ڈاکٹر نذیر احمد شہیدؒ،8جون ۔۔۔یوم شہادت

ڈاکٹر نذیر احمد شہیدؒ تحریک اسلامی کے بے لوث اور مثالی کارکن اور قائد تھے۔ آپ صبحِ نو کے نقیب تھے۔ عمر بھر اندھیروں سے لڑتے رہے اور روشنی پھیلانے کو اپنا مشن بناکر خود چراغِ راہ بن گئے۔ زندگی کی آخری سانس تک شب کے سفاک خداؤں اور ظلمت کے پجاریوں سے الجھتے رہے۔ آپ امن، محبت اور اخوت کے پیامی تھے۔آپ فرنگی استعمار سے ورثے میں ملنے والے ظلم، جبر، ناانصافی اور استحصال پر مبنی مغربی نظام کے خاتمے اور اسلام کے عادلانہ، منصفانہ، برکتوں اور رحمتوں والے نظام کے نفاذ کے لیے پوری زندگی کوشاں و سرگرداں رہے۔ ڈاکٹر نذیر احمد شہید ؒ اپنے اخلاص، اعلیٰ اخلاق و کردار اور خدمت کی وجہ سے ایک خلق کی آنکھوں کا تارا بنے۔ وہ لازوال ایثار و قربا نی اورجہدِ مسلسل کا پیکر ہونے کی وجہ سے جریدہ عالم پر دوام کے مستحق ٹھیرے۔ جرأت، بے باکی اور صداقت اس مردِ درویش کا طرّۂ امتیاز تھا۔ یہ حق گو انسان نہ کبھی دبا، نہ کبھی جھکا۔ کوئی تحریص و ترہیب اسے راہِ حق سے نہ ہٹا سکی۔ اس مردِ درویش کے دل میں اللہ رب العزت کے سوا کسی کا کوئی ڈر اور خوف نہ تھا۔ اسی رب العزت کی رضا کے حصول کے لیے کوشاں رہے۔ بڑی سے بڑی مشکلات اور مصائب میںبھی آپ ہمیشہ ثابت قدم رہے۔
سید مودودیؒ کے قافلۂ عزیمت و شہادت کا یہ تابندہ ستارہ افق پر چمکا اور خوب چمکا، اور طلوع صبح سے پہلے غروب ہوگیا، لیکن جاتے جاتے یہ پیغام دے گیا کہ رات کا اندھیرا سمٹنے کو ہے، صبحِ درخشاں قریب ہے۔
ڈاکٹر نذیر احمد شہیدؒ، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے جانثار اور قابلِ اعتماد ساتھی تھے۔ ڈاکٹرصاحب کو سید مودودیؒ سے بے پناہ عقیدت تھی۔ وہ سید بادشاہ کے قافلۂ عزیمت کے مخلص اور بے لوث سپاہی اور کارکن تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کارکنانِ تحریکِ اسلامی کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ وہ مینارۂ نور بن کر اسلامی انقلاب کی تڑپ رکھنے والوں کو نشانِ منزل دکھارہے ہیں۔ ڈاکٹرنذیر احمد شہیدؒ کے خون کی سرخی آج بھی اسلامی انقلاب کے داعیوں میں جرأت، ہمت اور استقامت کا داعیہ پیدا کرنے کا سبب ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی جہدِ مسلسل اسلام کے غلبے اور احیاء کے لیے کام کرنے والے مجاہدین کو تحرک اور مہمیز دیتی ہے۔ آپ کی بے مثال جدوجہد آزمائش اور ابتلا میں کارکنانِ تحریک کے لیے صبر اور حوصلے کا پیغام رکھتی ہے۔ شہید بہترین داعی کے ساتھ ساتھ بہترین منتظم کے اوصاف بھی رکھتے تھے۔
ڈاکٹر نذیر احمد شہیدؒ جماعت اسلامی کے ممتاز رہنما اور ڈیرہ غازی خان کے ہردلعزیز عوامی قائد تھے۔آپ طویل عرصہ جماعت اسلامی ضلع ڈیرہ غازی خان کے امیر رہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ و مجلس عاملہ کے رکن رہے۔ شہادت کے وقت نائب امیر صوبہ پنجاب تھے۔
ڈاکٹر نذیر احمد شہیدؒ فاضل پور (ضلع ڈی جی خاں، حال ضلع راجن پور) کے رہائشی تھے۔1944ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول راجن پور سے میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان میں انٹر میں داخلہ لے لیا۔ ایمرسن کالج ملتان کے طالب علم تھے کہ سید مودودیؒ کا انقلابی پیغام آپ تک پہنچا۔ آپ نے سید بادشاہ کی دعوت پرلبیک کہا، اور اسلام کے غلبے اور اقامت کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ غور اور تدبر کے بعد آپ نے روزگار اور خدمتِ خلق کے لیے طب کا شعبہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے آپ نے سینٹرل ہومیو پیتھک میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔ تعلیم کی تکمیل پر قائدِ تحریکِ اسلامی سید مودودیؒ کی ہدایت پر فاضل پور سے ڈیرہ غازی خان منتقل ہوئے۔ ڈیرہ غازی خان شہر کو مرکز بناکر دعوتِ الی اللہ کے کام کاآغاز کیا۔ بے سرو سامانی، کٹھن اور مایوس کن حالات میں اللہ کی تائید و نصرت کے سہارے اسلامی انقلاب کے لیے کمربستہ ہوئے ؎
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش حق نے جس کو دئیے ہیں اندازخسروانہ
آپ کی جماعت اسلامی ضلع ڈی جی خان اور ضلع مظفر گڑھ (موجودہ چار اضلاع لیہ، مظفر گڑھ، راجن پور اور ڈیرہ غازی خان) کے امیر کی ذمہ داری لگا دی گئی۔ دونوں اضلاع میں ترجمان القرآن کے چند قارئین کے سوا کوئی کارکنان نہ تھے۔ خود ہی قائد اور خود ہی کارکن تھے۔ ضلع مظفر گڑھ میں علیحدہ نظمِ جماعت کے قیام کے بعد اپنی تمام تر توجہ ضلع ڈیرہ غازی خان میں دعوتی کاموں پر مرتکز کردی۔
ضلع ڈیرہ غازی خان بلوچ اکثریت کا ضلع ہے۔ ضلع راجن پور اُس وقت ضلع ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تھی۔ لغاری، کھوسہ، مزاری، لُند، بزدار، دریشک، قیصرانی، گورچانی اور لاشاری یہاں کے مشہور بلوچ قبائل ہیں۔ انگریزوں نے یہاں کے بلوچوں کوکنٹرول کرنے کے لیے ہر قبیلے کے سردار کو تمن دار بناکر لامحدود جاگیریں اور وسائل مہیا کیے تاکہ وہ یہاں کے مسلمانوں کو فرنگی استعمار کے خلاف جدوجہد سے باز رکھیں۔ فرنگی استعمار کے وظیفہ خوار ان تمن داروں نے عوام پر اپنی خدائی قائم کی ہوئی تھی۔ ان سرداروں کو للکارنا ایک بہت بڑا کام تھا، مگر آپؒ نے حکمت، تدبراور جرأت مندی سے دعوت و تبلیغ کے کام کا آغاز کیا۔
ڈاکٹر نذیر احمد شہیدؒ نے ضلع کے قریہ قریہ،گاؤں گاؤں اور قصبہ قصبہ جاکر دعوت کا کام کیا۔ سائیکل آپ کی پسندیدہ سواری تھی۔ 50،60 کلومیٹر کے سفر کے لیے سائیکل کو ہی کافی سمجھتے تھے۔ دعوتی لٹریچر کا تھیلا ہر قت آپ کی سائیکل پر موجود ہوتا۔ آپ مسلمانوں کو اسلام کے عملی تقاضوں کے لیے ابھارتے، ان کا قرآن سے ٹوٹا ہوا رشتہ جوڑتے اور انہیں ان کا شاندار ماضی اور عہدِ رفتہ یاد دلاکر حکومتِ الٰہیہ کے لیے جدوجہد پر تیار کرتے، صالح اور اسلام کی سربلندی کی تڑپ رکھنے والے مسلمانوں کومنظم کرتے، ان کی تربیت کرتے اور انہیں اقامتِ دین کے کام پر لگا دیتے۔ آپ نے ڈیرہ غازی خان کی بنجر، مُردہ، سخت اور سنگلاخ سرزمین میں اسلامی انقلاب کا بیج بویا، پھر اپنے خون سے اس کھیت کی آبیاری کی اور تحریکِ اسلامی کی ایک لہلہاتی ہوئی فصل تیا رکردی ؎
میں جو سورج کی بغاوت کا علَم لے کے اٹھا
شب کے سہمے ہوئے تاروں نے مرا ساتھ دیا
آپ مہینے کے پندرہ دن اپنے کلینک پر پریکٹس کرتے اور باقی پندرہ دن ضلع کے طول و عرض میں دعوتی و تبلیغی کاموں کے لیے نکل جاتے۔ پریکٹس کے پندرہ دنوں میں بھی نماز ظہر کے بعد سے رات گئے تک ڈیرہ غازی خان شہر اور اردگرد تحریکی کاموں میں لگے رہتے۔ اس طرح ضلع ڈیرہ غازی خان میں اسلامی تحریک کی بنیادیں مضبوط ہوتی گئیں۔ آپ دعوتی کام کے ساتھ تنظیم سازی پر بھی بھرپور توجہ دیتے۔ نئے کارکنان کی تربیت کرتے۔ ڈاکٹر نذیر احمد شہید کے دیرینہ ساتھی مولانا غلام حسین بزدار بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کا ضلع کے 90فیصد عوام تک یا تو براہِ راست رابطہ تھا، یا کم از کم اُن تک ڈاکٹر صاحب کا پیغام پہنچا ہوا تھا۔
وقت کے جابر و ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمۂ حق کہنے کی پاداش میں 31 مرتبہ جیل گئے۔ آپ پر مختلف قسم کے 60 سے زائد مقدمات درج کیے گئے۔ پنجاب کی شاید ہی کوئی قابلِ ذکر جیل ہو جہاں آپ کو قید نہ کیا گیا ہو۔1964ء میں ایوب خان کے آمرانہ دور میں جماعت اسلامی کو خلافِ قانون قرار دے کر پابندی لگادی گئی توجماعت کی پوری قیادت کو پسِ دیوارِ زنداں بھیج دیا گیا۔ ڈاکٹر نذیر احمد شہید کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا، جہاں ایک سال کے لیے پابندِ سلاسل رہے۔ ظلم، جبر، نظربندی، زباں بندی، جیل کی کال کوٹھڑی اور عقوبت خانے اس مردِ درویش کو نہ جھکا سکے۔ 1965ء کی جنگ میں گھر کا سارا سامان، حتیٰ کہ بیٹی کے جہیز کا سامان بھی دفاعی فنڈ میں جمع کرواکر سنتِ صدیقؓ زندہ کی۔
جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ نے 1970ء کے عام انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر نذیر احمد شہید کو ڈی جی خان کی قومی نشستNW-88 سے الیکشن میں حصہ لینے کا حکم ملا۔ آپ کے مقابلے میں ضلع کے سب سے بڑے جاگیردار سردار محمد خان لغاری (سابق صدر سردار فاروق خان لغاری کے والد)، پیپلزپارٹی کے سردار منظور خان لُند، ملک بھر میں مشہور و معروف تونسہ کی روحانی درگاہ کے گدی نشین پیرخواجہ قطب الدینؒ اور جمعیت علمائے اسلام کے معروف رہنما مولانا عبدالستار تونسوی تھے۔ آپ کے مدمقابل تمام امیدوار وسائل اور اسباب سے مالامال تھے۔ لیکن الیکشن کے نتائج آئے تو دنیا دنگ رہ گئی۔ عوام نے جاگیرداروں، سرداروں اور پیروں کو مسترد کردیا، اور بوریانشین،کھدرپوش، سائیکل سوار، درویش صفت مگر جرأت مند و بے باک انسان کو اپنا نمائندہ منتخب کرلیا۔ آپ ایم این اے منتخب ہوگئے۔
ان انتخابات میںعلاقائی جماعتوںکو واضح اکثریت ملی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ جیسا مکروہ نعرہ بلند ہوا۔ نتیجتاً دنیائے اسلام کا سب سے بڑا اور لاالٰہ الااللہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والا ملک دولخت ہوگیا۔ ڈاکٹر نذیر احمد شہید نے قائدِ تحریکِ اسلامی سید مودودیؒ کے حکم پر ملک کے طول و عرض کا دورہ کیا اور عوام کو حقائق سے آگاہ کیا۔ جہاں بھی گئے ہزاروں لوگ آپ کا پیغام سننے کے لیے جمع ہوئے۔ حکمران آپ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف رہنے لگے۔ اسمبلی کے اندر آپ کے بے باک تجزیوں اور جرأت مندانہ مؤقف نے مسٹرذوالفقار علی بھٹوجیسے آمر کو ہراساں اور خوف زدہ کرکے رکھ دیا تھا۔ آپ نے برملا ملک توڑنے کا ذمہ دار مسٹر بھٹو کو ٹھیرایا۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ حق جب بھی اور جہاں بھی پیش کیا گیا اُسے وقت کے جابر و ظالم حکمرانوں نے برداشت نہ کیا۔ اپریل 1972ء میں گورنر ہاؤس لاہور میں بھٹو،کھر ملاقات میں ڈاکٹر نذیر احمد کو قتل کرنے کا حتمی فیصلہ کیا گیا۔ 8جون 1972ء بروز جمعرات (25 ربیع الثانی1392ھ) شام کے وقت آپ مریضوں کو دیکھ رہے تھے کہ ایک نقاب پوش نے اچانک اندر آکر آپ پر یکے بعد دیگرے تین فائر کیے۔گولیاں سینے اور پیشانی پر لگیں۔ آپ کو ہسپتال لے جایا گیا، جہاں رات 9بجکر50 منٹ پر مرتبۂ شہادت پر فائز ہوگئے۔ دو گولیاں اُس پیشانی پر لگیں جو خدائے بزرگ و برتر کے سوا کسی کے سامنے نہ جھکی، اور ایک گولی اُس سینے میں پیوست ہوئی جس میں ہر انسان کے لیے ایک درد بھرا دل دھڑک رہا تھا۔ یہ مردِ قلندر آن و شان سے زندگی گزار کر مرتبۂ شہادت پاکر ربِّ حقیقی سے جا ملا ؎
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم جو چلے تو جان سے گزر گئے
رہِ یار ! ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
ڈاکٹر نذیر احمد، شہید ہوکر ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے، جبکہ آپ کے قاتل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذلیل ورسوا ٹھیرے۔ محمد عربی ﷺ کا یہ سچا غلام، پیکرِ صدق و وفا حضرت امام حسین ؓ کے راستے پر چلتے ہوئے اسلام کی سر بلندی اور اسلامی انقلاب کے لیے قربان ہوگیا۔ آپ 36برس گزرنے کے باوجود اسلامیانِ پاکستان کے دلوں میں زندہ ہیں۔ وہ وقت اب دور نہیں جب اس مردِ قلندر کے خونِ ناحق سے شانداراسلامی انقلاب کا سورج طلوع ہو گا۔ظلم، جبر، استحصال اور ناانصافی کایہ نظام لپٹ جائے گا اور اسلام کا عادلانہ، منصفانہ، بابرکت اور رحمتوں بھرا نظام اس دھرتی پر نافذ و جاری ہو گا ؎
جس سمت قدم اٹھ جاتے ہیںخود منزل آگے آتی ہے
یہ راز کچھ ایسا راز نہیں، آسودہ منزل کیا جانیں
اک وقت ایسا بھی آتا ہے جب موجیں ساحل بنتی ہیں
یہ طوفانوں کی باتیں ہیں، آسود ہ منزل کیا جانیں