ابراہم بن الجراحؒ کہتے ہیں کہ میں امام ابو یوسفؒ کے مرضِ وفات میں ان کی عیادت کے لیے پہنچا تو دیکھا کہ ان پر غشی طاری ہے۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ میں ان کے پاس بیٹھا ہوں۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے سوال کیا:
’’ابراہم! بتایئے، حاجی کے لیے افضل طریقہ کون سا ہے؟ وہ پیدل رمی کرے یا سوار ہوکر؟‘‘
میں نے عرض کیا: ’’پیدل کرنا افضل ہے‘‘۔
امام ابو یوسفؒ نے فرمایا: ’’یہ درست نہیں‘‘۔
’’پھر سوار ہوکر رمی کرنا افضل ہوگا؟‘‘ میں نے کہا۔
’’نہیں!‘‘ امام یوسفؒ نے جواب دیا۔ ’’یہ بھی درست نہیں‘‘۔
پھر خود ہی فرمایا: ’’جس رمی کے بعد کوئی اور رمی کرنی ہو اس کا پیدل کرنا افضل ہے، اور جس کے بعد کوئی اور رمی نہ ہو، اسے سوار ہوکر کرنا افضل ہے‘‘۔
ابراہمؒ کہتے ہیں کہ مجھے مسئلہ معلوم ہونے سے زیادہ اس بات پر تعجب ہوا کہ ابویوسفؒ ایسی بیماری کی حالت میں بھی علمی مذاکرات کے کتنے شوقین ہیں؟ اس کے بعد میں ان کے پاس سے اٹھا اور ابھی دروازے تک بھی نہیں پہنچا تھا کہ گھر سے عورتوں کے رونے کی آواز آئی۔ معلوم ہوا کہ امام ابویوسفؒ اپنے مالک ِ حقیقی سے جاملے ہیں۔
(معارف السنن لمولانا البنوری مدظلہم، ص474، 475، ج 6 بحوالہ البحر الرائق و فتح القدیر) (مفتی محمد تقی عثمانی۔ ”تراشے“)