ریل کا ایک اور حادثہ

صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی کے علاقے ڈہرکی میں ریتی ریلوے اسٹیشن کے قریب دو ریل گاڑیوں ملت ایکسپریس اور سرسید ایکسپریس کے ہولناک تصادم کے نتیجے میں65 مسافر جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہوگئے۔ ہمارے یہاں سڑک، ریل یا جہاز کسی بھی ذریعے کا سفر محفوظ نہیں رہا، ہمارے ورقی اور برقی ذرائع ابلاغ ہر روز حادثات اور ان میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کی اطلاعات سے بھرے ہوتے ہیں۔ ریل گاڑی کا سفر ایک دور میں محفوظ تصور کیا جاتا تھا، مگر آج کل ریل گاڑیوں کے حادثات کی بھی بھرمار ہے جن میں بے پناہ جانی و مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ آئے روز حادثات کے باوجود ان کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے، جس کے باعث حادثات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
ریل گاڑی کا یہ پہلا حادثہ نہیں تھا، تاہم یہ دعا ضرور کی جا سکتی ہے کہ اللہ کرے یہ آخری ہو، اور وطنِ عزیز آئندہ اس قسم کے ہولناک اور جان لیوا سانحات سے محفوظ رہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق موجودہ حکومت کے ابتدائی تین برسوں کے دوران ریل گاڑیوں کے مجموعی طور پر 373 حادثات ہوئے۔ 2012ء میں 131 حادثات، 2019ء میں ایک سو سے زائد اور 2020ء کے دوران 142 حادثات رونما ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان نے جب تک اقتدار نہیں سنبھالا تھا، ہر حادثے کے بعد وہ حکمرانوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے تھے اور متعلقہ وزیر سے استعفے کا مطالبہ کرتے تھے، تاہم اب انہوں نے اس معاملے میں بھی ’’یوٹرن‘‘ لے لیا ہے، چنانچہ گزشتہ تین برس میں حادثات میں ریکارڈ اضافے کے باوجود انہوں نے ریلوے کے کسی وزیر سے استعفیٰ نہیں لیا ہے۔ ڈہرکی کے حالیہ ٹرین حادثے کے بعد تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے سینوں میں دل اور انسانی ہمدردی نام کی کوئی چیز موجود نہیں، بلکہ ان کے سینے ہوسِ اقتدار اور مخالفین کے لیے بغض سے بھرے ہوئے ہیں۔ ڈہرکی کے سانحے پر وزیر ریلوے کے استعفے کا مطالبہ قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جانب سے سامنے آیا تو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے حادثے کے متاثرین سے ہمدردی اور ان کی اشک شوئی کے بجائے حزبِ اختلاف پر تمام تر ذمے داری ڈالتے ہوئے کہا کہ حادثات کا خون نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے ہاتھوں پر ہے، سعد رفیق کے گناہوں پر اعظم سواتی کیوں استعفیٰ دیں! ریلوے کرپشن ریفرنس سعد رفیق بھگت رہے ہیں، منگلا کا پورا ٹریک اتفاق فونڈری نے خرید لیا، اسحاق ڈار کے مامے، چاچے بھرتی کیے گئے۔ سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے جوابی پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا کہ حکومت نے ریلوے کے ترقیاتی بجٹ پر 65 ارب روپے کا کٹ لگایا، جس کے سبب ریلوے کا محکمہ بندش کے قریب ہے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کے دیگر رہنمائوں کا طرزعمل بھی اسی قسم کا تھا۔
بدقسمتی یہ ہے کہ سیاست دانوں ہی کی طرح بیوروکریٹ بھی قانون اور قاعدے کے مطابق کام کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے میں مصروف ہیں، چنانچہ حادثے کے بعد چیف انجینئر ریلویز نے اپنا ایک خط ڈی ایس سکھر کے نام ذرائع ابلاغ کو جاری کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈی ایس سکھر کو تمام وسائل فراہم کیے گئے مگر انہوں نے پٹری کی بحالی اور مرمت کا کام شروع نہیں کیا۔ وفاقی انسپکٹر برائے ریلویز نے بھی ڈی ایس سکھر کے بارے میں ماضی کی ایک رپورٹ میں ذہنی مریض قرار دیے جانے اور ان کے ذہنی معائنے کی ہدایت کا دعویٰ کیا ہے، جب کہ ڈی ایس سکھر کا مؤقف یہ ہے کہ انہوں نے ٹریک کی بحالی اور تعمیر و مرمت کے لیے ڈھائی کروڑ روپے کا سامان مانگا تھا مگر پانچ برس کے دوران صرف بیس لاکھ روپے کا سامان دیا گیا۔ یوں ایک تماشا لگا ہوا ہے، معاملے کی سنگینی کا احساس کرنے اور انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے مل بیٹھ کر سوچنے اور عملی اقدامات کے بجائے ہر طرف سے دوسروں پر تنقید کے نشتر برسائے جا رہے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے اس المناک حادثے کے بعد ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ ڈہرکی حادثے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع سے دل دہل گیا ہے۔یہ اندوہناک حادثہ نشاندہی کررہا ہے کہ ریلوے سمیت ہر سرکاری محکمہ اور عوامی فلاح و بہبود کا ہر ادارہ پٹری سے اتر چکا ہے، یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ پورا نظام ہی ہچکولے کھا رہا ہے۔ جناب سراج الحق نے وزیراعظم عمران خان کی ماضی کی تقریروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے استفسار کیا ہے کہ ہر بات پر مغرب کی مثالیں دینے والے وزیراعظم بتائیں کہ اگر ڈہرکی جیسا حادثہ یورپ یا امریکہ میں ہوتا تو کون کون استعفیٰ دیتا؟ مگر پاکستان میں ماضی کے تجربات کی روشنی میں سب کو معلوم ہے کہ اس المناک سانحے کی تحقیقات کے نام پر ایک کمیٹی بنادی جائے گی جس کا مقصد ہرگز، ہرگز سانحے کے ذمہ داران کو تلاش کرکے سزا دینا نہیں بلکہ سارے معاملے پر مٹی ڈالنا ہوگا، ورنہ اگر ماضیِ قریب کے حادثات کے ذمہ داران ہی کو قرار واقعی سزا دے دی گئی ہوتی تو شاید ڈہرکی کے اس المناک حادثے کی نوبت نہ آتی۔ حکمرانوں اور سیاست دانوں کو اپنا طرزعمل بدلنا ہوگا، ورنہ عوام اس قدر تنگ آچکے ہیں کہ وہ وقت قریب آ لگا ہے جب گلی کوچوں میں لوگ ان حکمرانوں اور سیاست دانوں کے گریبان پکڑنے سے گریز نہیں کریں گے.