اسلامی نظامِ معیشت کی خصوصیات

قرآن کے 22 نکات میں انسان کی معاشی زندگی کے لیے جو اسکیم مرتب کی گئی ہے اس کے بنیادی اصول اور نمایاں خصائص یہ ہیں:
-1 یہ اسکیم معاشی انصاف ایسے طریقے سے قائم کرتی ہے جس سے ایک طرف ہر طرح کے معاشی ظلم اور بے جا استحصال کا سدباب بھی ہو، اور دوسری طرف معاشرے میں اخلاقی فضائل کی نشوونما بھی ہوسکے۔ قرآن کے پیش نظر ایسا معاشرہ بنانا نہیں ہے جس میں کوئی کسی کے ساتھ خود نیکی نہ کرسکے اور افراد کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا یہ کام ایک اجتماعی مشن کے ذریعے سے ہوتا رہے، کیوں کہ اس طرح کے معاشرے میں اخلاقی فضائل کی نشوونما کا کوئی امکان نہیں رہتا۔ قرآن اس کے برعکس وہ معاشرہ بناتا ہے جس میں افراد ایک دوسرے کے ساتھ رضاکارانہ اور بے غرضانہ فیاضی، ہمدردی اور احسان کا برتائو کریں، اور اس کی بدولت ان کے درمیان آپس کی محبت فروغ پائے۔ اس غرض کے لیے وہ زیادہ تر انحصار لوگوں کے اندر ایمان پیدا کرنے اور ان کو تعلیم و تربیت کے ذریعے سے بہتر انسان بنانے کی تدبیروں پر کرتا ہے۔ پھر جو کسر باقی رہ جاتی ہے اس کو پورا کرنے کے لیے وہ ان جبری احکام سے کام لیتا ہے جو اجتماعی فلاح کے لیے ناگزیر ہیں۔ (نکات نمبر8 تا 13 اور 15تا 19)
-2اس میں معاشی اقدار کو اخلاقی اقدار سے الگ رکھنے کے بجائے دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا ہے، اور معیشت کے مسائل کو مجرد معاشی نقطہ نظر سے لے کر حل کرنے کے بجائے انہیں اس مجموعی نظامِ حیات کے تناسب میں رکھ کر حل کیا گیا ہے جس کی عمارت اسلام نے کلیتہً خدا پرستانہ تصورِ کائنات و فلسفہ اخلاق پر استوار کی ہے۔ (نکات نمبر1،2،4،5)
-3اس میں زمین کے معاشی وسائل و ذرائع کو نوعِ انسانی پر خدا کا فضلِ عام قرار دیا گیا ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ شخصی، گروہی یا قومی اجارہ داریوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے، اور اس کے بجائے خدا کی زمین پر بنی نوع انسان کو اکتسابِ رزق کے زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک کھلے مواقع دیئے جائیں۔ (نکتہ5)
-4اس میں افراد کو شخصی ملکیت کا حق دیا گیا ہے مگر غیر محدود نہیں۔ فرد کے حقِ ملکیت پر دوسرے افراد اور معاشرے کے مفاد کی خاطر ضروری پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ یہ اسکیم ہر فرد کے مال میں اس کے اقربا، ہمسایوں، دوستوں، حاجت مند اور کم نصیب انسانوں اور مجموعی طور پر پورے معاشرے کے حقوق بھی قائم کرتی ہے۔ ان حقوق میں سے بعض جبری طور پر قابلِ تنفیذ ہیں اور بعض کو سمجھنے اور ادا کرنے کے لیے خود افراد کو ذہنی و اخلاقی تربیت کے ذریعے سے تیار کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ (نکات 19,17,15-7,5,3)
-5 انسانی زندگی کے معاشی نظام کو چلانے کی فطری صورت اس اسکیم کی رو سے یہ ہے کہ افراد اسے آزادانہ سعی و جہد کے ذریعے سے چلائیں اور ترقی دیں۔ لیکن یہ آزادانہ سعی و جہد اس میں بے قید نہیں رکھی گئی ہے، بلکہ معاشرے کی اور خود ان افراد کی اپنی اخلاقی و تمدنی اور معاشی بھلائی کے لیے اسے بعض حدود سے محدود کیا گیا ہے۔ (نکات 22,15,7,6)
-6اس میں عورت اور مرد دونوں کو ان کی کمائی ہوئی اور میراث یا دوسرے جائز ذرائع سے پائی ہوئی دولت کا یکساں مالک قرار دیا گیا ہے، اور دونوں صنفوں کو اپنے حقِ ملکیت سے متمتع ہونے کے یکساں حقوق دیئے گئے ہیں۔ (نکات 18,4,3)
-7اس میں معاشی توازن برقرار رکھنے کے لیے ایک طرف تو لوگوں کو بخیلی اور رہبانیت سے روک کر خدا کی نعمتوں کے استعمال پر ابھارا گیا ہے، اور دوسری طرف انہیں اسراف اور فضول خرچی اور عیاشی سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔ (نکات 10-8,5)
-8اس میں معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے یہ انتظام کیا گیا ہے کہ دولت کا بہائو نہ تو غلط ذرائع سے کسی خاص سمت میں چل پڑے، اور نہ جائز ذرائع سے آئی ہوئی دولت کہیں ایک جگہ سمٹ کر بے کار رکی رہ جائے۔ اس کے ساتھ وہ یہ انتظام بھی کرتی ہے کہ دولت زیادہ سے زیادہ استعمال اور گردش میں آئے، اور اس کی گردش سے خصوصیت کے ساتھ اُن عناصر کو حصہ ملے جو کسی نہ کسی وجہ سے اپنا مناسب حصہ پانے سے محروم رہ جاتے ہوں۔ (نکات21,19-17,15,13,12,10-6)
-9یہ اسکیم معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے قانون اور ریاست کی مداخلت پر زیادہ انحصار نہیں کرتی۔ چند ناگزیر تدابیر کو ریاست کی ذمہ داری قرار دینے کے بعد وہ اس مقصد کے لیے اپنی بقیہ تدابیر کا نفاذ افراد کی ذہنی و اخلاقی تربیت اور معاشرے کی اصلاح کے ذریعے سے کرتی ہے، تاکہ آزاد سعی و جہد کی معیشت کے منطقی تقاضوں کو برقرار رکھتے ہوئے معاشی انصاف کا مقصد حاصل ہوسکے۔ (نکات5۔22)
-10 معاشرے کے مختلف عناصر میں طبقاتی کشمکش پیدا کرنے کے بجائے وہ اس کے اسباب کو ختم کرکے ان کے درمیان تعاون اور رفاقت کی روح پیدا کرتی ہے۔ (نکات 22,21,17-15,12-6,4)
یہ اصول نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہد میں جس طرح عملاً ریاست اور معاشرے کے نظام میں نافذ کیے گئے تھے اس سے ہم کو احکام اور نظائر کی شکل میں بہت سی مزید تفصیلات حاصل ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بحث اس باب کے موضوع سے خارج ہے۔ اس کے متعلق حدیث، فقہ، تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں وسیع مواد موجود ہے جس کی طرف تفصیلات کے لیے رجوع کیا جاسکتا ہے۔