بجٹ کا خوف

مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ حکومت کا سب سے بڑا امتحان ہے

بجٹ کی آمد آمد ہے، رواں ہفتے بجٹ دستاویز قومی اسمبلی میں پیش کردی جائیں گی۔ وفاقی بجٹ 11 جون کو وزیرِ خرانہ شوکت ترین پیش کریں گے۔ صوبہ پنجاب کا بجٹ 14 جون کو، سندھ کا بجٹ 15 جون کو، جبکہ خیبر پختون خوا کا بجٹ 18 جون کو پیش ہوگا۔ وفاق اور صوبوں نے بجٹ کے حوالے سے اعداد و شمار کو حتمی شکل دے دی ہے۔ اِس بار وفاقی اور صوبائی بجٹ عوامی بجٹ ہوں گے، بجٹ میں آنے والے الیکشن کو مدِنظر رکھا گیا ہے۔ روایت یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن بجٹ پر بحث کے دوران کبھی بھی کسی بھی نکتے پر یکسو نہیں ہوئیں، تاہم واک آئوٹ کرکے ہر اپوزیشن حکومت کو بجٹ منظور کرنے کا موقع دیتی ہے۔ پارلیمنٹ میں بجٹ پر بحث کی حیثیت تقریری مقابلے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ہر سال اپوزیشن بجٹ پاس نہ ہونے دینے کی دھمکی دیتی ہے اور بجٹ پاس بھی ہوجاتا ہے۔ رواں ہفتے قومی اسمبلی میں حکومت اپنا چوتھا بجٹ پیش کرے گی، حکومت کے لیے ان میزانیوں کو عوام دوست بنانا بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ پی ٹی آئی حکومت کا تیسرا بجٹ ہے، اس کے پہلے دو میزانیوں کو پیش نظر رکھا جائے تو عوام فطری طور پر اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ اگر پہلے دو میزانیوں کی طرح موجودہ آنے والے بجٹ میں بھی مروجہ ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر اور نئے ٹیکس لگا کر مہنگائی کے دروازے کھولے گئے تو ان کے لیے سُکھ کا سانس لیتے ہوئے زندہ رہنا عملاً دشوار ہوجائے گا۔ شوکت ترین کو وزارتِ خزانہ کا قلم دان سنبھالے بمشکل تین ماہ کا عرصہ گزرا ہے، اس سے قبل وہ بھی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں سے مطمئن نہیں تھے، بالخصوص آئی ایم ایف سے مشروط قرضوں کی حکومتی پالیسی کے وہ ناقد تھے اور انہوں نے وزارتِ خزانہ کا قلم دان بھی اپنی شرائط پر قبول کیا۔ چنانچہ اقتصادی امور میں ان کے وسیع تجربے کی بنیاد پر حکومت ہی نہیں، عوام کو بھی اُن سے قومی معیشت کی بحالی کے لیے بے پناہ توقعات وابستہ ہوئیں۔ انہوں نے وزارتِ خزانہ کا قلم دان سنبھالنے کے بعد پہلا اعلان قرض کے ساتھ منسلک آئی ایم ایف کی شرائط پر نظرثانی کا کیا، اور سرکاری ملازمین پر ٹیکس بڑھانے کی آئی ایم ایف کی شرط مسترد کردی۔ تین ہفتے قبل انہوں نے قومی معیشت کی بحالی اور گروتھ ریٹ بڑھ کر چار فیصد تک جا پہنچنے کا دھماکہ کیا۔ جب اپوزیشن کی جانب سے اس پر تنقید ہوئی تو اسٹیٹ بینک نے بھی شرح نمو چار فیصد ہونے کی تصدیق کردی۔ اگر حکومت نے بہتر عملی بجٹ دیا تو عوام سکون کا سانس لیں گے اور اپوزیشن کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ تاہم اگر بجٹ سابقہ میزانیوں کی طرح اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہی نظر آیا اور آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بجٹ میں مروجہ ٹیکس بڑھے اور نئے ٹیکسوں کی بھرمار نظر آئی، اور اس کے برعکس تنخواہ دار، تاجر اور مزدور طبقات کو اپنے لیے ریلیف کی بجائے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تو اس سے عوامی اضطراب کی نئی لہر اٹھ سکتی ہے جس سے اپوزیشن پھر سے زندہ ہوجائے گی، اور مہنگائی بڑا ایشو بن جائے گا۔ حکومت قومی معیشت کی ترقی کے دعوے کررہی ہے، اس کا عکس بجٹ میں نظر نہ آیا تو اس کے سارے پروگرام دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
بجٹ سے ایک ماہ قبل حکومت نے ترقی کی شرح جو 0.40تھی راتوں رات 3.94پر پہنچا دینے کا اعلان کرکے دنیا بھر کے معاشی ماہرین کو بھی حیران کردیا اور مزید 26 خوش خبریاں بھی سنا دیں، جبکہ حقیقت اس کے برعکس دکھائی دے رہی ہے۔ عوام ان خوش خبریوں پر دھیان نہیں دے رہے، وہ سوچ رہے ہیں کہ تین سال گزر گئے، دو سال باقی رہ گئے ہیں وہ بھی گزر ہی جائیں گے۔ تحریک انصاف کی حکومت کا پہلا سال مکمل ہونے پر ایک تقریب میں ممتاز معیشت دان ڈاکٹر وقار مسعود نے کہا تھا کہ ہر حکومت کو بدحال معیشت ہی ملتی رہی ہے مگر تحریک انصاف کچھ زیادہ شور کررہی ہے، یہ اس کی ناتجربہ کاری ہے یا کچھ اور، اِس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آتے ہی ملکی معیشت تنزلی کا شکار ہوگئی جس سے نہ صرف کاروباری بلکہ تنخواہ دار طبقہ بھی شدید متاثر ہوا۔ معاشی بدحالی کو دور کرنے کے لیے چار بار معاشی ٹیم کا کپتان تبدیل کیا گیا تاہم بہتری نہیں آئی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ گرداب میں پھنسی ملکی معیشت بحال ہورہی ہے۔ آئی ایم ایف کا تازہ بیان ہے کہ جی ڈی پی کے لحاظ سے پاکستان کے سرکاری قرضوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ حکومت کا خیال ہے کہ 2021ء میں 4 فیصد تک مزید ترقی کرے گی۔ اسٹیٹ بینک شرح نمو کا تخمینہ 3فیصد لگا رہا ہے، جبکہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک بالترتیب 1.5فیصد اور 1.3فیصد نمو کا تخمینہ لگا رہے ہیں۔ حکومت کچھ حرکت میں آئی ہے اور آئندہ مالی سال کے لیے4.8 فیصد گروتھ ریٹ کی منظوری دی ہے کہ مجموعی قومی پیداوار اس حد تک لے جائیں گے، تاہم اسے یقین ہے کہ الفاظ کی تمام تر جادوگری کے باوجود رواں سال شرح نمو3.9فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔
بہرحال حکومت بہتری لانے کے لیے آئندہ مالی سال کے لیے900 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کا اعلان کرے گی۔ کیونکہ یہ الیکشن کا بجٹ ہے، اس لیے حکومت چاہے گی کہ کچھ کرکے دکھائے، اور ٹیکس محاصل کے لیے 6 ہزار ارب کا ہدف رکھا جائے گا، اسی لیے مجموعی قومی پیداوار چار فی صد تک بتائی جارہی ہے۔ بجٹ میں ایک سو ارب œ¢رونا کے مقابلے کے لیے رکھے جارہے ہیں، براہ راست اور ‚لواسطہ ٹیکسز کے ذریعے چار ہزار ارب اکٹھے کیے جائیں گے اور ایک ہزار ارب مختلف ڈیوٹیز کی مد میں اکٹھے کیے جائیں گے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگا جب ملک کی معیشت میں جان ہی نہیں؟ شاید اسی لیے آئی ایم ایف اور وزارتِ خزانہ کے درمیان ٹیکس وصولیوں پرتعطل ہے اور حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ٹیکس ہدف، بجلی اور گیس کی قیمتوں پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ حکومت نے 200 ارب کے اضافی ٹیکس لگانے کی شرط ماننے سے بھی انکار کردیا ہے۔ آئندہ بجٹ میں متعدد شعبوں کو دی گئی ٹیکس چھوٹ کے خاتمے پر بھی اتفاق نہ ہوسکا۔ ایف بی آر نے آئندہ بجٹ میں کچھ شعبوں کے لیے کھلی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے اورمتعدد شعبوں کے لیے ضروری ٹیکس چھوٹ جاری رکھنے کی بھی سفارش کی ہے۔وزارتِ خزانہ نے آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان اپنے طریقے سے ٹیکس بڑھانا چاہتا ہے اور خسارے میں چلنے والے بڑے اداروں کی نجکاری کرکے دکھائیں گے، جی ڈی پی گروتھ اگلے سال 5 فیصد اور اس سے اگلے سال6 فیصد تک لے جائیں گے۔ وزیر خزانہ چاہتے ہیں کہ زراعت اور صنعت کو مراعات دیں اور ایف بی آر کی ہراسمنٹ کوختم کریں۔ حکومت کے انہی دعووں کی چھائوں میں آزاد اور غیر جانب دار معاشی ماہرین اپوزیشن کا یہ مؤقف درست تسلیم کر رہے ہیںکہ مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی میں بہتری بتانا عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔
اعداد و شمار میں ہیر پھیر سے حکومت کی اَنا کو تو تسکین حاصل ہوسکتی ہے مگر عوام کا پیٹ نہیں بھر سکتا ۔ مہنگائی 13 فیصد سے زائد ہے، ملک میں 50 لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں، جبکہ 2 کروڑ افراد انتہائی غربت میں گزارا کررہے ہیں۔
کامیاب معیشتوں میں افراطِ زر کم اور ملازمتوں کی شرح بلند ہوتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے حکومت کو چیلنج کیا تھا کہ وہ 2018ء کے معاشی اشاریوں سے موازنہ جاری کرے۔ اسے علم ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے موجودہ مالی سال کا ساڑھے 4 ہزار ارب روپے ٹیکس کا ہدف حاصل نہیں کیا، یہ 5 ہزار 800 ارب روپے کا ہدف مقرر کرکے کس کو بے وقوف بنارہے ہیں! یہ سب اہداف پورے ہوتے نظر نہیں آرہے۔
ملک بھر میں گرمی کی شدت بڑھنے کے ساتھ ہی بجلی کی قلت بھی سامنے آگئی۔ بڑے شہروں میں معمول کی لوڈشیڈنگ جاری تھی کہ اب غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ بھی شروع کردی گئی ہے۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ حکومت نے چار پاور اسٹیشن بھی بندکردیئے ہیں۔ حکومت نے بجلی کی قیمت نہ بڑھانے کا اعلان کیا، لیکن بلوں سے سبسڈی کم کرکے سلیب میں رد و بدل کردیا گیا۔ یوں گیس کی طرح بجلی کے بل بھی اسی تناسب سے بڑھ گئے ہیں۔ قیمت میں اضافے کا یہ طریقہ گیس کمپنیوں سے مستعار لیا گیا ہے، جس سے مہنگائی مزید بڑھ جائے گی۔
مہنگائی، بے روزگاری حکومت کے لیے سب سے بڑا امتحان ہے۔ اشیائے ضروریہ کے نرخ تین سال پہلے کی سطح پر لانا حکومت کے لیے ایک کڑا امتحان ہے۔ گزرے ہوئے مالی سال کے دوران آٹا، چینی، گھی، خوردنی تیل سمیت ہرچیز کی قیمت بڑھی اور ملک میں مہنگائی میں اضافے کی شرح زیادہ تر 16اور 18 فیصد تک رہی۔ ادارئہ شماریات پاکستان کے مطابق جون میں مہنگائی کا حجم 16.12 فیصد نوٹ کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کے پیچھے بنیادی عنصر ڈالر کا ہے جس کی وجہ سے پیٹرولیم سمیت تمام درآمدی اشیا مہنگی ہوئیں۔ تجارتی خسارہ کم نہ ہوا تو مستقبل میں درآمدی بل کی ادائیگی مشکل ہوجائے گی۔ رہی سہی کسر بجلی کے گردشی قرضوں نے پوری کردی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہ مسئلہ ملکی معیشت کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے، جو بجلی کے نرخوں میں اضافے کے باوجود حل نہیں ہورہا۔ حکومت کو اس وقت آئی پی پیز کے چار کھرب روپے سے زیادہ ادا کرنے ہیں جن کی ادائیگی ایک طویل عرصے سے التوا کا شکار ہے، رواں برس فروری میں ان واجبات کی مرحلہ وار ادائیگی کے لیے حکومت اور آئی پی پیز کے درمیان معاہدہ ہوا جس کے بعد حکومت نے آئی پی پیز کو 89ارب 20 کروڑ روپے کی پہلی قسط ادا کی۔ حکومت نے 20 آئی پی پیز کو 40 فی صد واجبات کی پہلی قسط اداکردی ہے۔ معاہدے کے تحت انہیں مجموعی طور پر 225 ارب روپے کی ادائیگی کی جانی ہے جبکہ بقیہ 60 فی صد ادائیگی چھ ماہ کے اندر کردی جائے گی۔
حکومت تسلیم کرچکی ہے کہ نیب کے خوف سے سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے۔ حکومت سرکاری افسروں اور کاروباری افراد کو تحفظ دینے کے لیے ایک قانون لارہی ہے۔ یہ اس لیے ہورہا ہے کہ وزیر خزانہ نے نیب کو ایک حد کے اندر رکھنے کی شرط پر ہی قلم دان سنبھالا تھا، یوں اگر کسی کو این آر او ملے گا تو اس کا سبب حکومت کے وزیر خزانہ ہوں گے۔