اس وقت ہم مطالعے کی میز پر ساکت و صامت بیٹھے، ڈاکٹر فریداحمد پراچہ کی ’’عمرِ رواں‘‘ کے ہم رکاب ہیں اور سیر جہاں کرنے میں مصروف ہیں:
بیٹھ کر سیر دو جہاں کرنا
یہ تماشا کتاب میں دیکھا
کتاب کیا ہے، واقعی عمر رواں ہے۔ وہی عمر رواں جس سے ادیب سہارن پوری نے دست بستہ التجا کی تھی کہ’’اے مری عمررواں اور ذرا آہستہ‘‘۔ اس کتاب میں ہم فرید بھائی کے بچپن سے اُن کے ساتھ سفر کا آغاز کرتے ہیں اور ہانپتے کانپتے چلتے ہوئے اُن کے بڑھاپے پر پہنچ کر دم لیتے ہیں۔یہ ’بڑھاپا‘ اُن پرہم نے طاری نہیں کیا ۔کتاب کے صفحہ نمبر ۳۹۵ پرانھوں نے خود انکشاف کیا ہے کہ انھیں سٹھیائے ہوئے دس برس بیت چکے ہیں۔ ثبوت کے طور پراس سے قبل صفحہ ۳۸۴ پر اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی تعداد اور تفصیل سے بھی فرداً فرداً آگاہ فرما چکے ہیں۔
کہنے کو تو یہ خود نوشت، ایک ’آپ بیتی‘ ہے، مگر پڑھنے پر پتا چلتا ہے کہ یہ وہ بپتا ے جو ہماری پوری نسل پر بیتی ہے۔ پراچہ صاحب ۱۹۴۹ء یا ۱۹۵۰ء میں پیدا ہوئے۔ ہمارا ورُود اس عالم وجود میں ۱۹۵۶ء میں ہوا۔ بس چھے سات برس کے فرق سے یہ وہی دنیا ہے جس میں ہم نے بھی سانسیں لی ہیں۔
اپنے ذاتی اور خاندانی واقعات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مصنف نے اس کتاب میں قومی سوانح عمری بھی پیش کر دی ہے۔ مگرقومی تاریخ کا اندازِ بیان محض واقعاتی نہیں، تاثراتی بھی ہے۔ اس وجہ سے تاریخ کو زیریں سطح پر سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ بالائی سطح کی تفصیلات تو جابجا مل جاتی ہیں۔ عوامی احساسات جاننے کے لیے یہ کتاب نہایت مفید ہے۔ مثلاً ۱۹۶۳ء میں جماعت اسلامی کے اجتماع پر غنڈوں کا جو حملہ ہوا تھا، اُس کا آنکھوں دیکھا حال پوری تفصیل سے درج ہے۔ یہاں تک کہ یہ مشاہدہ بھی ملتا ہے کہ جب غنڈوں نے اسلامک پبلی کیشنز کے اسٹال پر دھاوا بولا تو عبدالوحید خان صاحب نے اپنے دونوں ہاتھ میز پر جما دیے اور کہا:
’’ارے بھائی کیا کر رہے ہیں؟‘‘
اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ غنڈوں کا مقابلہ کتنے نفیس لوگوں سے تھا۔یوں تو اس کتاب میں تمام واقعات بے کم و کاست بیان کیے گئے ہیں، مگر مصنف نے اپنی ایک مجبوری بھی بے کم و کاست بیان کر دی ہے۔ کتاب کے صفحہ نمبر ۲ پر لکھتے ہیں:
’’کتاب میں بعض واقعات کو اتنا ہی کھول کر بیان کیا ہے جتنی ضرورت اور اجازت تھی‘‘۔
لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کے چشم دید واقعات بھی بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔یوں تو کتاب میں محترم جاوید ہاشمی کا جابجا ذکر ہے، مگر اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر ’’بنگلہ دیش نامنظور‘‘ تحریک کے سلسلے میں پولیس کے سخت پہرے کے باوجود جو احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اُس میں جاوید ہاشمی کا کوئی ذکر نہیں۔ باقی تمام جزئیاتی تفاصیل موجود ہیں کہ کس طرح شیخ مجیب الرحمٰن کی گاڑی کے آگے بینر لہرا دیے گئے اور پولیس نے کس طرح ایک ایک کو پکڑ کر گٹھریوں کی طرح اپنے ٹرک میں پھینک دیا۔ (صفحہ ۱۳۵۔۱۳۶) اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کا زمانہ بھی فروری ۱۹۷۴ء کی جگہ غلطی سے فروری ۱۹۸۴ء لکھا گیا ہے۔ (صفحہ ۱۳۳)
فرید بھائی سے ہم اپنے دورِ جمعیت سے واقف ہیں۔ اُس وقت سے جب یہ انجمن طلبہ جامعہ پنجاب کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ جامعہ پنجاب کے اُن انتخابات میں ایک دلچسپ نعرہ لگایا جاتا تھا، جو ہماری عمر کے بہت سے ساتھیوں کو آج بھی یاد ہے: ’’ظلم کے منہ پر ایک طمانچہ … فرید پراچہ، فرید پراچہ‘‘ مگر ہم نے ’یہ طمانچہ کتاب میں دیکھا‘ کہ اس مشہور و معروفطمانچے کا ذکر ہی نہیں۔ دوسرے نعرے موجود ہیں مثلاً:’’بلّے بلّے ٹوہر پراچے دی‘‘۔ وغیرہ۔
سن ساٹھ کے بعد شروع ہونے والی دہائی میں جماعت اسلامی کے متعلق ایک کہاوت زباں زدِ خاص و عام تھی۔ ’اس جماعت کے اثرات صرف تعلیم یافتہ طبقات تک محدود ہیں‘۔ سچ پوچھیے توزیادہ اثرات تعلیم یافتہ نہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات اور زمرۂ علما میں تھے۔ ۱۹۷۰ء میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کا تفصیلی تجزیہ محترم خرم جاہ مرادؒ اپنی خود نوشت ’لمحات‘ میں کر چکے ہیں۔ اس عاجز کا خیال ہے کہ اُن انتخابات میں کراچی سے جن دو نشستوں پر جماعت اسلامی کو کامیابی ہوئی ، محمود اعظم فاروقیؒ اور پروفیسر عبدالغفور احمدؒ کی نشست پر، بلکہ تیسری یعنی جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ امیدوار مولانا ظفر احمد انصاریؒ کی نشست پر بھی، تو اس کا سبب یہ تھا کہ ان حلقوں کے رائے دہندگان کی اکثریت تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل تھی۔ جب کہ ڈاکٹر نذیر شہیدؒ اور صاحبزادہ صفی اللہؒ کی کامیابی میں ان کی عوامی مقبولیت کابھی دخل تھا۔ ستر کے انتخابات کے حالات بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر فرید پراچہ لکھتے ہیں:
’’ایک ایسے مرحلے پر جب ذوالفقار علی بھٹو اور پی پی کی انتخابی مہم روٹی کپڑا اور مکان کا جنون پیدا کر رہی تھی۔ جماعت اسلامی کے امیدواران و مقررین دیہاتوں، کچی آبادیوں اور ان پڑھ بستیوں میں ۱۹۵۶ء کے آئین کی خوبیاں سنا رہے تھے۔ یہ تقاریر سامعین کے سروں سے اوپر ہی اوپر گزر جاتیں۔ قومی اسمبلی کی ایک نشست پر ہمارے امیدوار کچی آبادی کے ایک جلسے میں عالمی استعماری سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے صدر سوئیکارنو کے ’پنج شیلا‘ کے نکات کو زیر بحث لارہے تھے، جب کہ ُاس وقت مجھ سمیت جماعت اسلامی کے کسی کارکن کو بھی ’پنچ شیلا‘ کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا‘‘۔ (صفحہ ۱۱۰)
اکثر حلقے ایسے تھے جن میں عوام کے معیارِ فہم کے مطابق خطاب کرنے والے امیدوار نہیں کھڑے کیے گئے تھے۔ ہمارے (ملیر، کراچی کے) حلقے میں بھی جو عالم و فاضل اور انتہائی دیانت دار و باکردار بزرگ عبدالحفیظ پیرزادہ کے مقابلے میں کھڑے کیے گئے تھے وہ انتخابی جلسوں میں اللہ کی نعمتوںکا ذکر کرتے ہوئے شہد کے خواص بیان فرمایا کرتے تھے۔
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ہمارے ملک کے موجودہ سیاسی لیڈروں کی کھیپ کے منہ پر بھی ایک طمانچہ ہیں۔ اس قوم کے لیڈر بننے والوں میں اب کتنے ایسے رہ گئے ہوں گے جنھیں پڑھنے لکھنے اور تصنیف و تالیف سے دلچسپی ہو؟ پراچہ صاحب ۱۹۹۰ء تا ۱۹۹۳ء رکن صوبائی اسمبلی (پنجاب) رہے ہیں اور ۲۰۰۲ء تا ۲۰۰۸ء رکن قومی اسمبلی۔ جماعت اسلامی کی تنظیمی ذمہ داریاں بھی ان کے سر رہی ہیں۔ اس کے باوجود زیر تبصرہ کتاب سمیت ان کی پندرہ تصانیف اب تک منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان تصانیف میں سفرناموں کے علاوہ قرآن و حدیث کی تدریس ، حرمتِ سود، مطالعۂ مذاہب عالم اور عربی زبان و ادب کے موضوعات پر شائع ہونے والی کتب بھی شامل ہیں۔قادیانیت کے موضوع پر انگریزی میں بھی ایک کتاب ہے۔ تحریکِ ختم نبوت ۱۹۷۴ء اسلامی جمعیت طلبہ کی ایک بھرپور اور کامیاب تحریک تھی۔ اس موضوع پر کراچی کے واقعات ہم بھی لکھ چکے ہیں۔ پراچہ صاحب نے اس کتاب میں بڑی تفصیل سے اُس زمانے کے تمام حالات تحریر کیے ہیں اور اپنے ساتھ ہونے والے سنسنی خیز واقعات کا بھی ذکر کیا ہے۔
کتاب میں ذاتی واقعات اور قومی حالات ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ مسلسل مضمون لکھنے کے بجائے پوری کتاب چھوٹے چھوٹے پیروں میں تقسیم کرکے ان پیروں کے دل کش عنوانات مقرر کر دیے گئے ہیں، جس سے دلچسپی بڑھ جاتی ہے اور کتاب خوانی میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔ پراچہ صاحب کا انداز تحریر بھی ادیبانہ اور شگفتہ ہے۔ شرارتوں کے متعدد شوخ واقعات بھی کتاب میں موجود ہیں۔ اسی طرح مولانا مودودیؒ کی شگفتہ مزاجی کا ایک واقعہ ہم نے پڑھ تو رکھا تھا، مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ مولانا کا فقرہ کس کے متعلق تھا۔ ’’سید مودودیؒ ۔پہلی ملاقات‘‘ کے عنوان کے تحت رقم طراز ہیں:
’’مجھے میانوالی کا ریلوے اسٹیشن یاد ہے جہاں ماڑی انڈس آکر رکی تو فضا فاتحِ تختۂ دارمودودیؒ کے نعروں سے گونج اٹھی۔ پلیٹ فارم پر اور اس کے باہر استقبالیوں کی دو رویہ قطاریں تھیں۔ سفید براق لباس میں ملبوس سید مودودیؒ نپے تلے قدموں سے چل رہے تھے۔ قطار میں کھڑے اہلِ شہر بالخصوص معززین شہر سے انہیں ملایا جا رہا تھا۔قطار میں میں بھی کھڑا تھا۔ ایک چھوٹا سا بچہ جس سے سید مودودیؒ نے ہاتھ ملایا۔ ان کے نرم ہاتھوں اور گرم جوش مصافحے کا لمس اب تک ذہن میں محفوظ ہے۔
’’مولانا یہ مولانا گلزار احمد مظاہری کے بیٹے فرید ہیں‘‘۔ کسی نے تعارف کرایا۔
’’تو یوں کہیے نا کہ یہ گُلِ گُلزار ہیں‘‘۔ مولانا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
فضا مسکراہٹوں ہی نہیں ہلکے قہقہوں سے بھر گئی‘‘۔ (صفحہ ۳۵)
واقعات کے ساتھ شخصیات پر بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا گیا ہے، جس میں متعدد مشاہیر شامل ہیں۔ حتیٰ کہ جیل میں جنرل رانی سے ملاقات کا احوال بھی رقم کیا ہے۔ضیاء الحق سے ملاقاتوں کا ذکر کرنے کے بعد، اُن سے سیاسی اختلاف رکھنے کے باوجود، اُن کی توصیف کی ہے:
’’حقیقت یہ ہے کہ ضیاء الحق میں عاجزی اور انکسای کی صفات موجود تھیں۔انھوں نے اسلامائزیشن کی بھی کوششیں کیں۔ 62.63کو زیادہ بہتر بنانے کی طرف قدم اٹھایا۔ زکوٰۃ و عشر کا نظام قائم کیا، حدود و تعزیرات کے قوانین جاری کیے، لیکن ان کی اسلامائزیشن عملی شکل نہ اختیار کر سکی ، جس کی وجہ سے اسلامی نظام کے مقاصد کو بھی نقصان پہنچا‘‘۔ (صفحہ ۲۶۰)
اپریل ۲۰۲۱ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کا اختتام موجودہ دور پر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اس میں کورونا وائرس کے اثرات کا بھی ذکر ہے۔رمضان پر اس وبا کے جواثرات پڑے اور معمولاتِ زندگی نے جو رُخ اختیار کیا ڈاکٹر صاحب نے سب کو مندرج کر دیا ہے۔ اختتام پر اپنی ایک نظم (بعنوان: ’’یہ دھرنا چلے گا‘‘) شامل کی ہے، جس کے بعد اپنی تاریخی تصاویر کا رنگا رنگ مرقع شامل کیا گیا ہے۔
تصویری مرقع کے علاوہ ۳۹۸ صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتاب کو قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل نے شائع کیا ہے۔قیمت ۸۰۰ روپے ہے۔طباعت بہت عمدہ ہے۔ تزئین اس سے بھی عمدہ۔صفحات کے سرے سنہرے رنگ سے اس طرح چمکادیے گئے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے یہ کتاب چھاپہ خانے سینہیں، سنگھار خانے (Beauty Parlor) سے چھپ کر آئی ہے۔