگر کم عمری میں لوگوں میں آپ کی مقبولیت بہت سے لوگوں کو پسند نہ آئی۔ ہندو ہی نہیں بہت سے مسلمان بھی آپ کے خلاف ہوگئے۔ وہ فضل السلام صاحب کو اپنے لیے خطرہ تصور کرنے لگے۔ انہیں نیچا دکھانے یا منظر سے ہٹانے کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے۔ اور ایک تقریر نے انہیں یہ موقع فراہم کردیا، جس کی بنیاد پر آپ کے خلاف بلوے کا مقدمہ کردیا گیا۔ گرفتاری کے خدشے کے پیش نظر آپ نے پہلے علاقہ چھوڑا اور پھر ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ پاکستان آنے کے بعد فضل السلام صاحب ”پاکستان آبزرور“ سے وابستہ ہوئے۔ ڈھاکا آفس میں تقرر ہوا۔ سانحہ مشرقی پاکستان (16 دسمبر 1971ء) تک اپنی ذمے داریوں کو بحسن و خوبی نبھایا۔ اس دوران آپ کے ایک بھائی کو بھی شہید کیا گیا۔ ایک واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک بار انہوں نے بتایا تھا کہ پاکستان آبزرور میں ملازمت کے دوران انہیں اور ان کے دوست نسیم احمد (جو ان کے ساتھ پاکستان آبزرور ادارتی شعبے میں ملازم تھے۔۔۔ بعد میں پاکستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر بنے۔ ان دنوں لاہور میں مقیم ہیں) کو امریکی سی آئی اے نے ملازمت کی پیشکش کی، لیکن دونوں نے ہی یہ کہہ کر پیشکش مسترد کردی کہ وہ دین و ملت کے خلاف کوئی کام نہیں کرسکتے (شاید یہ خون کا اثر تھا۔ فضل السلام صاحب کے والد سید عبدالسلام بھی ایک صحافی تھے۔ جب خلافتِ عثمانیہ کے خلاف سازشیں عروج پر تھیں تو سید عبدالسلام نے خلافتِ عثمانیہ کے حق میں ایک آرٹیکل لکھا جو روزنامہ سنگم پٹنہ میں شائع ہوا، اس پر خلیفہ کی جانب سے آپ کو خلد بھیجی گئی)۔
سقوط ڈھاکا کے بعد فضل السلام صاحب کراچی آگئے۔ اداریہ نگار کی حیثیت سے ڈان، اسٹار میں ملازمت اختیار کی۔ تحقیقاتی رپورٹنگ بھی کی۔ یہ 1970ء کی دہائی کے اوائل تھے، مشرقی پاکستان سے لوگ آرہے تھے۔ ایسے ہی دو نوجوانوں کو جو سقوطِ ڈھاکا کے بعد پاکستان آئے تھے، شارع فیصل پر عوامی مرکز کے سامنے ہدف بناکر گولی ماری گئی۔ دونوں جاں بحق ہوگئے۔ معاملے میں آئی جی سرحد کے دو باڈی گارڈز کا نام سامنے آیا۔ تمام اخبارات کی طرح ڈان اور اسٹار میں بھی واقعے کی رپورٹ شائع ہوئی۔ مگر سلام صاحب اس سے مطمئن نہ تھے۔ آپ نے ایڈیٹر سے اجازت لی اور واقعے پر ایک جامع تحقیقاتی رپورٹ تیار کی۔ رپورٹ کی پہلی قسط اسٹار میں شائع ہونا تھی کہ کراچی سے اسلام آباد تک کھلبلی مچ گئی۔ آئی جی سرحد نے ڈان کے دفتر فون کیا اور درخواست کی کہ رپورٹ کی اگلی قسط شائع نہ کی جائے۔ آئی جی سرحد نے مشرقی پاکستان سے آئے نوجوانوں کے قتل میں ملوث مذکورہ اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دلوانے کا وعدہ بھی کیا۔ شاید یہ کراچی میں تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ ایک رپورٹ پر نہ صرف دو پولیس اہلکار قاتلوں کو گرفتار کیا گیا بلکہ عدالت نے انہیں پھانسی کی سزا بھی سنائی۔ ڈان گروپ سے وابستگی کے دوران آپ کی رہائش اورنگی ٹاؤن سلمان فارسی کے علاقے میں تھی۔ (اُن دنوں ملکی سیاست کے ساتھ ساتھ کراچی کی سیاست میں بہت کچھ ہورہا تھا۔ سلام صاحب کی ان سرگرمیوں پر گہری نظر تھی) وہ اورنگی ٹاؤن جہاں سے ایم کیوایم کو عروج ملا۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ درون ِ خانہ سرگرمیاں تو برسوں پہلے سے جاری تھیں، مگر اس کا اہم موڑ وہ دن تھا جب جون 1978ء کو پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کراچی میں ایک پریس کانفرنس ہوئی۔ رئیس امروہوی (شاعر)، سید تقی (روزنامہ جنگ کے سابق ایڈیٹر)، اختر حسین رضوی (روزنامہ مشرق کے سابق ایڈیٹر)، پروفیسر حسنین کاظمی اور پروفیسر کرار حسین (والد تاج حیدر) اس کے بنیادی محرک تھے۔ وہ ایک شخص جس کا نام الطاف حسین تھا، کو لے کر کانفرنس ہال میں داخل ہوئے۔ سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ شخص اب مہاجر قوم کی سیاست کرے گا۔ (سینئر صحافی نادر شاہ عادل جو ابھی حیات ہیں وہ اس پریس کانفرنس میں رپورٹر کی حیثیت سے موجود تھے۔ ان کی بنائی ہوئی خبر میر خلیل الرحمان کے روزنامہ جنگ میں اگرچہ صفحہ آخر پر سنگل کالم شائع ہوئی، مگر اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خبر کا بقیہ ایک کالم سے زائد تھا)۔ مذکورہ اشخاص نے ہی ایم کیوایم کے پارٹی پرچم اور اس کے رنگ کا انتخاب کیا، جس کا ایک تاریخی اور فلسفیانہ پسِ منظر ہے۔ لیکن مہاجر کے نام پر سیاست کی ابتدا تو بہت پہلے ہوچکی تھی۔ جب سانحہ مشرقی پاکستان ہونے جارہا تھا اُس وقت مغربی پاکستان میں ایک گروہ (جس کے بہت سے لوگ بعد میں اس لسانی تحریک کا حصہ بنے) میڈیا پر اپنے اثر رسوخ کے لیے مہم چلا رہا تھا (مارچ اوراپریل 1971ء کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں اور تصاویر اس کی گواہ ہیں)۔ سقوطِ ڈھاکا کے بعد جب کراچی میں لسانیت کی ہوا تیز ہوئی تو سلام صاحب کا کہنا تھا کہ اُس وقت اورنگی ٹاؤن سے سید حسیب ہاشمی کی قیادت میں (جو تحریکِ اتحاد پاکستان کے سربراہ تھے۔۔۔ اور بنگلہ دیش بننے سے پہلے ڈھاکا میں ایک ڈیبٹنگ سوسائٹی کے چیئرمین تھے۔ ضیاء الحق کے دور میں غیرجماعتی بنیاد پر ہونے والے الیکشن میں اورنگی ٹاؤن سے حصہ لینے والے آفاق احمد شاہد اس ڈبیٹنگ سوسائٹی میں ایک عام ملازم تھے) ایک وفد جس میں ظہیر الدین بابر، ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک اور قیصر امام سمیت دیگر لوگ شامل تھے، صدر ضیاء الحق سے ملنے گیا۔ تحریکِ اتحادِ پاکستان کا مقصد لسانیت کی آڑ میں کراچی کو قومی دھارے سے کاٹنے اور اسے برباد کرنے والوں کا راستہ روکنا تھا۔ ضیاء الحق سے ملاقات میں حسیب ہاشمی کی قیادت میں وفد نے انہیں بہت اہم تجاویز دیں۔ دوبارہ ملاقات طے ہوئی، مگر پھر نہ جانے کیا ہوا کہ تحریکِ اتحاد پاکستان نے جب بھی ضیاء الحق سے ملاقات کے لیے حکام سے رابطہ کیا تو انہیں اُس وقت کے سیکریٹری دفاع کی جانب سے کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے ملاقات سے منع کردیا گیا۔ فضل السلام صاحب کا کہنا تھا کہ (جون 1978ء میں) پریس کانفرنس میں مہاجر سیاست کے نام پر الطاف حسین کو متعارف کرانے کے بعد ایم کیوایم کا پہلا یونٹ کراچی نہیں بلکہ ملتان کے حسین آگاہی محلہ میں قائم ہوا۔ ملتان میں ڈان کا نمائندہ شبیر حسین اس کا پہلا یونٹ انچارج تھا۔ پھر کراچی میں لسانیت کی ہوا چل پڑی۔ سانحہ علی گڑھ اور قصبہ کالونی ہوا۔ اس سانحے سے پہلے الطاف حسین اور آفاق احمد کی ایک ملاقات ہوئی جس میں الطاف حسین نے آفاق احمد کو ایک خط دیا، وہ خط کس کے نام تھا؟ خط کے مندرجات کیا تھے؟ یہ آج تک پتا نہیں چل سکا، مگر اس کے بعد پھر کراچی میں کشت و خون کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مہاجر پٹھان کے نام پر فسادات شروع ہوئے۔ (حیرت کی بات یہ ہے کہ جس وقت کراچی میں مہاجر پٹھان فسادات ہو رہے تھے اُس وقت اسلام آباد میں اے پی ایم ایس او کے صدر کی اے این پی پشاور کے صدر کی بیٹی سے شادی ہو رہی تھی) سلام صاحب کا کہنا تھا کہ دفتر سے گھر (اورنگی ٹاؤن) اور گھر سے دفتر آتے ہوئے انہوں نے کئی حیرت انگیز باتیں نوٹ کیں۔ اول الذکر یہ کہ کرفیو کے باوجود گلبہار سے گاڑیوں میں بھر کر لوگ آتے اور بنارس پر فائرنگ کرکے چلے جاتے۔ کوئی انہیں کچھ نہ کہتا۔ دوم یہ کہ مہاجروں کی جانب سے پٹھانوں، اور پٹھانوں کی جانب سے مہاجروں کے خلاف بہت سی چاکنگ دیکھیں۔ ان میں ایک منفرد مماثلت تھی۔ دونوں جانب سے کی گئی چاکنگ میں الفاظ اور گرامر کی غلطیاں ایک جیسی ہوتی تھیں۔ پیپلزپارٹی کراچی کے سیکریٹری اقبال یوسف نے اپنی کتاب ”کراچی پیپرز“ کے مندرجات میں اس طرح کی دیگر بہت سی باتیں بھی لکھی ہیں۔ اسٹار میں ملازمت کے دوران کراچی سے ایک اور روزنامہ ”دی سن“ شائع ہوا۔ آغا مرتضیٰ پویا اور مشاہد حسین (جن کا تعلق ان دنوں مسلم لیگ ق سے ہے) اس کے اہم ترین فرد تھے۔ کئی دیگر لوگوں کی طرح آپ کو بھی ڈیپوٹیشن پر وہاں بھیجا گیا۔ آپ بتاتے تھے کہ دی سن کے کئی کمروں میں ہزاروں کی تعداد میں پاسپورٹ پڑے ہوتے تھے۔ سب پاسپورٹس پر ایک ہی (پڑوسی) ملک (ایران) کا ویزا لگا ہوا تھا۔ اس دوران ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور اخبار بند ہوگیا۔ آغا مرتضیٰ پویا اور مشاہد حسین منظر سے غائب ہوگئے۔ وہ ہزاروں پاسپورٹ جن پر صرف ایک ہی ملک کا ویزا لگا تھا وہاں کس مقصد کے لیے رکھے گئے تھے؟اس پر کبھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ یہ بات آج تک پتا نہ چل سکی کہ معاملہ آخر کیا تھا؟ سلام صاحب نے بتایا تھا کہ آغا مرتضیٰ پویا نے ملاقات کے لیے بلایا مگر پھر ملنے سے انکار کردیا۔ پتا چلا کہ مؤکل نے منع کردیا ہے اس لیے وہ ملاقات نہیں کرسکتے۔ آغا مرتضیٰ پویا کی عادت تھی کہ کسی کو ملاقات کے لیے تو بلا لیتے لیکن ملاقات سے پہلے ملاقاتی کو انتظار گاہ میں ٹھیراتے۔ مؤکل سے اس بارے میں پوچھتے کہ ملاقات ٹھیک رہے گی یا منفی اثر پڑے گا؟ مثبت سگنل نہ ملنے پر ملاقات سے انکار کردیتے۔ یہ مؤکل کون تھا؟ نہ کبھی کسی نے اُن سے پوچھا اور نہ کبھی انہوں نے کسی کو بتایا۔ آغا مرتضیٰ پویا نے بعد میں اسلام آباد سے دی مسلم اخبار نکالا تو فضل السلام صاحب کو ملازمت کی پیشکش کی، لیکن فضل السلام صاحب نے معذرت کرلی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فضل السلام صاحب نے جب آغا مرتضیٰ پویا سے پوچھا کہ اسلام آباد سے انگریزی اخبار نکالنے کا مقصد کیا ہے؟ اس کا فنانسر کون ہے؟ رقم کہاں سے آئے گی؟ اشتہارات کیسے ملیں گے؟ تو اس پر آغا مرتضیٰ پویا کا کہنا تھا کہ اخبار کو کسی اشتہار کی ضرورت نہیں۔ اور وہ کسی بھی اشتہار کے بغیر برسوں اخبار نکال سکتے ہیں۔ مگر یہ نہیں بتایا کہ آخر کیسے؟
دی سن بند ہونے کے بعد آپ ڈان گروپ واپس آگئے۔ پھر ”پاکستان اینڈ گلف اکنامسٹ“ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ پاکستان ایگریکلچر میں پروڈکشن انچارج اور نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا، جس کے بعد پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی میں بحیثیت ایڈیٹر آپ کا تقرر ہوا۔ اس عہدے پر فضل السلام صاحب نے سترہ سال کام کیا، لیکن ایک انتظامی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے آپ نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں تھا جسے ملتان منتقل کردیا گیا۔ آپ کا مؤقف تھا کہ یہ اقدام اس ادارے کو تباہ کرنے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے (یہ فیصلہ ملتان کے ایک موروثی سیاسی خاندان کا تھا، جس کے لوگ آج بھی اہم حکومتی عہدوں پر موجود ہیں)۔ بعد میں پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی کے ایک سینئر عہدیدار میاں افتخار صاحب (جو علامہ اقبال کے محلے دار تھے اور زمانہ طالب علمی میں ان سے ملاقاتیں معمول تھیں) کی جانب سے اخبارات میں لکھے گئے آرٹیکل اور مضامین نے فضل السلام صاحب کی باتوں کی سو فیصد تائید کی۔ کراچی میں پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی (کی پوری اراضی جہاں جدید ترین مشینری و دیگر چیزیں تھیں) جسے ہیرٹیج کا درجہ حاصل تھا، کو امریکی سفارت خانے کو اونے پونے بیچ دیا گیا۔
فضل السلام صاحب سیاست کے ساتھ ساتھ معیشت اور بالخصوص معاشرت پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ پاکستان میں اخلاقی گراوٹ، معاشی بدحالی اور سیاسی زبوں حالی پر آپ بہت فکرمند رہا کرتے تھے۔ ملک کو چلانے والوں سے ان کا یہی سوال ہوا کرتا تھا کہ وہ اس وطن کو کہاں لے جارہے ہیں؟پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی سے استعفے کے نتیجے میں آپ کو پنشن، گریجویٹی اور دیگر بقایاجات کی ادائیگی سے منع کردیا گیا، جس پر آپ نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن پر مقدمہ کیا۔ مقدمے کی سماعت کے دن آپ کے وکیل (جو اُس وقت ملتان میں جماعتِ اسلامی کے ایک معروف رہنما تھے) پر توہینِ عدالت کا الزام لگا اور انہیں ہر طرح کا مقدمہ لڑنے سے روک دیا گیا۔ نتیجتاً آپ نے اجازت لے کر اپنے مقدمے کی خود پیروی کی۔ مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو کسی کو یقین نہ تھا کہ فضل السلام صاحب مقدمہ جیت جائیں گے اور بس چند منٹوں کی سماعت کے بعد عدالت اپنا فیصلہ سنا دے گی۔ لیکن جب سماعت شروع ہوئی اور فضل السلام صاحب نے دلائل دینا شروع کیے تو وقت ختم ہوگیا مگر ان کے دلائل ختم نہ ہوئے۔ مقدمہ بلاتعطل کئی دنوں تک چلتا رہا اور بالآخر عدالت نے آپ کے حق میں فیصلہ دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ فضل السلام صاحب کو پنشن، گریجویٹی اور دیگر تمام بقایاجات ادا کیے جائیں۔
پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی سے استعفے کے بعد فضل السلام صاحب پر مشکل وقت آیا۔ لیکن آپ کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ ہمیشہ انہیں صابر و شاکر پایا۔ ان کی زبان پر کبھی شکوہ نہیں آیا۔ کسی سے کوئی شکایت نہیں کی۔ انہی دنوں آپ کے دوست اصغر خان (جو ایک شاعر بھی تھے، فضل السلام صاحب نے ان کی کتاب کا جامع اور ادبی تبصرہ بھی لکھا تھا) نے جاوید جبار کا پیغام پہنچایا کہ فاروق لغاری صاحب کا اخبار اور میگزین نکالنے کا ارادہ ہے اور وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ملاقات تو ہوگئی مگر بات نہ بن سکی۔ فضل السلام صاحب ادارتی ذمے داری سنبھالنے کو تیار تھے لیکن ان کی صرف ایک شرط تھی کہ وہ ادارتی معاملات میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔ یوں معاملات طے نہ پاسکے۔ آپ نے چند ماہ لیڈر بلوچستان اور ”فاتح“ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔
کہتے ہیں آگہی بڑا عذاب ہوتی ہے، ایسے ہی جیسے کسی کا زیادہ قابل یا باصلاحیت ہونا بھی اس کے لیے رکاوٹ بن جاتا ہے۔ فضل السلام صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ملازمت کے لیے کئی جگہوں پر کوشش کی۔ دی نیوز کراچی میں اُس وقت کی ایڈیٹر قطرینہ حسین کو انٹرویو دیا، مگر قطرینہ حسین کا کہنا تھا کہ ایک سب ایڈیٹر کی ملازمت ان کے شایانِ شان نہیں، انہیں اس سے بڑی پوسٹ پر ہونا چاہیے۔ پھر اپنا میگزین نکالنے کا ارادہ کیا۔ پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی سے بقایاجات کی مد میں ملنے والی رقم میں سے انہوں نے کچھ رقم پس انداز کر رکھی تھی۔ ”دی کال“ کے نام سے رسالے کی ڈیکلریشن لی۔ اس کے دو ہی شمارے شائع ہوئے اور رقم ختم ہوگئی۔ جتنی رقم ان کے پاس تھی اس سے سہ ماہی بنیاد پر کم از کم سال بھر تو میگزین نکالا جاسکتا تھا۔ مگر جن لوگوں نے رسالے کی اشاعت کی ذمے داری لی تھی انہوں نے کمال ہوشیاری سے تمام پیسے خرچ کرادیے۔ جب فضل السلام صاحب سے کہا جاتا آپ ان لوگوں کو کیوں کچھ نہیں کہتے؟ تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا: چھوڑیں جانے دیں۔ ان کے نزدیک اصل دولت تو کردار کی دولت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی دولت یا کوئی جائداد نہیں بنائی۔ میری دوستی کالج کے زمانے (1998ء، جب روزنامہ جسارت کے ادارتی شعبے میں ملازم تھا) میں ان کے بیٹے تنویر السلام سے ہوئی۔ فضل السلام صاحب سے ملاقات کے بعد ان سے ملے بغیر چین نہ آتا (یہ وہ دور تھا جب دنیا کے کسی بھی معاملے پر کوئی معلومات درکار ہوتی تو مولانا عبدالحق بلوچ صاحب، ڈاکٹر اشتیاق صاحب (روزنامہ جنگ)، اطہر علی ہاشمی صاحب اور موسیٰ رضا سے رہنمائی مل جایا کرتی تھی)۔ فضل السلام صاحب تاریخ ہو یا نظریات… فلسفہ ہو یا سیاست… دین ہو یا دنیا… ہر موضوع پر آسانی کے ساتھ مفصل گفتگو کرتے۔ سانحہ مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا، ان میں سے بہت سے معاملات کے آپ عینی شاہد تھے۔ جانتے تھے کہ سقوطِ ڈھاکا سے پہلے مغربی پاکستان سے ڈھاکا ٹیلی گرام کیوں آتے تھے؟ ان میں مسلسل کس بات کا تقاضا کیا جاتا تھا؟ لیکن پاکستان کے دولخت ہونے پر کسی کو ذمے دار نہ ٹھیرانے پر آپ بے چین رہا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے سقوط ڈھاکا کے اسباب اور وجوہات پر تاریخی حقائق اور دستاویزات کی روشنی میں کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا، مگر بعض ناگزیر وجوہات کے باعث ایسا ممکن نہ ہوسکا۔
ایس ایم فضل السلام میں ایک بات اکثر محسوس کی، اس کا مشاہدہ بھی کیا… ہر بات اور عمل میں کبھی انہیں اللہ تبارک و تعالیٰ سے غافل نہیں پایا۔ یہ وہ خوبی تھی جسے میں نے اپنے والد اور تایا کے بعد اس سطح پر اور اس مقام پر بہت کم لوگوں میں دیکھا۔ یہ بات ہمیشہ میرے حافظے میں محفوظ رہے گی۔ یہی وہ نکتہ تھا جس نے مجھے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کیا۔ میرا ہمیشہ مشاہدہ رہا کہ خوشی کا موقع ہو یا غم کی کیفیت، یا مشکلات اور پریشانی کے حالات… فضل السلام صاحب کبھی حد سے نہ گزرے۔ رب پر کامل یقین رکھا۔ ان کی زبان سے کبھی ناشائستگی کا ایک لفظ تک نہیں سُنا۔ فضل السلام صاحب صبر، قناعت اور شرافت کا پیکر تھے۔ نام تھے کردار کا۔ مثال تھے اصول پسندی کی۔ چلتی پھرتی تہذیب۔ حق و سچائی کا نمونہ۔ ایک انسان کی زندگی کا حاصل اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ جب وہ اِس فانی دنیا سے جائے تو لوگ اس کی سچائی، حق گوئی اور باکردار ہونے کی گواہی دیں۔ یہی دین کی منشا ہے اور یہی رب کا حکم۔ ایسے ہی انسان تو معاشرے کو مطلوب ہیں۔ انہیں دیکھ کر اپنے انسان ہونے پر فخر ہوتا تھا۔ مگر ایسے لوگ اب نہیں آئیں گے
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آپ نے شاید دیکھے نہ ہوں مگر ایسے بھی ہیں