علم کیا ہے!

انسان صدیوں سے اس سوال پر غور کرتا رہا ہے کہ علم کیا ہے؟ قدیم یونانی فلسفیوں نے بھی یہ سوال اٹھایا تھا کہ علم کیا ہے؟ علم کسے کہتے ہیں؟ یہ کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟ اس کے حصول کے فوائد کیا ہیں؟ علم کی کوئی واضح تعریف تو نہیں کی جاسکی، لیکن یہ کہا گیا کہ کسی شے کی حقیقت کا ادراک علم ہے۔ علم کے مرادفات میں ادراک، شعور اور معرفت جیسے الفاظ بھی بڑے اہمیت رکھتے ہیں۔ علم ایک صفت ہے، جس کے ذریعے کسی شے کا ادراک حاصل ہوتا ہے۔
انسان میں فطری طور پر تجسس کا مادہ ہے، یعنی یہ کہ اس کے اطراف میں کیا ہورہا ہے؟ اس کے شہر، ملک اور دنیا میں کیا واقعات ظہور پذیر ہورہے ہیں؟ ماضی میں کیا کچھ ہوچکا ہے؟ وہ خود کون ہے؟ کہاں سے آیا؟ اور کیوں آیا؟ کبھی زمین کے عجائبات نے اسے حیران کیا اور کبھی کائنات کے اسرار و رموز سے وہ بھونچکا رہ گیا۔ فطری مناظر نے اسے مسحور کیا۔ اور کبھی وجودِ زن سے تصویر ِ کائنات میں رنگ پیدا ہوا اور شاعری وجود میں آئی۔ یہ اور ایسے ہی بہت سے سوالوں اور سربستہ رازوں کو جاننے کے سفر کا نام علم ہے۔
علم کا سرچشمہ… ذاتِ باری تعالیٰ
انسان کا علم صدیوں کی جدوجہد کے بعد بھی محدود رہا، کیونکہ اس کی قوتِ ادراک اور عمل بھی محدود ہے، جبکہ اللہ جل شانہٗ کی ذات لامحدود اور زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہے۔ اس نے نہ صرف ہمیں بلکہ پوری کائنات کو پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ کا علم جامع، مکمل اور ہرشے پر حاوی ہے۔ علمِ باری تعالیٰ کے متعلق امام ابوحنیفہ ؒ کا مسلک یہ ہے کہ وہ ازلی ہے۔ علیم ہونا اللہ تعالیٰ کی اسی طرح قدیم اور ازلی صفت ہے جس طرح قدیر اس کی ازلی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ ازل میں بھی اشیاء کو ان کے وجود میں آنے سے قبل جانتا تھا اور وہی ان اشیاء کی قضا و قدر کا مالک ہے۔ دنیا اور آخرت میں جو کچھ ہوتا ہے، ہر چیز اس نے لوحِ محفوظ میں لکھ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علمِ بے پایاں کی مزید توضیح کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک معدوم شے کو اس کی حالتِ عدم (یا غیر موجود ہونے کی صورت) میں بھی جانتا ہے۔ یہ بات بھی اس کے علم میں ہے کہ جب وہ اس معدوم شے کو وجود میں لائے گا تو اُس وقت وہ کیسی ہوگی۔ اس طرح وہ موجود کو اس کی حالتِ وجود میں بھی جانتا ہے۔ اسے اس بات کا بھی علم ہے کہ یہ موجود شے کب فنا ہوگی۔ وہ قائم (یعنی کھڑی ہوئی) چیز کو اس کی حالتِ قیام میں بھی جانتا ہے اور جب وہ چیز بیٹھ جائے گی تو وہ اس کی حالت وکیفیت کو بھی جانتا ہے۔ امام فخرالدین الرازی (کتاب الاربعین، ص 133، 136) لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عالم ہے، کیونکہ اس کے افعال (مثلاً نظام کائنات وغیرہ) محکم اور پختہ ہیں، اور یہ محکمی و اتقان اور پختگی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان محکم افعال کا سرچشمہ ضرور علم سے متصف ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا علم واجب الوجود ہے، جو تمام ممکنات و موجودات پر محیط ہے۔
علم ہی بنیاد ہے
درحقیقت علم کے حوالے سے انسان کو نہ تو کسی قسم کے فیصلے کا اختیار ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت۔ کیونکہ اس کا فیصلہ تو خالقِ کائنات انسان کی تخلیق سے قبل ہی کرچکا تھا۔ اسی نے انسان کو علم کی بنیاد پر تمام مخلوقات پر فضیلت دی۔ بلکہ بعض حضرات کی تحقیق کے مطابق صفتِ علم انسان کا خاصہ اور امتیاز ہے، لہٰذا علم کو انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا، اور انسان کو علم دینے کا بنیادی مقصد اس میں اعلیٰ اخلاقی صفات، اور بہترین سیرت و کردار کی تعمیر ہے۔
اللہ ربّ العزت نے انسان کو پہلا درس ہی علم کا دیا، حضرت آدم علیہ السلام کو علم عطا کیا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی پہلی وحی علم سے متعلق نازل کی گئی، پہلی وحی کا پہلا لفظ ہی ’’اقراء‘‘ یعنی پڑھو تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو تعلیم دی، ان کا تزکیہ اور تربیت کی، تو ان کی زندگیوں میں ایسا عظیم انقلاب برپا ہوا کہ وہ بھی قیامت تک انسانوں کے لیے مثال بن گئے۔
علم، قرآن کی روشنی میں
قرآن کریم میں لفظ علم مختلف صورتوں میں 778 مرتبہ آیا ہے۔ ان مواقع پر علم کی دونوں شکلیں مدنظر ہیں۔ اول: وہ علم جو ذاتِ باری تعالیٰ کی وہ صفتِ خاص ہے جو علیم اور عَلام وغیر ہ کی صورتوں میں موجود ہے۔ دوم: وہ علم جو مخلوق خاص طور پر انسان کو بھی عطا ہوا ہے۔
قرآن کریم میں اس مادے کے اشتقاقات جس کثرت سے آئے ہیں ان سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ قرآن کی رو سے علم کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے، اور جب یہ لفظ جزوی ترادف کے ساتھ دوسرے مترادفات (مثلاً تعقِلُون، یَتَدّبَرُون، تَفقَہُون، تَشعُرُون وغیرہ) کے ساتھ مل کر، یا ان کی جگہ آتا ہے تو ان سے علم کے طریقوں، غایتوں اور جہتوں کا پتا چلتا ہے۔
مغربی دانشور عرصے تک یہی باور کراتے رہے کہ انسانی علم کے بارے میں اسلام کا رویہ محض نظری اور داخلی ہے، یعنی عملی اور تجرباتی نہیں۔ لیکن یہ خیال درست نہیں۔ اسلام میں علم کی بڑی غایت جہاں معرفتِ ذات و صفاتِ باری ہے، وہاں فلاح و خیرِ انسانی بھی ہے۔ اس کا ایک مقصد افادہ ہے۔ یہ تصور قرآن کریم کی آیات سے مترشح ہوتا ہے، مگر اس کی اساسیات محض مادّی نہیں۔ مغرب کے فلسفۂ عملیت یا نتائجیت (Pragmatism) کے برعکس اس میں مادی اور دنیاوی نتائج کے علاوہ روحانی فوائد اور آخرت کی کامیابی بھی شامل ہے۔ یہ قرآن کریم ہی کے اثباتی اور مشاہداتی رجحان کا نتیجہ تھا کہ خالص داخلی تصورِ علم کے بعد یورپ میں پہلے ذوقِ مشاہدہ و تحقیق اور پھر ذوقِ تجزیہ پیدا ہوا۔
قرآن مجید میں علم سے متعلق جو آیات موجود ہیں ان سے اللہ تعالیٰ کے علم کی صفاتِ خاص کا تعلق ہوتا ہے، مثلاً:
(1) علم کا سرچشمہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات ہے اور اس سے زیادہ جاننے والا بھی کوئی نہیں (وہ علیم و علّام ہے)۔ اللہ کا علم وسیع اور محیط ہے (واسع’‘ علیم)۔ وہ انفس و آفاق کے علم کا مالک اور عَالِمُ الْغَیبِ وَ الشَّھادَۃ ہے۔ وہ دلوں کی وہ باتیں بھی جانتا ہے جنہیں لوگ چھپاتے ہیں: وَ مَا تُخْْْفِیْ صُدُوْرُھُم اَکْبَرُ (آل عمران: 118)۔ زمینوں اور آسمانوں کے اسرار اور بر و بحر میں چھپی ہوئی جتنی حکمتیں ہیں، اللہ کا علم ان سب کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اور مفاتیح الغیب یعنی غیب کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں: وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الغَیبِ (الانعام: 59)۔ جو کچھ آئندہ ہونے والا ہے وہ اسے بھی جانتا ہے۔ یوم الساعۃ کا علم بھی اسی کے پاس ہے: وَعِندہٗ عِلمُ السَّاعَۃ (الزخرف: 85)
(2) علّام اور علیم کے ساتھ جب دوسرے اسماء بطور تاکید و اضافہ آتے ہیں تو ان سے اللہ تعالیٰ کے علم کی دوسری وسعتیں ظاہر ہوتی ہیں، مثلاً علیم، حکیم، سمیع، واسع، عزیز العلیم جیسی تراکیب میں اللہ تعالیٰ کے علمِ غیر متناہی کے ساتھ ساتھ اس کی جملہ نوعیتیں اور اس کی جملہ ظاہر اور مخفی صورتیں، جو شانِ خداوندی کے دوسرے اوصاف سے متعلق ہیں، ظاہر ہوتی ہیں۔ مثلاً جب علیم کے ساتھ حکیم کا لفظ آتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شے کا علم رکھنے کے علاوہ اس کے تمام اسباب اور اس سے متعلق تمام منافع و خواص اور تاثیرات اور اس کے عملی نتائج سے بھی باخبر ہے، اور انہیں بروئے کار لانے والا بھی وہی ہے، اور چونکہ انسان کو تَخَلَّقُو بِاخلَاقِ اللّٰہ کی ہدایت ہوئی ہے، اس لیے ایک لحاظ سے انسان کے لیے اصولِ ہدایت بھی یہی ہے کہ علم کے ساتھ عمل اور تدبیر اور تنظیمِ کار کا علم بھی ہو۔ اگرچہ انسان ضعیف البُنیان، جسے ظلوم و جہول کہا گیا ہے، اللہ کے علم و حکمت کے محض کناروں ہی کو چھو سکتا ہے اور انسان کو (ان معنوں میں) اللہ کے علمِ محیط سے نسبت یا مثال دینا بھی غلط ہے۔ تاہم اپنی محدود حد تک انسان علم و حکمت کے ان ہی نشانات کو جمع کرکے مفید عملی نتائج حاصل کرسکتا ہے۔
اسی طرح علیم کے ساتھ واسع، حفیظ، سمعی اور عزیز جیسی توسیعات سے علمِ خداوندی کی غایتیں، جہتیں اور وسعتیں ظاہر ہوتی ہیں، جنہیں وہ کارخانۂ عالم کی تنظیم کے لیے اپنی مشیت اور قانون کے تحت استعمال کرتا ہے۔
(3) انسان جو علم حاصل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی نے دیا ہے، اور اس کی حقیقت، اس کے نتائج اور اس کے مضمرات کا صحیح علم بھی اسی کو ہے۔ انسان کو جو علم حاصل ہوا وہ وہبی بھی ہے اور اکتسابی بھی، مگر اس کا منبع و سرچشمہ ہر حال میں اللہ پاک کی ذات ہی ہے۔
(4) اللہ تعالیٰ نے انسان کو انبیائے کرام کے ذریعے علم بھی دیا اور حکمت بھی عطا کی۔ ظاہر ہے کہ یہ حکمت، علم سے برتر و بالا شے ہے۔
(5) بعض انبیاء کے سلسلے میں اللہ کی طرف سے حکمت اور علم کے عطا ہونے کا ذکر آیا ہے۔ اس طرح علم کا حکمت سے رابطہ پیدا کرکے اسے نظام تمدن کی اساس بنادیا ہے۔ چنانچہ معیشت، سیاست و ریاست کے لیے جہاں علم کا ہونا ضروری ہے، وہیں حکمت یا تدبیرِ کار کا جاننا بھی لازم ہے۔
(6) علم کے ساتھ رحمت کا لفظ بھی آیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ علم اللہ پاک کی طرف سے ایک رحمت ہے، اور رحمت کائنات اور انسان کے جملہ مصالح و معاملات میں نظم و ارتباط پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیت بھی شامل ہے۔ اس میں ایک لحاظ سے انسان کے لیے رہنمائی ہے کہ وہ علم جو انسان کے لیے وسیلۂ خیر و فلاح و ارتقا نہیں بنتا، ناقص ہوگا۔
(7) قرآن کریم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مختلف اشیاء کے نام سکھائے۔ ظاہر ہے کہ پوری کائنات کا علم اشیاء ہی ہوسکتا ہے، اس کے مادی حصے کو سائنس کی بنیاد کہا جاسکتا ہے۔ مگر اس میں ذات وصفات کے دوسرے علم بھی شامل ہوسکتے ہیں، جو باطن میں ہیں یا آئندہ سے متعلق ہیں۔ یہ اسرار الٰہی ہیں، جو انسان کو اللہ پاک ہی کی طرف سے ملتے ہیں یا مل سکتے ہیں۔
(8) قرآن میں آیا ہے کہ اللہ نے انسان کو ’’بیان‘‘ سکھایا۔ اس سے تمام بیانی اظہارات کی رہنمائی ہوتی ہے اور قرآن کو بَیَان’‘ لِّلنَّاس (آل عمران :138) قرار دیا، جس کے معنی یہ ہوئے کہ بیان علم وحکمت کا ذریعہ ہے۔
مندرجہ بالا نکات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں علم کی تحریک ان کے اسی دینی سرچشمے (یعنی قرآن حکیم) سے پیدا ہوئی، اور وہ انہیں ان راستوں پر لے چلی جو مسلمانوں نے قرآن پر غور وفکر اور احکام الٰہی کی پیروی میں اختیار کیے۔ چنانچہ دینی علوم کے علاوہ مختلف دوسرے علوم مثلاً جغرافیہ، تاریخ، رجال، تذکرہ اور نظری و تجربی علم، مثلاً سائنس و ریاضیات، طب، نیز علم الاشیاء، مثلاً طبیعات و فلکیات وغیرہ اسی رہنمائی کی بدولت حاصل ہوئے، اور ان علوم کی بنیادیں مسلمانوں ہی نے رکھیں۔ معروف مصنف روزنتال (Rosenthal) کا (جس نے مسلمانوں کے علمی تصورات پر ایک عمدہ کتاب Knowledge Triumph لکھی) یہ بیان ہے کہ قرآن کریم نے علم پر یہ غیرمعمولی زور بعض عیسائی رسائلِ دینی و علمی کے زیراثر دیا ہوگا اس لیے قابلِ قبول نہیں کہ مذکورہ رسائل کی موجودگی کے باوجود عیسائیوں (اور یہودیوں) کی علمی تحریک اس زمانے میں (یا اس سے قبل) اس نہج پر نہیں چلی جس پر مسلمانوں کے ہاں بڑھی اور پھیلی، اور اگر کوئی تحریک تھی بھی، تو وہ اتنی زوردار نہ تھی کہ اس سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اتنے اثر پذیر ہوتے جتنا کہ فاضل موصوف نے ظاہر کیا ہے۔ حقیقت وہی ہے جس کا قرآن کریم میں تذکرہ آیا ہے:
(ترجمہ)’’اللہ نے تم (حضورؐ) پر کتاب اورحکمت نازل کی اور تم کو وہ کچھ بتایا ہے، جو تمہیں معلوم نہ تھا۔ اور اس کا فضل تم پر بہت ہے۔‘‘ (النساء: 113)
یہ مغرب کی مادّہ پرستی اور حواس پرستی ہے کہ وہ علم لدنی کا قائل نہیں، ورنہ انبیاء تو درکنار عام انسانوں کے علم کا ایک بڑا حصہ بھی ہدایتِ ربانی کا فیضان ہے۔ جس طرح زندگی خود ایک فیضانِ الٰہی ہے، اسی طرح علم بھی اللہ کی ایک نعمت ہے (اس کی عقلی توجیح الفارابی نے اپنے نظریۂ فیض یا فیضان کی صورت میں پیش کی ہے، مگر ان کا بیان حکیمانہ ہے، اس لیے الجھ گیا ہے)۔
بہرحال قرآن مجید میں علم کی غایتوں اور وسعتوں کا جو ذکر ہے اس کے زیر اثر علم کی چند بڑی جہتیں یہ ہیں:
(1) علم کی وسعت: اللہ تعالیٰ کی صفت ’’واسع’‘ علیم‘‘ ہے۔ اس تصور کی تحریک سے مسلمانوں کے یہاں دائرۂ علمی وسعت پذیر ہوا اور انسان بھی اپنے خالق کے سرچشمۂ علم سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے پر مائل ہوا۔
(2) یقین کی دولت: مسلمانوں نے یقین اور ظن میں فرق کیا اور ظن و تخمین کی حوصلہ شکنی کی۔ اہلِ فکر کا ایک گروہ شک (Doubt) کو علمی ترقی کی بنیاد مانتا ہے (اور بقول روزنتال، مسلم علماء میں سے بھی بعض اس مؤقف کے حامی تھے)، لیکن یہ مغالطہ ہے۔ دراصل وہ شک جو یقینی حقیقتوں کے بارے میں کیا جاتا ہے، مجہولیت اور لایقینیت پر ختم ہوجاتا ہے۔ جس طرح یقینی سائنسی تجربے پر شک نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح یقینی روحانی تجربوں پر بھی شک نہیں ہونا چاہیے۔ یہ الہامی واردات بھی قطعی ہیں، البتہ مادیات کے نادیدہ خواص کے بارے میں شک کرنے سے تحقیق و تیقن کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے شک سے یقین کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ شک برحق ہے۔ جو علم یقین نہیں پیدا کرسکتا وہ انتشار کا موجب ہوگا، اور اس سے سکونِ نفس پیدا نہیں ہوگا۔ قرآن کریم نے اسی لیے ظن پر یقین کو ترجیح دی ہے، بلکہ ارشاد ہوا ہے کہ بعض گمان گناہ ہیں: اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْم ـ (الحجرات: 12)
(3) مشاہدہ و تجربہ: آیاتِ الٰہی کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں۔ قرآن حکیم میں ان کے مشاہدے و تجزیے پر زور دیا گیا ہے۔ چنانچہ برّ وبحر اور ارض و سماوات کے حقائق کے مطالعہ و تحقیق کی بار بار تاکید آئی ہے۔
(4) تدبر: تفکر کے ساتھ تدبر پر زور دیا، اور ظاہر ہے کہ تدبر تفکر کی تکمیل کا نام ہے۔ اس تنظیم کے بغیر تفکر کی تکمیل نہیں ہوتی۔
(5) علم و عمل: علم اور عمل کو لازم وملزوم قرار دیا اور علم کے ساتھ حکمت کا تذکرہ کرکے علم کی اُن منزلوں کی نشاندہی کی جن کا تعلق حقائقِ عالیہ اور زندگی اور معاشرے کی عملی تنظیم سے ہے۔
(6) علم کو انسان کے ظاہر وباطن اور دنیا و عقبیٰ دونوں کے لیے مفید اور سودمند قرار دیا۔ اس سے اسلام کے نظریۂ علم میں کُلیّت پیدا ہوگئی۔ اسلام جامع حقیقتوں پر یقین رکھتا ہے اور زندگی کو جزوی طور پر دیکھنے کا قائل نہیں۔
(7) علم کا مقصود معرفتِ الٰہی اور معرفتِ نفس ٹھیرا، جس سے لذتِ یقین اور سعادتِ دنیا و آخرت حاصل ہوتی ہے۔ یہ اس شک (Scepticism) کی ضد ہے جو یونانی فکر کا ایک مستقل دبستان ہے، اور جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی علم یقینی یا صحیح نہیں۔ یہ اس جَزمیت (Dogmatism) کے بھی خلاف ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر علم صحیح ہے۔ یہ نظریہ حواس کی لغزشوں کو نظرانداز کردیتا ہے۔
علم مسلمانوں کے لیے عین دین ہے (جیسا کہ روزنتال نے بھی تسلیم کیا ہے)۔ دین انسان کی کلی زندگی پر حاوی ہے اور حواس و روح، دنیا و آخرت، سب اس میں شامل ہیں۔
غرض جہاں تک قرآن کریم کا تعلق ہے علمِ انسانی سے مراد محض تصور ہی نہیں، اس کی تصدیق بھی اس میں شامل ہے۔ حواس سے محسوس کرنے کے بعد اسے پرکھنا، تجزیہ کرنا، حقیقت تک رسائی حاصل کرنا اور اس پر عمل کرکے اسے سعادتِ دارین کا ذریعہ بنانا اصل مقصد ہے۔