بلوچستان شدت پسند مسلح تنظیموں کے حملے

گزشتہ ایک ماہ کے دوران صوبے کے مختلف علاقوں میں نصف درجن سے زائد حملوں میں 20سے زائد ایف سی اہلکارجاں بحق ہوچکے ہیں

بلوچستان میں فورسز پر حملوں میں پھر تیزی دیکھنے کو ملی ہے۔ خصوصاً 8 اکتوبر2001ء کے بعد جب افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم کی گئی تو بلوچستان میں واضح طور پر شورش، بم دھماکوں، اغوا برائے تاوان اور ہدفی قتل کے واقعات ہونے لگے۔ افغانستان پر امریکی قبضے اور بھارتی بالادستی کے بعد افغانستان بلوچ شدت پسند تنظیموں کے لیے پناہ گاہ اور تربیت گاہ بنا۔ سابقہ فاٹا میں ٹی ٹی پی وغیرہ کے خلاف جون2014ء میں شروع ہونے والے آپریشن ضربِ عضب کے بعد ان مذہبی تنظیموں کا محفوظ ٹھکانہ بھی افغانستان بنا ہے۔ یہاں تک کہ سندھ کی کالعدم علیحدگی پسند تنظیم ’’سندھو دیش ریوولوشنری آرمی‘‘کا سربراہ سید اصغر شاہ بھی قندھار میں مقیم ہے۔ ایس آر آر کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ری پبلکن آرمی اور بلوچ ری پبلکن گارڈز کے ساتھ ’’بلوچ راجی آجوئی سنگر‘‘ یعنی ’’براس‘‘ نامی اتحاد میں بھی شامل ہے۔ گویا افغانستان کی حکومت اور وہاں موجود بھارتی جاسوسی کا وسیع نیٹ ورک ان تمام تنظیموں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ پاکستان کے جاسوسی کے ادارے، فوج اور دوسری فورسز کی بے شمار کامیابیوں کے باوجود ان تنظیموں کا قلع قمع نہ ہونے کی وجہ دراصل کابل کی حکومت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی سانحہ پیش آہی جاتا ہے۔ اُدھر افغانستان میں ٹی ٹی پی، داعش اور بلوچ مسلح تنظیموں کے افراد بھی ہدف بن جاتے ہیں۔
31 مئی 2021ء کو کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے اسلم اچھو دھڑے نے مارواڑ کے علاقے میں ایف سی پر کاری وار کیا۔ یہ علاقہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے جنوب مشرق میں 80 سے90کلومیٹر پر واقع ہے۔ کوئلے کی کانیں وسیع علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس صنعت سے وابستہ افراد کی حفاظت کے لیے فرنٹیئر کور عرصۂ دراز سے تعینات ہے۔ البتہ کوئلے کی صنعت سے وابستہ مزدور، ٹھیکیدار اور مائنز مالکان فورسز سے بھی چنداں مطمئن نہیں ہیں، جن کو ہر جانب سے مسائل اور سخت حالات کا سامنا ہے۔ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب افواج پاکستان کے سربراہ کوئٹہ کے دورے پر تھے۔ حملے کے ایک دن بعد وزیراعظم عمران خان بھی کوئٹہ اور زیارت کے دورے کے لیے پہنچے۔ اسٹاف کالج کوئٹہ میں دونوں شخصیات نے فوجی افسران سے خطاب کیا۔ بعدازاں سیاحتی مقام زیارت میں قائداعظم ریزیڈنسی میں تقریب سے خطاب کیا۔ اس حملے میں 12اہلکار جاں بحق ہوگئے۔ البتہ کالعدم گروہ نے تعداد 25 بتائی ہے۔ مگر آزاد ذرائع سے اس دعوے کی تصدیق نہ ہوئی۔ یہ گروہ دو اہلکاروں کو ہمراہ بھی لے گیا تھا، جنہیں بعد میں قتل کردیا۔ تنظیم نے اپنے تین کارندوں کی شناخت واضح کردی، ان کی تصاویر جاری کیں جو اس دوران فورسز کی فائرنگ سے جان سے گئے۔ ہنگل مری عرف لیلا، آفتاب جتک عرف وشین، اور شاویز زہری عرف سارنگ کئی سال سے تنظیم سے وابستہ تھے۔ ان میں آفتاب جتک پنجاب سے معاشیات میں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا۔
31 مئی کو تربت میں ایف سی کے ایک کانوائے پر بھی حملہ ہوا جس میں لیفٹیننٹ کرنل عاطف سمیت چار اہلکار زخمی ہوئے۔ ایک اہلکار بعد ازاں دم توڑ گیا۔ کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) بلوچستان نے 26 مئی کو بتایا کہ کوئٹہ کے نواح اغبرگ کے علاقے میں چار دہشت گرد مقابلے میں مار دیے گئے۔ ان کی شناخت پشین کے رہائشی ریاض الدین، رمضان، مستونگ کے رہائشی مطیع اللہ اور جنوبی وزیرستان کے رہائشی فضل الرحمٰن محسود کے نام سے ہوئی۔یہ افراد ان کی قید میں تھے۔ چناں چہ اس روز مقابلہ ظاہرکیا گیا، جو ’جنگ میں سب کچھ جائز ہے‘ کے مصداق ہے۔ افغانستان کے صوبہ کنڑ میں کالعدم ٹی ٹی پی کا مفتی خالد مارا گیا۔29 مئی کو اس کی لاش ملی تھی۔ مفتی خالد ملا فضل اللہ کے معتمدین خاص میں سے تھا۔ خیبر پختون خوا کے علاقے بونیر کا رہائشی یہ شخص دہشت گردی کے کئی سنگین واقعات میں پاکستان کو مطلوب تھا۔ مفتی خالد ٹی ٹی پی اور بھارتی جاسوسی کے ادارے ’’را‘‘کے درمیان رابطے کی ذمہ داری پر مامور تھا۔ داعش خراسان کا سربراہ اسلم فاروقی (عبداللہ) بھی کابل حکومت کی حفاظت میں ہے۔ وہ ننگرہار میں افغان طالبان سے روپوش تھا۔ 4 اپریل 2020ء کو محاصرہ ہوا تو فوراً کابل کی فورسز کو اطلاع کردی، جس پرہیلی کاپٹر آئے اور اسے لے گئے۔ دیکھا جائے تو یہ سارے گروہ خواہ خیبر پختون خوا سے ہوں یا بلوچستان سے… افغانستان میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ بی ایل اے اسلم اچھو دھڑے نے پاکستان کے اندر چین کے کراچی میں واقع قونصل خانے پر فدائی حملہ کرایا، کراچی اسٹاک ایکسچینج میں گھسنے کی کوشش کی، گوادر کے پرل کانٹی نینٹل (پی سی) ہوٹل کے اندر گھس گئے۔ وہاں سے گوادر پورٹ اور چینیوں پر حملہ مقصود تھا۔ افغانستان میں ہی روپوش گروہ ٹی ٹی پی نے چند ہفتے پہلے کوئٹہ سرینا ہوٹل میں چینی سفیر اور سفارت خانے کے دیگر عملے کو خودکش بم دھماکے کے ذریعے مارنے کی کوشش کی۔ پیش ازیں دالبندین میں سیندک کمپنی کے چینیوں کو لے جانے والی کوسٹر پر خودکش حملہ کیا گیا۔ یہ بم دھماکا اسلم اچھو کے بیٹے نے کیا۔ اسلم اچھو قندھار کے پوش علاقے ’’عینو مینہ‘‘ میں چار دوسرے کمانڈروں سمیت بم حملے میں مارا گیا۔ یہ واقعہ دسمبر2018ء میں پیش آیا تھا۔ نمروز میں ایک بلوچ رہنما حضرت گل کے بیٹے کی لاش برآمد ہوئی۔ حضرت گل افغانستان میں پاکستان سے جانے والے بلوچ افراد کی رہائش وغیرہ کے لیے سہولت کار تھا۔ ڈیرہ بگٹی کا گلبہار بگٹی اپنے بیٹے مراد علی کے ہمراہ قندھار میں فائرنگ کے واقعے میں مارا گیا۔ معلوم یہ بھی ہوا ہے کہ گلبہار بگٹی کا ایک اور بیٹا، پوتا، اور بھتیجا بھی افغانستان میں ہدف بنے ہیں۔ ماہ اپریل میں افغانستان کے پاکستان سے متصل سرحدی علاقے اسپن بولدک میں چار بگٹی افراد جان سے گئے۔ حال ہی میں یعنی27 مئی2021ء کو کالعدم بی ایل اے کا ایک اور اہم کمانڈر عبدالنبی بنگلزئی قندھار میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ (باقی صفحہ 41پر)
تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے تصدیق کردی ہے۔ عبدالنبی بنگلزئی عرف چھوٹا میر2002ء سے شدت پسندی کی راہ پر تھا۔ یہ شخص سرمایہ داروں، وکلا اور تاجروں کے اغوا کے متعدد واقعات میں ملوث تھا۔ رہائی کے بدلے بھاری رقوم بطور تاوان وصول کرتا۔ تاوان کی غرض سے اغوا کی وارداتیں اور بھتہ وصولی تمام مسلح گروہوں کا عام وتیرہ ہے۔ یہ ایسا اپنے اخراجات اور مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ سرکار کے حمایت یافتہ افراد بھی اغوا، بھتہ خوری اور زمینوں پر قبضے سمیت اس نوع کے قبیح جرائم کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔
گزشتہ ایک ماہ کے دوران صوبے کے مختلف علاقوں میں نصف درجن سے زائد حملوں میں 20سے زائد ایف سی اہلکارجاں بحق ہوچکے ہیں۔ 9 مئی کو مارواڑ میں ایف سی کی چوکی پر حملے میں تین اہلکار جاں بحق ہو ئے تھے۔ 5 مئی کو افغانستان کی سرحد سے متصل ضلع ژوب میں سرحد پرباڑ لگانے والے اہلکاروں پر ٹی ٹی پی کے شدت پسند وں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایف سی کے سات اہلکاروں کی جانیں گئیں۔