افغانستان کا امن اور کابل حکومت کے غیر ذمہ دارانہ بیانات

پاکستان کے داخلی اور علاقائی مفاد میں افغانستان کے بحران کا حل اور افغان امن معاہدے کی کامیابی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ افغان بحران کا حل اور وہاں ایک مضبوط، پائیدار اور تمام فریقین پر مشتمل حکومت نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان سمیت علاقائی امن اور استحکام کی ضمانت بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اس وقت افغان بحران کے حل میں امریکہ سمیت بڑی طاقتوں بشمول افغان حکومت اور افغان طالبان کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ امریکہ سمیت تمام افغان فریقین یہ سمجھتے ہیں کہ جو حالیہ افغان امن کی سیاسی میز یا دربار سجا ہے یہ پاکستان کی عملی حمایت اور مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اس وقت بھی پاکستان کی ساری توجہ کا مرکزی نقطہ افغان بحران کا حل ہے، کیونکہ ڈر یہ ہے کہ اگر حالیہ افغان امن معاہدہ کسی بداعتمادی یا ناکامی کا شکار ہوتا ہے تو اس کی پورے خطے کو ایک بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ ناکامی کی صورت میں دوبارہ امن مذاکرات کا انعقاد ممکن نہیں ہوگا۔
امریکہ کی نئی سیاسی قیادت کی توجہ کا مرکز بھی پاکستان ہے۔ امریکہ افغان بحران کے حل میں پاکستان سے مزید حمایت مانگ رہا ہے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی حمایت کے بغیر افغان امن ممکن نہیں ہوگا۔ امریکہ نے یہ بات ماضی کی غلطی سے سیکھی ہے جب وہ پاکستان کو باہر نکال کر افغانستان میں امن لانا چاہتا تھا۔ اچھی بات یہ ہے کہ اِس وقت امریکہ پاکستان کے مثبت کردار کو تعمیری انداز میں دیکھتا ہے۔ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا حالیہ ایک روزہ دورئہ افغانستان، اور افغان سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقات بھی اسی امن معاہدے کو آگے بڑھانے کی کوشش کا حصہ تھی۔
اِس وقت افغانستان کے بحران کے حل میں چار فریق ہیں: امریکہ، پاکستان، افغان حکومت اور افغان طالبان۔ اس وقت اگرچہ امریکہ سمیت پوری دنیا بڑی گرم جوشی کے ساتھ افغان امن معاہدے کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے۔ لیکن افغان بحران کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ افغان حکومت اورافغان طالبان کے درمیان بداعتمادی اور بالخصوص افغان حکومت کا طرزِعمل ہے۔ افغان حکومت مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اسے نہ صرف الجھا رہی ہے بلکہ بلاوجہ کی بداعتمادی کو بڑھایا جارہا ہے جو افغان امن معاہدے کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں۔ افغانستان کی حکومت بنیادی طور پر اس وقت امریکہ کی حمایت سے موجود ہے اور اُس کی توجہ کا مرکز بھی امریکی حمایت کا حصول ہے۔ لیکن امریکہ میں نئی سیاسی قیادت آنے کے بعد افغان حکومت کے تیور منفی نظر آتے ہیں۔
اس وقت 6 بڑے چیلنج افغان امن معاہدے کی کامیابی کے تناظر میں افغان حکومت کی وجہ سے سامنے آرہے ہیں:
(1) مسلسل افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور افغان نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر حمداللہ محب پاکستان کے ساتھ تعاون اور دوطرفہ مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کے بجائے پاکستان اور پاکستانی ریاستی اداروں پر بلاوجہ اور بلاجواز الزام تراشیوں سے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
(2) بنیادی طور پر افغان حکومت کو داخلی محاذ پر امن و امان کے قیام اور افغان طالبان سے نمٹنے میں جو ناکامی ہورہی ہے اُس کا الزام وہ پاکستان پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے رہی ہے۔
(3) افغان حکومت الزامات کی سیاست کو بنیاد بناکر اپنی داخلی کرپشن پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔ افغان عوام اور افغان میڈیا میں تسلسل کے ساتھ افغان حکومت اور ڈاکٹر اشرف غنی کی انتظامیہ کی کرپشن کی داستانیں عام ہیں، اور لوگ اس پر آواز اٹھا رہے ہیں۔
(4) افغان حکومت مسلسل افغان عوام میں اپنی ساکھ اور شفافیت کو کھورہی ہے، اور لوگوں کو لگتا ہے کہ خود افغان حکومت صورت حال کو خراب کرنے کی زیادہ ذمہ دار ہے۔
(5)اگر افغان حکومت، صدر ڈاکٹر اشرف غنی یا سیکورٹی ایڈوائزر حمداللہ محب کو پاکستان سے شکایات ہیں تو اس کے لیے براہِ راست رسمی بات چیت یا اپنے تحفظات کا سفارتی سطح پر تبادلہ کرنے اور معاملات کو حل کرنے کے بجائے بلاوجہ بداعتمادی کو پیدا کرنا صورت حال میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
(6) بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی اور حمداللہ محب افغان امن معاہدے کی کامیابی میں زیادہ سنجیدہ نہیں، اور ان کے مفادات افغانستان سے زیادہ باہر کی دنیا سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کا خاندان بھی باہر ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی جانب سے خود امریکہ کے کردار پر بھی تنقید کی جارہی ہے، اور جو کچھ امریکہ امن کے تناظر میں کرنا چاہتا ہے وہ اس میں کلیدی کردار ادا کرنے کے بجائے مسائل پیدا کررہے ہیں۔
پاکستان نے افغان حکومت کے غیر ذمہ دارانہ بیانات یا الزام تراشیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کے بقول افغان حکومت کے سربراہ کا یہ طرزعمل معاملات کو سلجھانے اور امن کو ممکن بنانے کے بجائے حالات کو خرابی کی طرف لے جائے گا۔ اگرچہ اس وقت قطر مذاکرات کا عمل جاری ہے۔ امریکی صدر نے دیگر ممالک چین، روس، بھارت اور ایران کو بھی اعتماد میں لیا ہے۔ ستمبر 2021ء تک امریکی فوجیوں کا انخلا بھی ہونا ہے اور بہت سے لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ حالات عملی طور پر بہتری کی طرف بڑھیں گے۔ لیکن بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ اور پاکستان سمیت جو بھی افغان بحران کے حل میں سیاسی کوششیں کررہے ہیں اُن کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ افغان حکومت اور افغان طالبان میں بڑھتے ہوئے فاصلے یا بداعتمادی کا ماحول ہے۔ اگرچہ کچھ عرصہ قبل افغان حکومت اور طالبان کے درمیان 18برس بعد امن کی حمایت میں تاریخی معاہدہ ہوا تھا، مگر اس کے باوجود اب یہ دونوں اہم فریق ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرکے ماحول کو خراب کررہے ہیں اور افغان امن معاہدے کو بھی پسِ پشت ڈالا جارہا ہے۔ بالخصوص افغانستان میں دہشت گردی کا عمل تسلسل سے جاری ہے اور افغان حکومت اس دہشت گردی کا براہِ راست ذمہ دار افغان طالبان کو قرار دیتی ہے، جبکہ طالبان حالیہ دہشت گردی میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہیں اور ان کے بقول ایسی داخلی اور خارجی قوتیں جو امن کے خلاف ہیں، وہ دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ افغان طالبان بھی اب افغان حکومت سے مایوس ہوتے جارہے ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ ان کی اصل قوت جنگ ہی ہے۔ امریکہ اس وقت عملی طور پر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان پھنس کر رہ گیا ہے کہ وہ کس کے ساتھ کھڑا ہو۔ افغان حکومت سمجھتی ہے کہ امریکہ طالبان کی حمایت میں زیادہ ہے اور ہمیں نظرانداز کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت افغان حکومت کی پوری کوشش ہے کہ کسی طریقے سے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان بداعتمادی پیدا کی جائے، اور افغان صورت حال کے بگاڑ کی ساری ذمہ داری طالبان پر ڈال کر امن معاہدے کو خراب کیا جائے۔ کیونکہ افغان حکومت چاہتی ہے کہ اس امن معاہدے میں اس کی سیاسی طاقت ختم نہ ہو، اورطالبان کو فوقیت حاصل نہ ہو۔ اسی طرح طالبان بھی خود کو برتری میں رکھنا چاہتے ہیں۔ دونوں طرف سے متوازن پالیسی کا فقدان ہے، اور ایک عبوری حکومت جس میں سب فریقین شامل ہوں، کے امکانات بھی کمزور نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں داخلی بحران سے نمٹنے میں اپنی ناکامی کو قبول کرنے کے بجائے افغان حکومت کی سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی حکمتِ عملی افغان بحران کو مزید بڑھانے کا سبب بن رہی ہے۔