یرقان کچھ ,مزید باتیں

”بھوک نہیں لگتی۔ تھکن، پیلا رنگ، الٹی…. کہیں یرقان تو نہیں؟“
”چند دنوں سے نوٹ کررہے ہیں اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا، پیٹ میں درد بتاتی ہے، یہاں معدے میں“ (ہاتھ کے اشارے سے نشان دہی کرنے لگیں)۔ ایک دم پیلا رنگ ہورہا ہے، بس لیٹنے کو جی چاہتا ہے اس کا۔“
گرمی کے موسم میں اکثر اس طرح کی شکایات ملتی ہیں۔ کبھی کبھی صرف بخار اور بھوک نہ لگنے کی شکایت، کبھی صرف الٹیاں اور پیٹ میں درد، اور کبھی صرف بھوک نہ لگنا۔
پیلیا (یرقان) آخر ہے کیا، کیوں ہوتا ہے، کیا ہم اس سے بچ سکتے ہیں؟ اور اگر ہوجائے تو کیا کریں؟
بچوں کے ڈاکٹر سے والدین کے بیشتر اسی طرح کے سوالات ہوتے ہیں۔
”ہم تو کھانا بھی اسٹینڈرڈ کی جگہ سے کھاتے ہیں“، کبھی کبھی سمجھانے پر اُن کا شکوہ۔
انسانی جسم میں خون کے سرخ ذرات RBC آکسیجن اور غذائی اجزاء کو جسم کے ایک ایک خلیے (Cell) تک پہنچانے کی قدرتی ذمہ داری بہترین طریقے سے ادا کرتے ہیں۔ خون کے یہ ذرات جب کسی وجہ، بیماری، یا قدرتی طور پر ٹوٹتے ہیں تو ان میں سے پیلے رنگ کا ایک مادہ نکلتا ہے جس کو بلی روبن (Bilirubin) کہا جاتا ہے، یہ کیمیائی مرکب انسانی جسم میں جگر اور پتے کے کیمیائی مرکبات کے ذریعے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔
جب سرخ ذرات کے ٹوٹنے کی رفتار بڑھ جائے اور ان کی کنٹرول کرنے کی صلاحیت اس پر مکمل قابو پانے میں کامیاب نہ ہو، یعنی جتنی صلاحیت اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم میں رکھی تھی بلی روبن (Bilirubin) کی مقدار اس سے زیادہ ہوگئی ہے تب وہ انسانی جلد (Skin) اور آنکھ میں پیلے پن کی صورت ظاہر ہونے لگتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب ہوتا کیوں ہے اور عمر کے مختلف حصوں میں کس طرح ہوتا ہے؟
مثلاً نومولود بچوں میں تقریباً 60 فیصد میں جانڈس یعنی پیلاپن نظر آتا ہے، پری میچور بچوں میں یہ شرح80-90 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ وجہ ماں اور بچے کے بلڈ گروپ کا فرق… مثلاً اگرماں O پازیٹو ہے اور بچہ A, B , AB گروپ کا ہے تو اُس میں پیلیا کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
دوسری جانب اگر ماں کا دودھ شروع میں کم ہے یا دوسرے ہفتے میں ماں کے دودھ کی وجہ سے جانڈس (Lactose Intolerance)، کبھی کبھی بچے کے خون کے سرخ ذرات میں قدرتی طور پر کسی کیمیائی مرکب کی کمی جیسے G6PD وغیرہ، یا تھائیرائیڈ گلینڈ کے مسائل (TSH) وغیرہ۔
بڑے بچوں میں ان سے ہٹ کر بالکل ہی مختلف وجوہات دکھائی دیتی ہیں۔
ہمارے ملک میں بڑے بچوں میں پیلیا (یرقان) کی وجہ عام طور پر وائرل انفیکشنز ہی ہوتی ہے۔ جیسے کہ ہیپاٹائٹس A,B,C,D,E اور اب ہیپاٹائٹس G بھی… مگر اکثریت پاکستان میں ہیپاٹائٹس A اور اس سے کم ہیپاٹائٹسB کاشکار ہوتی ہے۔
ان وائرل انفیکشنز سے ہوتا کیا ہے اور یہ لگتے کیسے ہیں، یہ بہت اہم اور کنٹرول کرنے کے قابل وجوہات ہیں۔
جب یہ وائرس انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں تو جگر پر حملہ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے جگر میں توڑ پھوڑ اور جگر کے خامروں (Enzymes) کے خون میں زیادتی ہوجاتی ہے۔
مثلاً اگر دو تین بڑی وجوہات کو سمجھ لیا جائے تو ہم بآسانی A B C قسم کے وائرس سے بچوں کو بچا سکتے ہیں ، باقی وائرس ان کے علاوہ بھی ہیں، اور ان میں سے کچھ سے بچاؤ ذرا مشکل ہے، مگر ان کے نمبر بھی پاکستان میں کم کم ہی ہیں۔
اس لیے ہیپاٹائٹس A سے بچنے کا سب سے موثر اور آسان طریقہ ہے کھانے، پینے کی چیزوں میں احتیاط۔ چونکہ یہ کھانے، پینے کی چیزوں سے ایک سے دوسرے تک پہنچتا ہے اس لیے اگر ہم پانی صاف استعمال کریں، ابال کر پئیں تو بہتر ہے۔ کھانا گھر کا کھائیں، باہر کھانا مجبوری ہے تو سوچ سمجھ کر کھائیں۔ اس طرح اس بات کے امکانات ہیں کہ ہم اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو وائرل ہیپاٹائٹس Aسے بچاسکتے ہیں۔ اس سلسلے کی بہت ہی اہم بات… ہیپاٹائٹس A انسانی جسم سے اس کی پوٹی میں خارج ہوتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ فراغت کے بعد لازمی طور پر صابن سے اچھی طرح ہاتھ دھوئے جائیں، اور کھانا کھانے یا چھوٹے بچوں کو کھلانے سے پہلے بھی۔ عام طور پر بچوں کی مائیں اُن کا بچا ہوا کھانا کھا لیتی ہیں جو کہ ایک بہت ہی اچھی بات ہے کہ اس طرح رزق ضائع نہیں کرتیں۔ مگر جن بچوں کو ہیپاٹائٹسA ہو، ان کی مائیں ان بچوں کا بچا ہوا کھانا کھانے سے گریز کریں، کیونکہ یہ وائرل انفیکشنز ان کو کھانے کے ذریعے لگ سکتے ہیں۔
ہیپا ٹائٹسB، Cکے لگنے کا طریقہ تقریباً ایک جیسا ہے، یعنی جسم کی رطوبتوں (Secretions/Fluids) کے ذریعے… تو وہ تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں جن سے ایک شخص کا خون اور رطوبت (Fluids) دوسرے کے جسم میں داخل نہ ہوسکے۔ مثلاً بچوں کو ٹیکہ لگایا جارہا ہو تو صاف اور نئی سوئی (Needle) استعمال کروائیں، کبھی اگر بلڈ ٹرانسفیوژن کی ضرورت ہو تو بلڈ ٹرانسفیوژن کی تمام تر احتیاطوں کے ساتھ لگایا جائے۔ ہیپاٹائٹس B, Cکا علاج ادویہ کے ذریعے ممکن ہے۔
ھیپاٹائٹس A, Bکی ویکسین دستیاب ہیں اور نیوبورن ویکسین کے پروگرام میں شامل ہیں، اس لیے والدین کی ذمہ داری ہے کہ ویکسین وقت پر ضرور لگوائیں۔
وائرل انفیکشنز دیگر بھی ہوتے ہیں، مگر ان سے متاثرہ افراد کی تعداد کم ہی ہوتی ہے ہمارے ملک میں۔ اس لیے جب بھی کسی بچے کو ہیپاٹائٹس ہو تو اس کا تفصیلی معائنہ اور ضروری لیبارٹری ٹیسٹ ہونے چاہئیں، تاکہ وجوہات کا پتا چلا کر اس کا ممکن علاج کیا جاسکے۔
اب کچھ بات صرف پاکستان کے ماحول کے حوالے سے کرتے ہیں۔
ہمارے ملک میں بچوں میں چونکہ وائرل ہیپاٹائٹس A زیادہ ہوتا ہے، اور اس کے بارے میں ہمارے معاشرے میں بہت سی غلط باتیں گردش میں ہیں، اس لیے ان کی تصحیح بہت ضروری ہے،
مثلاً بچوں کو کچھ نہ کھلائیں اور صرف جوس ہی پلائیں، وغیرہ وغیرہ۔
جب بچے کو وائرل A جانڈس ہوتا ہے تو اس کا علاج چونکہ کوئی نہیں اور یہ اپنے وقت پر ہی جسم سے غائب ہوگا،(باقی صفحہ 41پر)
مگر اس دوران جگر کی سوجن کی وجہ سے جسم کا پاور ہاؤس بالکل ایسے ہوتا ہے جیسے شہر میں بجلی کا بریک ڈاؤن۔ اس لیے انسان کو متبادل ذرائع رکھنا ضروری ہے۔
انسانی جگر چونکہ غذائی اجزاء کو ہضم کروانے اور ان میں موجود فاسد مادوں کو خارج کرنے کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، اس لیے جب یہ وقتی طور پر خراب ہوجائے تو اس کا کام بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے جب بچہ وائرل ہیپاٹائٹس A کی وجہ سے بیمار ہو تو اس کے کھانے اور پینے کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس کو پانی اور جوس کا زیادہ استعمال کروائیں، مگر جوس تازہ پھلوں کا ہو۔ اس کو پھلوں کا زیادہ استعمال کروائیں تاکہ بہتر فائبر ملے اور وہ قبض کا شکار نہ ہو، اور اس کا پیلیا (یرقان) پوٹی کے راستے اور پیشاب کے ذریعے خارج ہو۔ اس کو ایسی غذائیں دیں جو جلد ہضم ہونے والی ہوں، جس کے لیے جگر کو زیادہ کام نہ کرنا پڑے۔ چکناہٹ اور مسالہ جات سے پرہیز کروائیں۔
ایک سال سے زائد عمر کے بچوں کو شہد کا لازمی استعمال کروائیں۔
مکمل طور پر بیمار بناکر بستر تک محدود کرنے کے بجائے گھر میں روزمرہ کی زندگی گزارنے دیں۔
جانڈس (یرقان) کی دیگر وجوہات بھی ہوتی ہیں، اس لیے پہلے مکمل تشخیص اور اس کے بعد علاج۔
جانڈس کی بہت ساری وجوہات ہوتی ہیں، احتیاط کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے ان سے بچاؤ ممکن ہے۔ اس لیے احتیاط علاج سے بہتر ہے۔